تحریریں

جہاں خواتین کو ماہواری کے دوران جنگل میں بھیج دیا جاتا ہے

ماہواری کے دوران بہت سی جگہوں پر خواتین کو نہ صرف پوجا یا عبادت بلکہ روزمرہ کے گھریلو کام کاج سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔
ہم آج بھی ایسی باتیں سنتے اور دیکھتے ہیں۔ انڈیا کی وسطی ریاست آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی سرحد پر واقع کچھ گاؤں میں خواتین کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔
یہاں خواتین کو ماہواری (پیریڈ) کے دوران گاؤں سے باہر جنگل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ سنہ 2018 میں بی بی سی نے سماجی مسائل پر مبنی خبروں کی ایک سیریز کی تھی اور اُس موقع پر آندھرا پردیش کے اننت پورم ضلع کے رولا منڈل کے گنٹا گولہٹی نامی گاؤں میں رپورٹ کی تھی، جہاں آج بھی ان روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔
اس دوران بی بی سی نے دیہی حکام سے یہ بھی معلومات طلب کی تھیں تھیں کہ اس طرح کی روایات کے خلاف لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے درحقیقت کیا کیا جا رہا ہے۔ اس وقت حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ لوگوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ان دیہاتوں کے لوگوں کی حالت میں اور روایات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہےیہ روایت صرف ایک گاؤں کی نہیں ہے، بلکہ آج بھی آندھرا پردیش کے چتور ضلع کے کپپم منڈل کے اورینایان نپلی، اورینائیانی کوتھورو اور سالاراپلی گاؤں اور گڈیپلی منڈل کے پالیم گاؤں کے ساتھ جنوبی ریاست تمل ناڈو کے ایکلانتھم گاؤں میں پائی جاتی ہے۔
ان دیہی علاقوں کی آبادی 2500 کے قریب ہے۔ ان دیہاتوں میں پیریڈ کے دوران خواتین کو گاؤں سے دور رکھنے کا رواج ابھی بھی قائم ہے۔ بی بی سی نے ان دیہات کا دورہ کیا۔ اس دوران ہم نے صرف ان خواتین سے بات کی جو اس رواج کی وجہ سے پیریڈ کے دوران گھروں سے باہر جنگلوں میں رہتی تھیں درختوں کے سہارے ترپالیں ڈال دیتے ہیں۔ ہم بڑے پتھروں کے نیچے پناہ لیتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم دوسری طرف جائیں تو سانپوں یا بچھو کا خطرہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان دنوں میں ہم اپنی حفاظت کی ذمہ داری خدا پر چھوڑ دیتے ہیں، ہم اورکر بھی کیا سکتے ہیں؟ ان چار دنوں میں ہمیں مشکلات اور خطرات کا سامنا رہتا ہے۔‘
لیکن صرف حیض والی خواتین ہی نہیں ان کے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ جنگل میں رہتے ہیں۔ ملیکا نے یہ بھی کہا: ’میرے دو بچے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ انھیں نہانے کے بعد ہی گاؤں کے گھروں میں جانے کی اجازت ہے۔ ورنہ وہ گاؤں نہیں جا سکتے اورانھیں ہمارے ساتھ رہنا پڑے گا۔‘
’جب بچے گھر جاتے ہیں تو انھیں ناشتہ ملتا ہے ہم تالاب کے پاس کھانا بناتے ہیں اور وہیں کھاتے ہیں۔ تین ماہ تک کے بچے کو بھی باہر رہنا پڑتا ہے ہم انھیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔‘لڑکیوں کو بھی گاؤں سے باہر بھیج دیا جاتا ہے
سلّارا پلی گاؤں کی خواتین کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ انھیں بھی پیریڈ کے دوران چار دن گاؤں سے باہر بھی رہنا پڑتا ہے۔
یہاں تک کہ گاؤں کی بالغ ہونے والی لڑکیوں کو بھی تہواروں کے دوران گاؤں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہو جاتی ہے تو اسے 10 دن تک گاؤں سے باہر رہنا پڑتا ہے۔
