تحریریں

بچوں کا زکام روکنے کے ٹوٹکے کتنے موثر

مانیں نہ مانیں، بچوں کو سال میں چھ سے آٹھ دفعہ زکام ہو ہی جاتا ہے، یعنی بڑوں کے مقابلے میں دوگنا۔ کہنے کو بچوں میں بند یا بہتی ناک اور چھینکوں پر قابو پانے کے کئی نسخے ہیں، لیکن کیا ثبوت ہے کہ یہ ٹوٹکے واقعی کام کرتے ہیں؟

کسی بھی ادویات کی دکان یا سپرمارکیٹ میں چلے جائیں تو وہاں آپ کو ایسی کئی ادویات نظر آئیں گی جن کے بنانے والے دعوی کرتے ہیں کہ ان سے زکام یا ٹھنڈ لگ جانے کی علامات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

لیکن برطانیہ سے شائع ہونے والے طبی جریدے ’برٹش میڈیکل جرنل‘ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دستیاب ان ادویات کے موثر ہونے کا ثبوت نہ ہونے کے برابر ہے۔

نہ صرف یہ، بلکہ ان میں کچھ نسخے بچوں اور حاملہ خواتین دونوں کے لیے مناسب نہیں ہیں، مثلاً بند ناک کان کھولنے کے لیے دستیاب ’ڈی کنجسٹنٹ‘۔

جریدے کا کہنا ہے کہ زکام کی علامات، جیسے گلے میں خراش، کھانسی، ناک کان بند ہو جانا، بخار اور چھینکیں، اگر ان کا کوئی علاج نہ بھی کیا جائے تو یہ علامات ہفتے بھر میں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔

اور سچ یہ ہے کہ زکام کا کوئی جادوئی علاج موجود نہیں۔ ایسا کچھ نہیں کہ گولی لی اور زکام رفو چکر۔

کیا بند ناک کھُل جاتی ہے؟

نوزائیدہ بچوں کے امراض اور صحتِ اطفال کے ماہر ڈاکٹر راہل چوہدری کہتے ہیں کہ بند ناک کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ نمکین پانی یا ’سیلائن نیزل واش‘ استعمال کیا کریں۔ نمکین پانی سے یوں ناک صاف کرنے کو ناک کو سیراب کرنا یا نیزل اریگیشن بھی کہتے ہیں۔

یہ سیلائن واش ناک کے ڈراپس اور سپرے کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر چوہدری کہتے ہیں کہ یہ نمکین پانی ناک میں پھنسے ہوئے مادے کو نکال دیتا اور یوں بچوں کی ناک کھل جاتی ہے۔

ان کے بقول آپ یہ نسخہ دن میں جتنی مرتبہ چاہیں استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے کوئی مضر اثرات بھی نہیں ہوتے۔

اس کے علاوہ، بخار کم کرنے کے لیے آپ بچوں کو ’کیلپول‘ کی شکل میں دستیاب پیرا سیٹامول دے سکتے ہیں، اور اس سے بخار کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں بھی بہتری آ جاتی ہے۔

کیا نہیں کرنا چاہیے؟

برطانوی محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ بارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے ’ڈی کنجسٹنٹ‘ مفید نہیں کیونکہ بند ناک کھولنے والی ان ادویات کے دوسرے اثرات بھی ہوتے ہیں، جیسے غنودگی اور معدے میں گڑ بڑ

اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے افراد اس قسم کی ادوایات استعمال کر سکتے ہیں لیکن برٹس میڈیکل جرنل کی تحقیق کے مطابق، ہمیں چاہیے کہ یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ تین سے سات دن تک ہی استعمال کریں۔

اس قسم کے ڈی کنجسٹنٹ، ناک اور گلے کی سوزش کو کم کرتے ہیں جس سے آپ بہتر سانس لینے لگتے ہیں۔

لیکن سانس کی نالی کھولنے کے ساتھ ساتھ، ان ادوایات سے سر درد اور نیند میں کمی بھی ہونے لگتی ہے اور اگر آپ بہت زیادہ عرصے تک استعمال کریں تو اس سے آپ کو مستقل ناک بند ہونے کی بیماری یا کرونِک نیزل کنجیشن ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر چوہدری کے مطابق بچوں کو کھانسی کا شربت بھی نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے کھانسی تو رک جاتی ہے لیکن ناک اور گلے میں پھنسا ہوا فاسد مادہ بھی خارج نہیں ہوتا۔

اور جہاں تک سوال ہے اینٹی بائیوٹکس کا، تو اس قسم کی ادویات کا زکام پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اینٹی بائیوٹسک صرف اسی صورت میں کام کرتی ہیں جب آپ کو بیکٹریا سے ہونے والی انفیکشن ہو، عام زکام نہیں۔

اس کے علاوہ برطانوی محمکمۂ صحت کے مطابق بچوں کو ویپر رب اور ناک منہ میں بھاپ بھی نہیں لینی چاہیے۔

گھریلو نسخے کیسے ہوتے ہیں؟

جہاں تک سوال زکام کے گھریلو نسخوں کا ہے، تو اس سلسلے میں سائنسی تحقیق واقعی بہت محدود ہے۔

برٹش میڈیک جرنل کے مطابق مندرجہ ذیل گھریلو نسخوں یا ٹوٹکوں پر کوئی تحقیق موجود نہیں یا ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

  • کمرے میں گرم ہوا میں سانس لینا
  • بھاپ لینا
  • ایکینشیا یا گل پنج ہزاری
  • پرو بائیوٹِکس
  • یوکلپٹس کا تیل

محکمۂ صحت کے مطابق اس بات کا بھی کوئی خاص ثبوت نہیں ہے کہ وٹامن سی، زِنک یا لہسن بھی زکام پر کام کرتا ہے یا اس سے سردی لگ جانے کی علامات جلد ختم ہو جاتی ہیں

ڈاکٹر کے پاس بچے کو کب لے کر جائیں؟

ماہرین کے مطابق آپ کو چاہیے کہ بچے کو ڈاکٹر کو دکھائیں اگر:

  • اسں کا بخار 38.5 سے زیادہ ہونا شروع ہو جائے
  • جسم پر دانے نکل آئیں یعنی ریش ہو جائے اور وہ ختم نہ ہو
  • کئی دنوں بعد بھی زکام کی علامات ختم نہ ہوں۔

مزید کوئی مشورہ؟

زکام سے جلد جان چھڑانے کے لیے بچوں کو زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں اور گرم رکھیں۔

عمومی زکام دراصل ان وائرس سے ہوتا ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ جاتے ہیں، خاص طور پر بچوں میں۔

تو زکام سے بچے رہنے کے آسان نسخے صابن لگا کر نیم گرم پانی سے باقاعدگی سے ہاتھ دھونا اور اپنی آنکھوں کو ہاتھ نہ لگانا ہیں۔

چھینک مارتے وقت ناک اور منہ کے سامنے ٹِشو رکھیں اور پہلی فرصت میں اس ٹشو کو پھینک دیں

یہ بھی پڑھیں