تحریریں

دولت مند افراد میں گہرے سمندروں کی سیاحت اتنی مقبول کیسے ہوئی؟

ہمارے سیارے کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ زیرِ آب ہے اور ایک ایسے دور میں جب زمین پر بہت کچھ دریافت ہو چکا ہے اور اس کی وضاحت بھی ہو چکی ہے، زیر آب سیاحت کی حالیہ لہر سیاحوں کو زمین کے راز یعنی سمندر کی گہرائی میں جانے کی ترغیب دے رہی ہے۔

زیر آب سیاحت کے حوالے سے نئے منصوبے، جیسے مالدیپ کے رنگالی جزیرے میں دنیا کا پہلا زیر آب ہوٹل اور ناروے میں دنیا کے ایسے سب سے بڑے ریستوران کا افتتاح، قائم کیے گئے ہیں۔

یہاں دولت مند سیاح زیر آب نئی دنیا کی تلاش کرتے ہیں خواہ ان کے پاس مہارت یا تربیت کی کمی ہی کیوں نہ ہو۔ اب جب امدادی کارکن بحرِ اوقیانوس میں لاپتہ ٹائٹن آبدوز کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں، شاید وقت آ گیا ہے کہ زیرِ آب سیاحت کی حدود پر نظر ثانی کی جائے۔

زیر آب سیاحت شاید ہی کوئی نیا تصور ہے۔ جیک کوسٹو نے 1942 میں عام استعمال کا سکوبا گیئر ایجاد کیا تھا اور پروفیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائیونگ انسٹرکٹرز، پی اے ڈی آئی نے 1967 سے اب تک دنیا بھر میں 27 ملین غوطہ خوری کے سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں۔

سکوبینومکس کے مطابق دنیا میں تقریباً چھ ملین فعال سکوبا غوطہ خور ہیں، اس کے علاوہ ان گنت سنارکلنگ کے شوقین ہیں، جو سمندروں کے کناروں کو تلاش کرتے ہیں، سمندروں کی تہوں میں پڑے ہوئے جہازوں کے ملبوں کو دیکھنے کے لیے غوطہ لگاتے ہیں، وہیل اور کچھوؤں کے ساتھ تیرتے ہیں اور یہاں تک کہ پانی کے اندر غاروں میں بھی جاتے ہیں۔

تاہم حال ہی میں ایسے لوگ بھی سمندروں میں ایڈونچر کر رہے ہیں جو ماہر غوطہ خور یا تیراک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس غوطہ خوری کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا وقت یا ذریعہ ہے۔

گریٹ بیریئر ریف کی سیر کو جانے کے لیے گرین آئی لینڈ میں شیشے کا ہیلمٹ پہن کر آپ زیر آب جا سکتے ہیں۔حفاظتی سوٹ میں ملبوس غوطہ خوروں کو آہستہ آہستہ سمندر کے فرش پر اتار دیا جاتا ہے جہاں وہ ریت پر سیدھے چلتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسی ٹیوبز لگی ہوتی ہیں جو انھیں پانی کے اندر معمول کے مطابق سانس لینے کے قابل بناتی ہیں۔

اس کے علاوہ ایسی آبدوزیں ہیں جو ہوائی سے ماریشس تک دنیا کے سب سے دلچسپ جزیروں اور ساحلی علاقوں کے ساتھ سفر کی پیش کش کرتی ہیں۔

یہ سیاحوں کے گروپوں کے لیے بڑی آبدوزوں سے لے کر انتہائی پرتعیش نجی آبدوزوں تک ہوسکتی ہیں، جیسے ڈیپ فلائٹ کی آبدوزیں جو مالدیپ میں فور سیزن ریزورٹ میں کام کرتی ہیں۔

یہ ماحول دوست اور ایئر کنڈیشنڈ آبدوزیں ہیں جن میں پائلٹ سیمت تین افراد کی گنجائش ہے اور ان میں زیر آب دنیا کا قریب سے نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آبدوزیں زیرِ آب کھوج کا مستقبل ہوسکتی ہیں کیونکہ اس کو چلانے کے لیے سکوبا یا تیراکی کا تجربہ ضروری نہیں ہے۔

لیکن ان آبدوزوں کے ذریعے زیرآب سیر کافی مہنگی ہے۔ مثال کے طور پر’ڈیپ فلائٹ‘ میں ایک گھنٹے کے سفر کے لیے ایک جوڑے کو 1500 ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ اسی طرح سینٹ لوشیا کے اردگرد کورل ریف سے گزرنے والا لوورز ڈیپ ہوٹل ایک پرتعیش آبدوز ہے جس کے اپنے شیف اور بٹلر تک ساتھ ہوتے ہیں۔ اس ڈیپ لوورز ہوٹل میں ایک رات کا کرایہ 150000 ڈالر سے شروع ہوتا ہے۔

اسی طرح گہرے سمندر میں ٹوور کرانے والی کمپنی ’اوشن گیٹ‘ ہے جس کی ایک آبدوز ٹائٹن حال میں بحر اوقیانوس میں تباہ ہوئی ہے جس میں پانچ سیاحوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

2022 کے خزاں میں ’اوشن گیٹ‘ نے جب ٹائیٹنک کے ملبے کے قریب ٹوور شروع کیے تو کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد عوام کے لیے گہرے سمندر کی سیر کو تجارتی طور پر قابل عمل بنانا ہے۔

لیکن غرقاب ٹائٹینک کو قریب سے دیکھنے کے لیے ٹکٹوں کی قیمت فی شخص 250000 ڈالر ہے، لہذا یہ تجربہ زیادہ تر مسافروں کی پہنچ سے دور رہا ہے۔

اس کے علاوہ ایسی آبدوزیں ہیں جو ہوائی سے ماریشس تک دنیا کے سب سے دلچسپ جزیروں اور ساحلی علاقوں کے ساتھ سفر کی پیش کش کرتی ہیں۔

یہ سیاحوں کے گروپوں کے لیے بڑی آبدوزوں سے لے کر انتہائی پرتعیش نجی آبدوزوں تک ہوسکتی ہیں، جیسے ڈیپ فلائٹ کی آبدوزیں جو مالدیپ میں فور سیزن ریزورٹ میں کام کرتی ہیں۔

یہ ماحول دوست اور ایئر کنڈیشنڈ آبدوزیں ہیں جن میں پائلٹ سیمت تین افراد کی گنجائش ہے اور ان میں زیر آب دنیا کا قریب سے نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آبدوزیں زیرِ آب کھوج کا مستقبل ہوسکتی ہیں کیونکہ اس کو چلانے کے لیے سکوبا یا تیراکی کا تجربہ ضروری نہیں ہے۔

لیکن ان آبدوزوں کے ذریعے زیرآب سیر کافی مہنگی ہے۔ مثال کے طور پر’ڈیپ فلائٹ‘ میں ایک گھنٹے کے سفر کے لیے ایک جوڑے کو 1500 ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ اسی طرح سینٹ لوشیا کے اردگرد کورل ریف سے گزرنے والا لوورز ڈیپ ہوٹل ایک پرتعیش آبدوز ہے جس کے اپنے شیف اور بٹلر تک ساتھ ہوتے ہیں۔ اس ڈیپ لوورز ہوٹل میں ایک رات کا کرایہ 150000 ڈالر سے شروع ہوتا ہے۔

اسی طرح گہرے سمندر میں ٹوور کرانے والی کمپنی ’اوشن گیٹ‘ ہے جس کی ایک آبدوز ٹائٹن حال میں بحر اوقیانوس میں تباہ ہوئی ہے جس میں پانچ سیاحوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

2022 کے خزاں میں ’اوشن گیٹ‘ نے جب ٹائیٹنک کے ملبے کے قریب ٹوور شروع کیے تو کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد عوام کے لیے گہرے سمندر کی سیر کو تجارتی طور پر قابل عمل بنانا ہے۔

لیکن غرقاب ٹائٹینک کو قریب سے دیکھنے کے لیے ٹکٹوں کی قیمت فی شخص 250000 ڈالر ہے، لہذا یہ تجربہ زیادہ تر مسافروں کی پہنچ سے دور رہا ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی سیاحتی ماہر تعلیم ڈاکٹر ہیلی سٹینٹن کا کہنا ہے کہ اگرچہ زیر آب سیاحت گہرے سمندر کے تصورات کی بہت دلکش تصاویر پیش کرتی ہے لیکن حقیقت میں ایسی سیاحت کم ہے۔ ’زیر آب نظارے بہت مہنگے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ زیر آب سیاحت کے لیے ایک مارکیٹ ضرور ہے لیکن یہ صرف امیروں اور چند لوگوں تک محدود رہے گی۔‘

لیس روچیز کی ترجمان پیٹریشیا روڈیلز مارٹینز، جنھوں نے 2019 میں پہلی خلائی اور زیر آب یونیورسل سیاحت اجلاس کا انعقاد کیا، کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ ’جیسے جیسے وقت کے ساتھ مانگ بڑھتی جائے گی، زیر آب سیاحت کے اخراجات کم ہو جائیں گے جیسے پہلے ہوائی جہازوں، کروز اور ہوٹلوں کے ساتھ ہوا ہے اور عام لوگوں اس تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔‘

چاہے زیر آب ساحت عام ہو پائے گی یا نہیں لیکن زیر آب نئے تجربات کا ایک ضمنی فائدہ ہے۔ اس سے لوگوں کو سمندروں کی دیکھ بھال کی ضرورت اور عالمی حدت میں اضافہ، حد سے زیادہ ماہی گیری اور آلودگی کی وجہ سے مرجان کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں آگاہی ہو رہی ہے۔

رش کے مطابق، اس کا دائرہ ’اوشن گیٹ‘ تک بھی پھیلا ہوا ہے جو شہری سائنسدانوں سے 12500 فٹ کی گہرائی میں حیاتیاتی تنوع کی تصاویر اور ویڈیوز کو خریدتے ہیں۔

اس کے علاوہ ماحولیاتی تحفظ اور سمندری حیات کے ماہرین کے تعاون سے ایسے زیر آب منصوبے جاری ہیں جن میں سمندری حیات کے بارے شعور اجاگر کرنے اور زیرِ آب سفر کے تجربے کو نہ صرف تفریحی بلکہ تعلیمی بنانے پر کام ہو رہا ہے۔

مراکز اپنے غوطہ خوری کے میدانوں کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرتے ہیں اور تحقیقی مراکز، خاص طور پر گریٹ بیریئر ریف پر، کورل بلیچنگ، پلاسٹک کے فضلے کے اثرات اور ریف کی تباہی جیسے موضوعات پر اپنی تحقیق دکھا رہے ہیں۔ وہ سیاحوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ یہاں سے نہ صرف ایک خوشگوار تجربہ بلکہ اس کا علم بھی حاصل کریں۔

واشنگٹن کے ساحل پر سی ویڈ کی اقسام کی نقشہ سازی سے لے کر گریٹ بیریئر ریف پر شارک اور کچھوؤں کا سراغ لگانے تک شہری سائنس کے اقدامات، مسافروں اور رضاکاروں کو سمندری ماحول اور سیاحت کے ممکنہ اثرات کی نگرانی میں مدد کرنے اور تحقیق کے لیے اہم اعداد و شمار فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ہماری زیر آب دنیا کی حفاظت کی ذمہ داری کو پوری کمیونٹی تک پھیلانے کا ضمنی فائدہ بھی ہے۔

انڈر واٹر مجسمہ پارکوں کی کامیابی، جیسے میکسیکو میں کینکن انڈر واٹر میوزیم آف آرٹ جو 2010 میں کینکن کلائمیٹ سمٹ کے حصے کے طور پر کھولا گیا تھا، پانی کے اندر سیاحت کو آرٹ کے ساتھ جوڑنے کا ایک قدم ہے تاکہ سیاحوں کو ایک نئی قسم کی زیر آب سیاحت کی طرف راغب کیا جا سکے۔ اس میں دلچسپی لینے والوں میں سکوبا غوطہ خور اور سمندری حیات کے شوقین شامل ہیں۔

 میں کھولے گئے گریٹ بیریئر ریف کی اینگارو انڈر واٹر مجسمہ ٹریل میں چھ آرٹ تنصیبات کی نمائش کی گئی ہے، جیسے ایک بڑا کچھوا، ایک مقامی دیوقامت ورسی اور منٹا رے مچھلی کی ہجرت، جسے سکوبا ڈائیونگ ٹووز یا کشتی کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ پانی میں اتنی گہرائی میں ڈوبے ہوئے نہیں ہیں کہ دیکھنے والے سیاح دیکھ سکیں۔

یہ ٹریل ابتدائی طور پر 2017 میں سمندری طوفان ڈیبی اور ریف کے زیادہ تر حصے کی تباہی کے بعد قائم کیا گیا تھا اور یہ نہ صرف ریف کی بحالی کے جاری منصوبے کا حصہ ہے بلکہ اس کا مقصد سمندری تحفظ اور مانٹا رے مائیگریش جیسے موضوعات پر بات چیت شروع کرنا بھی ہے۔

کوئنز لینڈ کے ساحل کے ساتھ تھوڑا آگے، ٹاؤنزویل، ایم او اے، میں آسٹریلیا کا پہلا انڈر واٹر آرٹ میوزیم چار مقامات پر پھیلا ہوا ہے، جن میں سے صرف ایک سکوبا غوطہ خوروں کے ذریعے قابل رسائی ہے اور برطانوی مجسمہ ساز جیسن ڈی کیئرز ٹیلر کی تنصیبات کی نمائش کرتا ہے۔

یہ پرکشش مقامات آرٹ کے نمونوں کے انتخاب اور اس کے ساتھ لگے سائن بورڈز کے ذریعے ریف اور سمندروں کی حالت زار کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

بہت سے طریقوں سے، زیر آب سیاحت کا خیال آرکٹک، ایمازون یا دیگر دور دراز اور ماحولیاتی طور پر نازک نظاموں کی مہمات کی طرح ہی ہے: ان مشکل مقامات کا دورہ کر کے مسافر ہمارے تیزی سے بدلتے ہوئے سیارے کی طاقت اور غیر یقینی صورتحال کو سمجھ سکتے ہیں۔

لیکن سمندروں کے نیچے بہت سارے تاریخی، قدرتی اور فنکارانہ پُرکشش مقامات کے ساتھ، یہ مقامی حکومتوں اور ٹوور آپریٹرز پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقامات کو ماحول دوست اور فائدہ مند طریقے سے محفوظ رکھا جائے۔

خطرہ یہ ہے کہ اگر ایک سائٹ بہت پرکشش ہو جاتی ہے تو سیاحوں کی بھیڑ اس کے قدرتی ماحول کو تباہ کر دے گی۔

آسٹریلیا کا میوزیم آف انڈر واٹر آرٹ گریٹ بیریئر ریف کی حالت زار کی کہانی بیان کرتا ہے

زیر آب سیاحت کے طریقوں جیسے ٹوور بوٹس اور واک ویز کی نگرانی کرنے اور سخت ہدایات پر عملدرآمد پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ سمجھدار سکوبا غوطہ خور بھی نادانستہ طور پر ایسے مقامات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہونے کے لیے سمندروں میں اترتے ہیں۔

یونیسکو جیسے گروپوں کی جانب سے پائیدار سمندری سیاحت کی ترقی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا حل مقامی حکومتوں اور کمیونیٹز کو مضبوط بنانے اور نگرانی کے نظام کو مضبوط کرنے میں مضمر ہے۔

کچھ ایسے منصوبے پہلے ہی موجود ہیں جن کی بین الاقوامی سطح پر نگرانی کی جاتی ہے اور جو مقامی کاروباری اداروں کو تعلیم دینے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سکوبا غوطہ خوری اور سنارکلنگ کی تعلیم کے ذریعے مرجان کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ متعدد رہنما اصول بنائے گئے۔

انھیں 11 ممالک اور بالی اور مصر کے مشہور زیر آب سیاحتی مقامات پر تقریباً 600 انفرادی سمندری سیاحتی کمپنیوں نے اپنایا ہے۔

ڈاکٹر سٹینٹن کا کہنا ہے کہ پانی کے اندر سیاحت کو پائیدار انداز میں فروغ دینے کے طریقے موجود ہیں جو مثبت اثرات کی اجازت دیتے ہیں۔

’مثال کے طور پر، ترکی کے ساحل کے قریب ڈوبنے والے ایک طیارے نے مصنوعی ریف کی تخلیق کے ذریعے اس علاقے میں سمندری زندگی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں