تحریریں

کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر دھاوا: مظاہرین کی جلاؤ گھیراؤ کے ساتھ ساتھ قورمے اور کوک میں دلچسپی

پاکستان میں گذشتہ روز ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے جہاں مختلف شہروں میں سڑکوں، گلی کوچوں میں احتجاج کیا وہیں ان مظاہرین نے فوجی املاک، جیسا کہ راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) اور کور کمانڈر ہاؤس لاہور کی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا۔

کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر ہونے والے حملے میں دو طرح کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آئیں۔ جہاں کچھ ویڈیوز میں مشتعل مظاہرین کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں گھس پر توڑ پھوڑ کرتے نظر آئے وہیں دوسری طرف ایسی ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملیں، جس میں مظاہرین کور کمانڈر ہاؤس لاہور سے روزمرہ استعمال کی چیزوں کے ساتھ ساتھ دیگر گھریلو سامان اپنے ساتھ لے کر جاتے دکھائی دے۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں جہاں لوگ کھانے پینے کی اشیا جیسے دودھ پھل وغیرہ اٹھائے اور اپنے ساتھ لے جاتے نظر آئے وہیں ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جس میں لوگوں نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں موجود پرندوں کو بھی اٹھا رکھا تھا۔

ہم نے ان ویڈیوز کی حقیقت جاننے اور کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں ہونے والے احتجاج کی مزید تفصیلات جاننے کے لیے اس سارے واقعے کے دوران وہاں موجود کچھ صحافیوں سے رابطہ کیا۔

کتابیں، قیمتی ڈیکوریشن پیس، موروں کو بھی اٹھا لیا گیا‘

صحافی ضیا الرحمان لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور کے باہر جب لوگ جمع ہونے شروع ہوئے تو پہلے انھیں روکا گیا لیکن وہ نہیں رکے لیکن جب مظاہرین کی تعداد زیادہ ہوئی تو وہاں موجود سکیورٹی اہلکار پیچھے ہٹتے چلے گئے اور اسی دوران لوگ کور کمانڈر ہاؤس کے اندر داخل ہو گئے۔

انھوں نے بتایا کہ ’شروع میں جب لوگ اس گھر کے اندر گئے تو انھوں نے کچھ نہیں توڑا لیکن جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو پھر وہاں پر باقاعدہ توڑ پھوڑ شروع ہو گئی۔‘

’کور کمانڈر ہاؤس کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب دو گاڑیاں کھڑی تھیں، پہلے ان کو توڑا گیا، ان کے شیشے توڑے گئے دروازے توڑے گئے۔ جب پیچھے کا ہجوم بھی آ گیا تو لوگ کور کمانڈر ہاؤس کے اس حصے میں بھی چلے گئے جو رہائشی ایریا تھا۔

’لوگ رہائشی علاقے میں گئے اور چیزوں کو توڑنا شروع کیا، کچھ چیزوں کو جلانا شروع کیا۔ وہاں ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جیسے لوگوں کو ایک خوشی بھی تھی، لوگ اس گھر کے اندر جا کر اپنی ویڈیوز بنا رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہ کس جگہ پر موجود ہیں، لوگ صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔‘

’پھر لوگ ایک کمرے سے دوسرے کمرے جیسے ڈرائنگ روم سے لان پھر وہاں سے دلان اور پھر وہاں سے کچن اور بیڈروم سے ہوتے ہوئے پچھلی سائیڈ سے نکلے۔ جہاں سوئمنگ پول تھا اور وہاں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ پچھلے حصے میں پانچ سے چھ گاڑیاں بھی موجود تھیں، جن میں کاریں اور ڈبل کیبن گاڑیاں بھی موجود تھیں، ان کو بھی توڑا گیا۔‘

’وہاں دیواروں پر جو کچھ بھی لگا ہوا تھا، بک شیلفز پر رکھی کتابیں، برتن، کھانے پینے کی چیزیں، فانوس اور لائٹس تھیں، لوگوں نے دل بھر کر ان کو توڑا اور پھر ایسے مناظر میں نے پہلی بار دیکھے کہ کور کمانڈر ہاؤس میں لوگ چیزیں اٹھا کر بھی لے کر جا رہے تھے۔ جو چیزیں بھی وزن کے حساب سے اس قابل تھیں کہ انھیں اٹھایا جا سکتا تھا، لوگوں نے وہ چیزیں اٹھا لیں۔‘

’کتابیں، قیمتی ڈیکوریشن پیس، آرمی کے چھوٹے چھوٹے صندوق جن میں البم محفوظ رکھے جاتے ہیں، حتیٰ کے موروں کو بھی اٹھایا گیا، بہت سی ایسی چیزیں تھیں جن کے مجھے نام بھی نہیں آتے۔ کسی نے ایش ٹرے اٹھا لی، کسی نے پلیٹ اٹھا لی، کسی نے مگ،جس کے ہاتھ جو چیز آئی اور جو وہ اٹھا سکتا تھا، وہ لوگوں نے اٹھا

جو چیزیں وزن میں زیادہ تھیں، جن کو اٹھایا نہیں جا سکتا تھا ان چیزیوں کو لوگوں نے پہلے باقاعدہ توڑا اور بھرپور طریقے سے توڑا کہ کچھ چیزوں کا کچومر ہی کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے کمرے کمرے میں جا کر آگ لگانا شروع کر دی۔ ایسی صورتحال تھی کہ جو چیز اٹھائی نہیں گئی اسے توڑ یا جلا دیا گیا۔‘

’لوگ بار بار ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ توڑ دو، آگ لگا دو، کوئی کسی کو روک نہیں رہا تھا

لوگ اندھیرے میں زیادہ سامان اٹھا رہے تھے‘

وہاں موجود ایک اور صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مظاہرین کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں تین بار داخل ہوئے۔

’پہلی بار میں مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی لیکن سامان اٹھانے کے مناظر نظر نہیں آئے۔ دوسرے راؤنڈ میں انھوں نے وہاں جلاؤ گھیراؤ کیا، جو چیزیں بچ گئی تھیں، ان کو توڑا۔ اس کے بعد کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں، ان کو آگ لگائی، کچن کا سامان باہر زمین پر پھیلا ہوا تھا، کچھ لوگ اسے اٹھا رہے تھے، کچھ کھا رہے تھے۔ کمروں سے ڈرائی فروٹ اٹھا رہے تھے۔‘

صحافی نے ہمیں بتایا کہ ہم نے تیسرے راؤنڈ میں لوگوں کو سامان اٹھاتے دیکھا۔

’لوگوں کو پرندے اور جانور لے جاتے بھی دیکھا گیا۔ جب اندھیرا ہو رہا تھا تو لوگ اندھیرے میں زیادہ سامان اٹھا رہے تھے۔ بہت کم لوگوں کے چہرے واضح تھے اور زیادہ تر نے اپنے چہرے ڈھک رکھے تھے۔‘

’جب ہم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ یہ چیزیں کیوں اٹھا رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہم احتجاج کر رہے ہیں تو یہ چیزیں کمبل، پردے وغیرہ باہر بیٹھنے کے لیے کام آئیں گی۔ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے لیڈر کے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی تو جواب میں ہم بھی وہ ہی کر رہے ہیں۔ ہم کھانے پینے کا سامان اس لیے اٹھا رہے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے، اور ہمارے پیسوں سے آیا ہے۔‘

’لوگوں نے وہاں سے مارخور کی شبیہ اٹھا لی، ایک شخص نے کہا کہ اس پر ہمارا حق ہے، جن لوگوں کی اصل میں یہ جگہ تھی، انھیں اب یہ جگہ ملی ہے۔ 75 برس کے بعد جن لوگوں کی یہ جگہ تھی انھیں واپس مل گئی۔‘

صحافی نے بتایا کہ ’رات گیارہ بجے کے بعد گھر کی کوئی جگہ ایسی نہیں تھی، جس کو آگ نہیں لگائی گئی، وہاں سے نکلنے کے بعد وہاں سے دھماکوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ تقریباً سات گاڑیوں کا نذر آتش کیا گیا تھا۔‘

لوگ ایسے خوش ہو رہے تھے، جیسے مال غنیمت ہاتھ لگا ہو‘

ہے۔ جسے حرف عام میں جناح ہاؤس کہا جاتا ہے تو اس چوراہے میں باقاعدہ پارٹی کے ترانے چل رہے تھے، اور لوگ وہاں پر جمع تھے۔‘

ممتاز وٹو نے ہمیں بتایا کہ جس وقت وہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پہنچے تو وہاں کوئی سکیورٹی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

’کینٹ کی ریلوے لائن والی سائیڈ سے جو اینٹری ہے، وہاں صرف ایک فوجی کھڑا تھا جہاں عام طور پر آٹھ سے دس فوجی ہوتے ہیں اور لوگ اس بے چارے پر بھی آوازیں کس رہے تھے۔ اس مقام کے بعد کور کمانڈر ہاؤس تک تین اشارے آتے ہیں لیکن کوئی فوجی موجود نہیں تھا۔ کور کمانڈر ہاؤس کے باہر بھی کوئی فوجی موجود نہیں تھا۔‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور صحافی نے ہمیں بتایا کہ جب یہ سارا معاملہ شروع ہوا تو فوجی گاڑیوں کو بھی مظاہرین نے روکا، پتھراؤ کیا لیکن جواب میں فوجی جوان پر امن رہے اور کوئی ردعمل نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں