تحریریں

عمر کے ساتھ ہمارے بال سفید کیوں ہو جاتے ہیں؟

امریکی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے عمر کے ساتھ بالوں کے سفید ہونے کی وجہ دریافت کر لی ہے۔

ان سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جب بالوں کو سیاہ رکھنے والے خلیے اپنی پختگی کی صلاحیت کھو دیتے ہیں تو بال سفید ہونے لگتے ہیں۔

اگر یہ خلیے پختہ ہو جائیں ہیں تو میلانوسائٹس میں بدل جاتے ہیں، جو بالوں کی قدرتی رنگت کو برقرار رکھتا ہے۔ نیویارک یونیورسٹی کے محققین کی ایک ٹیم نے یہ تحقیق چوہوں پر کی ہے۔ چوہوں میں بالوں کے ایک ہی قسم کے خلیے ہوتے ہیں۔

تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ اس سے سفید بالوں کو دوبارہ سیاہ کرنے کا عمل شروع کرنے میں مدد ملے گی۔ برٹش ایسوسی ایشن آف ڈرمیٹالوجسٹ (بی اے ڈی) کے مطابق، میلانوسائٹس کے مطالعے سے بعض اقسام کے کینسر اور دیگر صحت کی حالتوں کا علاج تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

بال سفید کیسے ہوتے ہیں؟

ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں اور مارے بال گرتے رہتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا معمول کا عمل ہے جو پوری زندگی چلتا رہتا ہے۔ بال جلد میں موجود بالوں کے غدود سے نکلتے ہیں، جہاں بالوں کو سیاہ رکھنے والے خلیات موجود ہوتے ہیں۔

یہ خلیے باقاعدگی سے بنتے ہیں اور تباہ بھی ہوتے ہیں۔ یہ خلیے سٹیم سیل سے بنتے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ جب کسی بھی وجہ سے سٹیم سیلز سے ان خلیوں کے بننے کا عمل رک جائے تو لوگوں کے بال سفید ہونے لگتے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی کی لینگوان ہیلتھ ٹیم نے خصوصی سکیننگ اور لیب تکنیک کی مدد سے ان خلیوں کی تشکیل اور نشوونما کے عمل کا مطالعہ کیا ہے۔ جب بالوں کی عمر بڑھتی ہے اور وہ گرنے لگتے ہیں تو بال مسلسل بڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن بعد میں میلانوسائٹس کے خلیے سست ہونے لگتے ہیں۔

سٹیم سیل اپنی جگہ پر مستحکم ہو جاتے ہیں لیکن میلانوسائٹس میں بہتری نہیں آتی۔ اس کی وجہ سے رنگ بنانے کا عمل رک جاتا ہے اور بال سفید ہونے لگتے ہیں۔

کیا سفید بال دوبارہ سیاہ ہو سکتے ہیں؟

نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کے پی ایچ ڈی سکالر اور تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سی سن نے نیچر جرنل کو بتایا کہ ’ہمارا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ میلانوسائٹ سٹیم سیلز بالوں کو سیاہ رکھنے کے لیے کس طرح کام کرتے ہیں۔‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سائنسدانوں نے سفید بالوں کے دوبارہ کالے ہونے کی امید ظاہر کی ہو۔ تاہم بالوں کے قبل از وقت سفید ہونے کی ایک وجہ غذائیت کی کمی کو بھی سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب بعض دیگر محققین سمجھتے ہیں کہ تناؤ کی وجہ سے بھی بال سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ان ماہرین کے مطابق تناؤ کو دور کر کے بھی بالوں کا سفید ہونا کچھ وقت کے لیے روکا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب بعض محققین کے مطابق بالوں کے سفید ہونے کی جینیاتی وجوہات ہوتی ہیں۔

کچھ لوگ وقت سے پہلے اپنے بالوں کو سفید یا سرمئی رنگ میں رنگنا شروع کر دیتے ہیں۔ گلیمر میگزین کے مطابق سلور بالوں کا رجحان نوجوان خواتین میں بہت مقبول ہے، اس کے علاوہ چمکدار اور موتیوں کا رنگ اویسٹر گرے بھی انسٹاگرام پر کافی مقبول ہوا ہے۔

ہیئر سٹائلسٹ، لیوک ہرشسن نے حال ہی میں برٹش ووگ کو بتایا، ’ایک وقت تھا جب لوگ سفید بال نہیں رکھنا چاہتے تھے، لیکن ہم اب بھوری بالوں کو ’بوڑھے‘ ہونے سے نہیں جوڑتے، بہت سے لوگ ایسا کر رہے ہیں۔‘

لاک ڈاؤن کے بعد بہت سے لوگوں کے بال سرمئی ہو گئے ہیں کیونکہ بالوں کو رنگنے کا کاروبار ختم ہو گیا تھا اور بہت سے لوگ اس تبدیلی سے خوش ہیں۔‘

عام طور پر لوگ ایک بال سفید ہونے پر ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان ہی خلیوں سے نکلنے والے دوسرے بالوں کو سفید ہونے سے روکنا ممکن نہیں۔

بالوں کے فولیکلز کے خراب ہونے کی وجہ سے نئے بالوں کی افزائش بھی رک جاتی ہے، اس صورتحال میں بال کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں یا گنجا پن ہو جاتا ہے

بالوں کو رنگنے کا کاروبار کتنا بڑا ہے ؟

برٹش ایسوسی ایشن آف ڈرمیٹالوجسٹ کی ڈاکٹر لیلیٰ اسفور نے بی بی سی کو بتایا کہ بالوں کو رنگنا بڑا کاروبار ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’2030 تک بالوں کے رنگ کی عالمی مارکیٹ 33.7 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ بالوں کے رنگ کی مارکیٹ میں واضح طور پر مانگ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس تحقیق سے واضح اشارہ ملتا ہے، عام لوگوں کے نقطہ نظر سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم سفید بالوں کو دوبارہ کالے کرنے کی جانب ایک قدم اور قریب پہنچ گئے ہیں جبکہ میڈیکل کے نقطہ نظر سے بالوں سے جڑی دیگر پیچیدگیوں کو بہتر طور پر سمجھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’اس سے ہمیں بیماری کی نوعیت کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی، مثال کے طور پر میلانوما یا جلد کا سنگین کینسر۔‘

یہ تحقیق ’بال چر‘ کی بیماری کو سجھنے میں مددگار ہو سکتی ہے

ڈاکٹر لیلا کے مطابق، ’اس سے ایک طبی حالت کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے جسے ’بال چر‘ کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں جسم کا اپنا مدافعتی نظام خود ہی بالوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کی وجہ سے بال گر جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان مریضوں پر سفید دھبے ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر لیلا کے مطابق، ’یہ تحقیق وٹیلگو یعنی جلد کے کسی بھی حصے میں سفید دھبوں کے نمودار ہونے کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ جلد کی قدرتی رنگت کو برقرار رکھنے کے لیے سائنسدان متاثرہ حصے میں بالوں کے فولیکلز کی پیوند کاری کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘

برٹش ہیئر اینڈ نیل سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یوسر النعمی نے کہا کہ بالوں کی اچھی نشوونما کے لیے عمر بڑھنے کے ساتھ ہی کھوپڑی کی صحت اہم ہو جاتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’چوہوں میں ہونے والی حالیہ تحقیق نے بالوں کے پتیوں اور بالوں کو سیاہ رکھنے والے خلیات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں اضافہ کیا ہے۔ بالوں کے گرنے اور دیگر حالات کے لیے سٹیم سیل کے علاج کے امکانات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔‘

ایسی صورتحال میں نئی تحقیق رنگ پیدا کرنے والے خلیوں کے متاثر ہونے کا شکار مریضوں کے لیے مستقبل کے علاج کی راہ ہموار کر سکتی ہے

یہ بھی پڑھیں