سلّاراپلی کے بالمما نے کہا کہ وہ صبح یا دن کے وقت میدان میں رہ سکتے ہیں، لیکن رات کو انھیں تحفظ کے لیے خدا پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔بالمما نے بتایا، ’پہلے عورتیں بڑے پتھروں کے نیچے گڑھے بنا کر اس میں رہتی تھیں۔ لیکن اب چونکہ وہاں ایک ہسپتال ہے، وہ بچے کو جنم دینے کے لیے وہاں جاتی ہیں۔ وہ پانچ دن تک ہسپتال میں رہتی ہیں۔ نہانے کے بعد انھیں گاؤں کے اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے‘۔
انکا مزید کہنا ہے کہ ’جب نو عمر لڑکیوں کو پیریڈ شروع ہوتے ہیں تو انھیں دس دن گاؤں سے باہر رہنا پڑتا ہے۔ گیارھویں دن پجاری انھیں گھر لے آتا ہے۔ کچھ رسومات کے بعد لڑکی کو گھر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پیریڈ کے دوران ہم کھیتوں میں جاتے ہیں۔ ہم اس علاقے میں رہتے ہیں، اوپر والےنے ہماری قسمت ایسی لکھی ہے، اب ہم کچھ نہیں کر سکتے، یہ تو پرانا رواج ہے، خاندان میں لڑکی ہو یا بہو، عورت کو پیریڈ کے دوران گھر سے باہر بھیج دیا جاتا ہے‘۔
یہ رواج صرف گاؤں کی خواتین کے لیے نہیں ہے، بلکہ اگر گاؤں میں باہر سے آنے والی کسی بھی عورت کو پیریڈ ہوتے ہیں تو اسے بھی پانچ دن تک گاؤں سے دور رہنا پڑتا ہے۔باہر والوں کو ہمارے درد کا احساس نہیں ہوگا‘
ہم ایکلانتھم گاؤں کی کچھ خواتین سے ملنے گئے جو حیض کے دوران گاؤں کے باہر جنگل میں رہتی تھیں۔ ہم نے کچھ خواتین کو کھانا پکاتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں رہتی ہیں؟
اس پر ایک خاتون کسمہ نے جواب دیا: ’ گاؤں میں سب کچھ ٹھیک ہے سوائے اس ایک روایت کے، باہر کے لوگ شاید اس کے بارے میں نہیں جانتے۔ حتیٰ کہ بچوں کو بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ میرے ماموں کے گاؤں تنجور میں عورتیں پیریڈ کے دوران گھر میں رہ سکتی ہیں لیکن ’دیو گرہ‘ میں داخل نہیں ہوتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس رسم کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب میری اس گاؤں میں شادی ہوئی، میری شادی کو دو سال ہوچکے ہیں، شادی سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پیریڈ کے دوران مجھے گاؤں سے باہر رہنا پڑے گا۔‘
وہ کہتی ہیں ’میں نے اس بارے میں اپنے گھر پر کسی کو نہیں بتایا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ وہ غلط سمجھیں گے۔ اب جب کہ میں یہاں رہ رہی ہوں، مجھے گزارا کرنا پڑے گا۔ جب میں گاؤں جاتی ہوں تو میں اس بارے میں کسی کو نہیں بتاتی۔ مجھے یہ روایت پسند نہیں تو میں کیا کروں یہ بہت بری بات ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوا کرتا تھا لیکن اب بھی ہو رہا ہے ہم ایسے نہیں جی سکتے کیا میری بیٹیوں کو بھی یہی کرنا پڑے گا؟ یہ بدلنا ہوگا۔‘
سماجی کارکن کتنے کامیاب ہیں؟
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے میں ایسی قدیم روایات کو بدلنےکی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ کپپم پرجا ویدیک سنستھا کے سماجی کارکن منی راجو بابو نے بی بی سی کو بتایا کہ پچھلے سات سال میں کچھ کامیابی ضرور ملی ہے۔ لیکن ابھی بھی بہت کچھ بدلنا باقی ہے۔
منی راجو کا خیال ہے کہ گاؤں والوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
منی راجو بتاتے ہیں، ’پچھلی چار دہائیوں سے بہت سی سماجی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ رواج صرف یہاں ہے اور کہیں اور نہیں، لیکن پھر بھی وہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اگر ہم صرف گاؤں والوں کے ساتھ گھل مل جانے کی کوشش کرتے ہیں تبھی گاؤں کے بزرگوں یا خواتین میں مطلوبہ تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔‘
گاؤں کے بزرگ خواتین سے کہتے ہیں کہ وہ پیریڈ کے دوران گاؤں کا رخ نہ کریں کیونکہ گاؤں کے دیوتا کے زیور گاؤں میں ہوتے ہیں۔ ’خواتین بھی گاؤں کے دیوتا کو مانتی ہیں۔ وہ بھی یہ سوچتی ہیں کہ ایسے گاؤں میں رہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہم حالات کو بدلنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔‘
منی راجو نے یہ بھی بتایا کہ گاؤں کے لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے عطیہ دہندگان کی مدد سے گاؤں کے باہر خواتین کی حفاظت کے لیے کنکریٹ کی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔
اندوں نے بتایا کہ گاؤں سے باہر ایک گھر کو خواتین کی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے۔روایت کی شروعات
اس گاؤں کے زیادہ تر باشندے کسان ہیں۔ وہ گزر بسر کے لیے گائے اور بکریوں پر انحصار کرتے ہیں۔ آج بھی اس گاؤں کے باشندے چپل یا سینڈل نہیں پہنتے۔ لیکن اب نوجوانوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ گاؤں سے باہر کام پر جانے والے نوجوان چپل یا سینڈل کا استعمال کرتے ہیں۔
گاؤں کے تہوار کے دوران دیوتا کے زیورات کو چھوتے وقت کوئی بھی چپل نہیں پہنتا۔ وہ ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ پانچوں گاؤں جنگلوں میں ہیں۔ ان کے کچھ مندر جنگل میں بھی ہیں۔ گاؤں کے تہواروں کے علاوہ، ان کے دیوتاؤں کے زیورات اور دیگر سامان کو پجاریوں کے تیار کردہ خصوصی کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کمروں کو کسی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔
پیریڈ کے دوران ان خواتین کو گھر والوں کی جانب سے کھانا اور پانی تک نہیں دیا جاتا۔ وہ تالاب سے جنگل میں پانی لاتی ہیں اور وہاں کھانا پکاتی ہیں۔ انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں کھانا ڈھابہ یا ریسٹورنٹ سے منگوایا جاتا ہے۔ ایسی عورت اگر گاؤں میں کسی چیز کو چھوئے تو اسے برا سمجھا جاتا ہے۔
حکام کی کوششیں
اہل علاقہ کا یہ بھی خیال ہے کہ اس طرز عمل کی وجہ سے متعلقہ دیہات کی خواتین کو خطرناک صورتحال میں رہنا پڑتا ہے۔ اس لیے وہ عام لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کپپم کے ایک ریونیو اہلکار شیوایا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تک لوگ نہیں بدلتے، ایسے طریقوں کو تبدیل کرنا مشکل ہے۔

اب ان خواتین کے گاؤں سے باہر رہےنے کے لیے پکے مکان بنائے گئے ہیں

انھوں نے کہا، ’کچھ لوگ قدیم روایت کے نام پر خواتین کو گھر سے باہر رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان خواتین کو خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خطرناک ہے کیونکہ انھیں سانپ، بچھو اور دیگر جانوروں اور کیڑوں کے درمیان رہنا پڑتا ہے۔ متعلقہ گاؤں میں جگہ جگہ بیداری کے پروگرام منعقد کر رہے ہیں‘۔
شیوایا نے یہ بھی کہا: ’ہم لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خواتین کو گھر کے اندر رکھنا چاہیے نہ کہ گھر کے باہر۔ اب نوجوانوں میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔‘
شیوایا کے مطابق خواتین کو پیریڈ کے دوران زیادہ دیکھ بھال اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا، ہم انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں گھر میں رہنے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا، ’ہم گاؤں میں اس بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے جلسے کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ لیکن ہم کتنی کوشش کر سکتے ہیں؟ جب لوگ سوچنے لگیں گے کہ اس میں کچھ غلط نہیں ہے، یہ تبدیلی تب ہی آ سکتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں