تحریریں

جنوبی کوریا: وہ ملک جہاں کسی کی عمر پوچھنا ’برا‘ نہیں بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے

برطانوی شہری جویل بینیٹ کو پہلی مرتبہ غلط لفظ کے استعمال کا احساس اس وقت ہوا جب انھوں نے جنوبی کوریا کے اپنے پہلے دورے کے دوران ایک ریستوران مالک کو اچھے کھانے پر شکریہ ادا کیا۔

ریستوران کی مالک ایک 60 برس کی خاتون تھیں اور اس وقت بینیٹ کی عمر 23 برس تھی۔ بینٹ نے شکریہ ادا کرنے کے لیے ’گوماؤ‘ کہا جس کا انگریزی زبان میں مطلب ہلکے پھلکے انداز میں ’شکریہ‘ ادا کرنا تھا۔ وہ اپنی طرف سے ایسا احتراماً کہہ رہے تھے۔

تاہم اس وقت بینیٹ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے ریستوران کی مالک کو ’غیر روایتی انداز‘ میں شکریہ کہہ دیا ہے اور اگر وہ کوریائی ہوتے تو اس بات کو بدتمیزی کے زمرے میں لیا جاتا۔

بینیٹ کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ شکریہ کہنے کے اتنے سارے طریقے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا شکریہ کا مطلب شکریہ ہی ہوتا ہے۔‘

لیکن کوریا کی ثقافت میں، بینیٹ سے جو ریستوران مالک سے کئی برس چھوٹے تھے، امید کی جاتی ہے کہ وہ کوریائی زبان کی اعزازی قسم کا استعمال کرے۔

یہ ایک پیچیدہ زبان ہے جسے دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کے سینئیر ہونے، سماجی رتبے اور بولنے والے سے تعلق کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

اسی لیے جنوبی کوریا میں کسی نئے شخص سے ملنے کے فوری بعد آپ کو ان کی عمر پوچھنی چاہیے۔

اپنی عمر یا اپنی پیدائش کے برس کے بارے میں کھل کر بات کرنا نہ صرف ایک سماجی روایت ہے بلکہ یہ ایک سماجی معاہدہ ہے جو بولنے والوں کے درمیان درجہ بندی قائم کرتا ہے۔ حتیٰ کہ عمر میں ایک برس کا فرق بھی ایک دوسرے سے بات کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف آکسفرڈ میں کوریائی زبان کے پروفیسر جیون کیار کہتے ہیں کہ ’کسی سے کس انداز میں بات کرنی ہے اس میں سب سے پہلی چیز جس کو مدنظر رکھا جاتا ہے، وہ عمر ہے اور اسی لیے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے عمر پوچھ رہے ہوتے ہیں۔‘

’ضروری نہیں کہ وہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہوں کہ آپ کی عمر کیا ہے بلکہ اس لیے کیونکہ وہ آپ سے بات کرنے کے مناسب انداز کا انتخاب کرنا چاہتے ہوں۔‘

کچھ مغربی ممالک میں کسی نئے ملنے والے سے اس کی عمر پوچھنا مناسب نہیں سمجھا جاتا لیکن کوریائی معاشرے میں مکمل طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ عمر واقعی صرف ایک عدد نہیں، ہمیں ’نیو کنفیوشنزم‘ کے نظریے کے دیرپا اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے

کنفیوشنزم ایک قدیم نظریہ ہے جو تقویٰ، بزرگوں کے احترام اور سماجی نظام پر مشتمل ہے۔ یہ نظریہ پانچ سو برس تک جوزون خاندان (1392-1910) کے دور حکومت میں رائج رہا اور سماجی اصولوں پر آج بھی اس نظریے کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔

ورجینیا میں جارج میسن یونیورسٹی میں کوریائی سٹڈیز کے شعبے کے ڈائریکٹر رو ینگ چان کہتے ہیں کہ کنفیوشنزم کے نظریے کا خلاصہ صرف دو الفاظ میں کیا جا سکتا ہے: انسانیت اور رسم۔

رو ینگ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ چینی فلسفی کنفیوشس کی تعلیمات چینی تاریخ میں اتھل پتھل کے زمانے میں سامنے آئیں۔ ملک بھر میں امن بحال کرنے کے لیے کنفیوشس کا ماننا تھا کہ انسانیت کو بچانے کے لیے ایک سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس کی بنیاد ایک سخت ضابطہ اخلاق اور رسومات پر ہو اور جس میں ہر کوئی ایک خاص کردار کا مالک اور اپنی جگہ کو سمجھے۔

’نیو کنفیوشنزم‘ میں سماجی ہم آہنگی کو پانچ بنیادی رشتوں کے احترام سے حاصل کیا جا سکتا ہے: بادشاہ اور رعایا، شوہر اور اہلیہ، والدین اور بچہ، بہن بھائی اور دوست۔ وہ لوگ جو سینئر کردار رکھتے ہیں جیسے کہ والدین، شوہر اور بادشاہ، ان کے ساتھ احترام سے پیش آنا جبکہ سماجی ڈھانچے میں جونئیر کرداروں کی دیکھ بھال بدلے میں احسان کے ساتھ کی جاتی ہے۔

لیکن معاشرے میں جب کسی نئے شخص سے ملاقات ہو تو کس کے پاس بڑا رتبہ ہے اور کسے احترام، رعایت اور اعزازی رسم و رواج کے ساتھ ملنا ہے، یہاں عمر سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

کوریائی زبان کے آداب میں لکھنے اور بولے جانے میں سات مراتب ہیں، روزمرہ کی بات چیت کو دو درجات میں بانٹا جا سکتا ہے، ’بانمال‘ (غیر رسمی اور آزادانہ)، ’جونڈامل‘ ذرا رسمی اور لحاظ والی زبان جس کے اظہار کے لیے ہر جملے کے اختتام پر ’یو‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔

کیار کا کہنا تھا کہ ’درست زبان جاننے کے لیے بہت احتیاط اور بہت زیادہ بولنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ نے غلط زبان استعمال کی تو اس سے بہت زیادہ مشکل پیدا ہوسکتی ہے اور دوسرے شخص سے آپ بات چیت نہیں کر پائیں گے۔‘

کیار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ درست زبان کا انتخاب کرنے میں عمر ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا کوئی طے شدہ اصول یا قاعدہ نہیں۔

بہت سی باریکیوں اور عناصر کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بات کرنے والوں کے درمیان سماجی اور معاشی حیثیت، بے تکلفی کی سطح اور اس جگہ اور ماحول کا جہاں بات چیت ہو رہی ہو مثلاً عوامی یا نجی۔

انھوں نے کہا کہ کوریا کی مقبولیت کی لہر چاہے یہ کے پاپ ہو، فلم پیراسائٹ ہو یا پھر نیٹ فلکس پر مقبول ہونے والی سکوڈ گیم، یہ اصول سیکھنے میں آسانی ہوئی ہے لیکن اب بھی یہ کافی مشکل اور پریشان کن ہے۔ حقیقت میں یہ بہت پیچیدہ ہے، یہاں تک کہ مقامی کورین بولنے والے بھی اس میں غلط ہو سکتے ہیں۔

سنہ 2019 میں ’جرنل ڈسکورس اینڈ کوگنیشن‘ جریدے میں شائع ہونے والے ایک مقالے سے کیار کو معلوم ہوا کہ جنوبی کوریا میں 2008 اور 2017 کے درمیان 100 سے زیادہ جھگڑے جن میں نوبت مار کٹائی تک جا پہنچی، اس وقت پیدا ہوئے جب بات چیت کے دوران ایک شخص کے بارے میں یہ سمجھا گیا کہ اس کا بات کرنے کا انداز نامناسب ہے اور اچانک ’بنمل‘ یا غیر رسمی انداز میں تبدیل ہو گیا۔

کیار نے کہا کہ ’ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف غیر کوریائی باشندوں کے لیے بلکہ کوریا میں رہنے والوں کے لیے بھی آسان نہیں۔‘

گفتگو کے دوران اس موقع پر میں، ایک دوسری نسل کا کوریائی نژاد کینیڈین شہری جس کو کوریا کی زبان پر معمولی سی دسترست حاصل تھی، ہلکی سی گھبراہٹ کا شکار ہو گیا اور میرے ذہن پر یہ بات سوار رہی کہ کہیں میں اپنے بزرگوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے کم عمر لوگوں کو بھی ناراض نہ کر دوں۔

میں نے بلاجھجک ماہر لسانیات سے ایک ذاتی سوال پوچھنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا کہ ’جب میں پہلی مرتبہ اپنی بھابھی کی چھوٹی بہن سے ملا، جو کہ عمر میں تقریباً 20 سال مجھ سے چھوٹی تھی، تو کیا میں نے پہلی ہی ملاقات کے چند گھنٹے بعد ’بنمل‘ میں بات چیت شروع کر کے غلطی کی تھی؟

درست اندازِ گفتگو تلاش کرنے کے لیے، پہلا قدم ہمیشہ گفت و شنید کرنا ہوتا ہے کیونکہ اگر آپ گفت و شنید کے بغیر ہی کوئی انداز اختیار کر لیں تو سامنے والا شخص برا منا سکتا ہے۔‘

جنوبی کوریا جانے سے پہلے ٹورنٹو کی تارک وطن ڈیلیا سو کوریائی زبان سیکھنے کا ارادہ رکھتی تھیں تاکہ غلطی سے بچا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں جب آپ پہلی بار سیکھ رہے ہوں تو رسمی گرامر کے ڈھانچے کو سیکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ آپ کبھی غلطی سے بھی بدتمیزی نہیں کرنا چاہتے۔‘

اسی طرح غیر زبانی اشاروں اور طرز عمل کا ایک انداز ہے جو معاشرتی درجہ بندی کے نچلے حصے کے لوگوں میں رائج ہے۔

2016 کی ایک یوٹیوب ویڈیو میں جسے بارہ لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا، ایک تارکِ وطن کو جنوبی کوریا میں بزرگوں کی صحبت میں شراب پینے کے مناسب آداب کا سبق دیا گیا تھا۔

قواعد چکرا سکتے ہیں۔ احترام کی علامت کے طور پر آپ کو دو ہاتھوں سے مشروب ڈالنا چاہیے۔ شراب پیتے وقت اپنے سر کو بزرگ سے پھیر لیں، بزرگ کے گلاس کو زیادہ دیر تک خالی نہ رہنے دیں اور اپنا گلاس نیچے رکھنے سے پہلے انتظار کریں کہ بزرگ اپنا گلاس نیچے رکھ دیں۔

بینیٹ نے کہا ’آپ ہمیشہ یہی فکر نہیں کر رہے ہوتے لیکن آپ کو یہ سب معلوم ہونا چاہیے۔‘

’میں اس رفتار کو دیکھ رہا ہوں جس سے وہ بیئر پی رہے ہیں اور میں اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ وہ سیر ہو جائیں تاکہ جب ہم نشے میں آئیں تو کوئی بدمزگی نہ ہو جائے۔‘

ڈیلیا سو نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شراب نوشی کے آداب کو سیکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یقینی طور پر آپ بہت زیادہ دباؤ میں رہتے ہیں کیونکہ اچانک، آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے۔

اگر آپ شراب کا گلاس لیتے وقت نظریں ملاتے ہیں تو آپ اچانک کسی کو ناراض کر سکتے ہیں۔ یہ بہت مشکل ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی آپ کو عادت ہو جائے گی۔‘

اس مقام پر کہا جا سکتا ہے کہ کوریا کا سماجی ڈھانچہ عمر اور صنف کے لحاظ سے بہت جابرانہ ہے اور خواتین سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ روایتی ’کنفیوشس‘ نظریے کے تحت اپنے شوہروں کی اطاعت اور تابعداری کریں لیکن جیسا کہ بینیٹ نے جلد ہی سیکھ لیا، بزرگی کے ساتھ بہت سی ذمہ داری بھی نبھانی پڑتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اس بڑے پن کا ایک اہم جز خدمت سے متعلق ہے جو بہت خوبصورت ہے۔‘

’اگر میں بڑا شخص ہوں، جو اپنے پیشے اور عمر کے لحاظ سے آپ سے بڑا ہے تو میں آپ کی دیکھ بھال کروں گا کیونکہ میں بڑا ہوں۔‘

عصر حاضر کے کوریا میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے سے چھوٹوں کے ہوٹل میں کھانے کے بل کی ادائیگی کروں گا یا پیشہ ورانہ یا نجی زندگی میں ان کی سرپرستی کروں گا۔‘

یہ ایک ایسا تصور ہے جو صبر اور احترام سے جڑا ہوا ہے۔

زیادہ گہرے اور قریبی رشتوں میں، بڑی عمر کی خواتین کی سہیلیوں کو ان کے ناموں سے نہیں پکارا جاتا بلکہ عام اصطلاح میں ’بڑی بہن‘ کہا جاتا ہے (اُنّی عورت کے لیے جبکہ مردوں کے لیے نونا)۔ پرانے مرد دوستوں کو بڑا بھائی بھی کہتے ہیں (خواتین کے لیے اوبا، مردوں کے لیے ہیونگ)۔

رو ینگ چان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کوریا میں، سماجی اخلاقیات اور ادب آداب کو خاندانی رکھ رکھاؤ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں معاشرے کو ایک وسیع خاندان کے طور پر تصور کرنا ہو گا۔ اگر آپ کسی بوڑھے شخص سے ملتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ اپنے بڑے بھائی یا بہن کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ معاشرے، قوم اور دنیا کو دیکھنے کا یہ ایک دلچسپ انداز ہے۔ انسانیت صرف خاندان کی توسیع ہے۔‘

لیکن رو تسلیم کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ’سینئیر‘ اور ’جونیئر‘ کے درمیان باہمی تعاون چھوٹے اور بڑے میں تمیز اور مرد اور عورت میں احترام کا کنفیوشس کا اصول کہیں گم ہو گیا ہے۔

اس معاشرے میں جہاں باہمی تعلقات میں دیکھ بھال کرنے والے کی بدلے میں عزت کی جاتی ہے اور رہنمائی کرنے والے کا جواباً احترام کیا جاتا ہے، وہاں درجہ بندی کا شرم و لحاظ کی روایات کا بے جا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور اختیار اور بزرگی کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کوریا میں دفاتر یا کام کی جگہوں پر ماتحتوں کو ہراساں کرنے کا رجحان بہت عام ہے۔

جب صنفی مساوات کی بات آتی ہے تو معاشی تعاون اور ترقی کے عالمی ادارے آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) میں شامل 38 رکن ممالک کی فہرست میں جنوبی کوریا میں عورتوں اور مردوں کی تنخواہوں میں فرق سب سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ، قدامت پسند جنوبی کوریائی مردوں کی قیادت میں حقوق نسواں کی تحریک کے خلاف بڑھتا ہوا ردعمل حالیہ برسوں میں زور پکڑ رہا ہے۔

کوریائی سکالر کم کیونگ ال نے یہاں تک کہ ایک متنازعہ کتاب میں کنفیوشس کے خاتمے کا مطالبہ کیا جس کا عنوان ہے: ’اس قوم کے جینے کے لیے کنفیوشس کو مرنا چاہیے۔‘

رو ینگ چان کے لیے تاہم جنوبی کوریا کے معاشرے کا مرض کنفیوشس ازم نہیں بلکہ اس کی سمجھ کا فقدان ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کنفیوشس ازم ایک زندہ روایت ہے۔‘

’ہمیں اپنی روایات کو زندہ کرنا اور ان کی دوبارہ تشریح کرنا ہے اور انھیں جدید معاشرے کے لیے معنی خیز بنانا ہے۔ کنفیوشس ازم اڑھائی ہزار سال پرانا ہے۔ ہم یہ سب ترک نہیں کر سکتے۔ کسی نہ کسی طرح ہم اس روایت کے مقروض ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں