تحریریں

ماؤں کے عالمی دن کی بنیاد رکھنے والی خاتون اینا جارویس

مدرز ڈے یعنی ماؤں کا عالمی دن دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ہر برس مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے لیکن اس دن کو منانے کی موجب بننے والی خاتون اگر آج زندہ ہوتیں تو رواں سال کے حالات کے پیش نظر اس دن کے جشن کو چھوٹی سطح پر منانے کی منظوری دیتی۔

اس دن کی کمرشیلائزیشن نے انھیں اس قدر خوف زدہ کردیا تھا کہ کہ انھوں نے اس کو ختم کرنے کے لیے مہم بھی چلائی تھی۔

جب الزابتھ بر کو کچھ دن پہلے کسی کا فون آیا اور وہ ان کی خاندانی تاریخ کے بارے میں پوچھنے لگے تو انھوں نے ابتدا میں سوچا کہ کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے سوچا، اچھا! تو میری شناخت چوری ہو گئی ہے اور اب مجھے اپنے پیسے کبھی نہیں ملیں گے۔‘

درحقیقت یہ فون ایک خاندانی تاریخ کے محقق کی طرف سے آیا تھا جو اینا جارویس کے زندہ رشتہ داروں کی تلاش میں تھے۔ اینا جاروس وہی خاتون ہیں جنھوں نے ایک صدی قبل امریکہ میں یوم مادر یا مدرز ڈے کی بنیاد رکھی تھی۔

اینا جارویس اپنے والدین کے 13 بچوں میں سے ایک تھیں جن میں سے صرف چار بچے ہی سن بلوغت کو پہنچے۔ ان کے بڑے بھائی ہی واحد شخص تھے جن کے اپنے بچے ہوئے۔ ان کے بھی کئی بچے کم عمری میں ہی فوت ہو گئے اور ان سب کی موت ٹی بی یعنی تپ دق سے ہوئی تھی۔ ان کے آخری براہ راست وارث کا 1980 کی دہائی میں انتقال ہو گیا۔

چنانچہ مائی ہیریٹیج کی الزابتھ زیٹلانڈ نے پہلے کزنز یعنی ماموں زاد، چچا زاد اور خالہ زاد بچوں کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی توجہ الزابتھ بر کی طرف گئی۔

اپنی والدہ کے خواب کو پورا کرنے کا عہد کیا تھا حالانکہ مدرز ڈے جیسے یادگار دن کے متعلق ان کا خیال اس وقت بالکل ہی مختلف تھا۔

جہاں مسز جاریوس دوسروں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے کاموں کے لیے ماؤں کا جشن منانا چاہتی تھیں وہیں اینا کا نظریہ ایک عقیدت مند بیٹی کا تھا۔ مدرز ڈے کا ان کا نظریہ تھا ‘دنیا میں آنے والی بہترین ماں کے لیے (جشن منانا) جو آپ کی ماں ہے۔’ یہی وجہ ہے کہ ماؤں کی جگہ ماں ہے یعنی مدرز کے ایس میں جو ایپاسٹروفی ہے وہ ایس کے پہلے ہے نہ کہ بعد میں۔

لیکن یہ بالکل وہ نہیں تھا جو اینا چاہتی تھیں۔

جب کارنیشن یا گلنار کی قیمت آسمان چھونے لگی تو انھوں نے گل فروشوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کیا: ‘آپ چالبازوں، ڈاکوؤں، قزاقوں، بہروپیوں، لٹیروں، اغوا کرنے والوں اور دوسرے دیمکوں کا کیا کریں گے جو اپنی حرص کے لیے بہترین، نیکی اور صداقت کی سب سے اچھی تحریکوں اور جشن میں سے ایک کو برباد کرنے پر تلے ہوں؟’

سنہ 1920 تک وہ لوگوں پر زور دے رہی تھیں کہ وہ پھول ہر گز نہ خریدیں۔

 کمرشلائزیشن کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی پائی پائی خرچ کر دی۔

یہاں تک کہ اس کے قومی تعطیل بننے سے پہلے انھوں نے ‘مئی کا دوسرا اتوار، مدرز ڈے’ کے فقرے پر جملہ حقوق محفوظ کا دعویٰ کیا اور دھمکی دی تھی کہ جو بھی اجازت کے بغیر اس کی مارکیٹنگ کرے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اینتولینی کہتی ہیں کہ ‘کبھی کبھی گروہ یا صنعتیں اینا کے کاپی رائٹ سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر مدرز کی ہجوں میں ایس کے بعد اپاسٹرافی لگاتے۔

سنہ 1944 میں نیوز ویک کے ایک آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کے متعلق 33 مقدمے زیر سماعت ہیں۔

اس وقت تک وہ 80 سال کی ہو چکی تھیں اور تقریباً نابینا، بہری اور بے سہارا ہو چکی تھیں اور فلاڈیلفیا کے ایک سینیٹوریم میں ان کی دیکھ بھال کی جارہی تھی۔

ایک عرصے سے یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ پھولوں اور کارڈز کی صنعتیں اینا جارویس کی دیکھ بھال کے لیے خفیہ طور پر پیسے دیتی ہیں، لیکن ایتولینی کبھی بھی اس کی تصدیق نہیں کرسکیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘میں یہ چاہوں گی کہ انھوں نے ایسا کیا ہو، یہ شاید ایک اچھی کہانی ہوسکتی ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے۔’

اینا جب اپنی بہن کے ساتھ رہ رہی تھیں تو انھوں نے آخری کام جو کیا وہ یہ تھا کہ وہ فلاڈیلفیا میں گھر گھر جاکر لوگوں سے دستخط کرواتیں کہ مدرز ڈے کو منسوخ کر دیا جائے۔ ایک بار جب انھیں سینیٹوریم میں داخل کرا دیا گیا تو للیان جلد ہی کاربن مونو آکسائیڈ زہر کی وجہ سے فوت ہوگئیں کیونکہ وہ ایک بوسیدہ گھر کو گرمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اینتولینی کا کہنا ہے کہ ‘پولیس نے دعوی کیا کہ وہاں اتنی ٹھنڈک تھی کہ چھت سے برف کی شبیہیں لٹک رہی تھیں۔’ جبکہ اینا سنہ 1948 میں نومبر میں دل کی ناکامی سے انتقال کر گئیں۔

اینا کی فرسٹ کزنز (اور الزبتھ بر کی خالہ) 86 سالہ جین انکیفر کا کہنا ہے کہ اینا جارویس کو کمرشلائزیشن مخالف صلیبی جنگ کا جنون تھا۔

وہ کہتی ہیں: ‘مجھے نہیں لگتا کہ وہ بہت زیادہ دولت مند تھیں، لیکن وہ جو بھی پیسہ رکھتی تھیں انھوں وہ سب اس پر ختم کر دیا۔

‘یہ شرمناک ہے۔ میں نہیں چاہوں گی کہ لوگ یہ سوچیں کہ ان کا خاندان ان کی دیکھ بھال نہیں کررہا تھا لیکن ان کا خاتمہ ایک بھکاری کی قبر کی طرح ہوا۔’

شاید وہ ان کی زندگی کے اختتام پر ان کی مدد کرنے میں کامیاب نہ ہوئے ہوں لیکن اس خاندان نے اینا کی یاد کو ایک دوسری طرح سے قائم رکھا کہ کئی نسلوں تک انھوں نے مدرز ڈے نہیں منایا

جین انکیفر کہتی ہیں: ‘ہمیں واقعی مدرز ڈے پسند نہیں تھا۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میری والدہ نے بچپن میں ہی مدرز ڈے کے بارے میں بہت سی منفی باتیں سنی تھیں۔ ہم اسے ایک اچھے جذبے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم عالیشان ڈنر یا گلدستون کا احتمام نہیں کرتے۔’

ایک نوجوان ماں کے طور پر فلاڈیلفیا میں مدرز ڈے کے اعزاز میں لگی تختی کے سامنے جین رک جاتی تھیں اور اینا کے بارے میں سوچتی تھیں۔ جین کا کہنا ہے کہ ‘یہ ایک طمانیت بخشنے والی کہانی ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ محبت ہے۔ اور میں سوچتی ہوں کہ اس سے ایک اچھی چیز باہر آئی۔ لوگ اپنی ماں کو اسی طرح یاد کرتے ہیں جس طرح وہ ان سے یاد کیے جانے کی خواہش رکھتی ہیں۔’

جین نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اب جشن کے بارے میں اپنا خیال بدل لیا ہے۔ ‘بہت ساری نسلوں کے بعد میں ان سب منفی باتوں کو بھول گئی ہوں جو میری والدہ نے اس کے بارے میں کبھی کہی تھیں اور اگر میں اپنے بچوں کی جانب سے اس موقعے پر کوئی خیر خبر نہیں سنتی ہوں تو میں بہت ناراض ہوجاتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ میرا اور میرے دن کا احترام کریں۔’

جین کی چھوٹی بہن ایملی ڈی اولیئر نے بھی وقت کے ساتھ مدرز ڈے کے متعلق اپنے رویہ میں تبدیلی محسوس کی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘مجھے اس کے بارے میں واقعتا اس وقت تک معلوم نہیں تھا جب تک کہ میرا اپنا بچہ سکول سے میرے لیے مدرز ڈے کا تحفہ لے کر گھر نہیں آیا تھا۔ ہماری والدہ کچھ اس طرح کہتی تھیں کہ ‘ہر دن مدرز ڈے ہوتا ہے۔”

ایک لمبے عرصے تک ایملی کو غم تھا کہ اینا کا اس دن کا اصل مقصد ناکام بنا دیا گیا لیکن اب وہ اپنی پوتی کی ماں یعنی اپنی بہو کو ایک کارڈ بھیجتی ہیں۔

رواں سال لاکڈاؤن کی وجہ سے بہت سے خاندان اپنی ماؤں کو پھول پیش نہیں کر سکیں گے جا ان کے ساتھ باہر کی سیر نہیں کر سکیں گے لیکن ویڈیو لنک کے ذریعہ مدرز ڈے منائیں گے۔

لیکن ینتولینی کا خیال ہے کہ اینا اور اس کی والدہ اس طرح کی کم سطح پر منائے والے جشن سے خوش ہوں گی۔ وہ تصور کرتی ہے کہ مسز جارویس جنھیں بہت سارے وبائی امراض کا تجربہ تھا وہ دوسروں کی مدد کے لیے پھر سے مدرز ڈے کلبز کو زندہ کریں گی۔ اور اینا خریداری کے مواقع کی عدم دستیابی سے خوش ہوں گی کہ جس کی وجہ سے اس کا اصل مقصد بادلوں میں کھو گیا تھا

یہ بھی پڑھیں