تحریریں

اسپارٹیم: ڈائٹ مشروب میں استعمال ہونے والا سویٹنر جو ممکنہ طور پر کینسر کا باعث بنتا ہےمنقول

ہم کتنا اسپارٹیم کھا یا پی سکتے ہیں، اس پر عالمی ادارۂ صحت کی تجویز برقرار ہے جبکہ چینی کے اس متبادل کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ کینسر کی وجہ بن سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او میں ماہرین کے دو گروہ اس حوالے سے سائنسی مقالوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ’کینسر کی ممکنہ وجہ‘ کا لیبل اکثر خوف اور اضطراب پیدا کرتا ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہے کہ شواہد ناکافی ہیں۔

اکثر لوگ مقررہ حد سے کم اسپارٹیم استعمال کرتے ہیں مگر عالمی ادارۂ صحت کا مطالبہ ہے کہ موٹاپے کا شکار لوگ اس میں مزید کمی لائیں۔

اسپارٹیم کھانوں کی ڈائٹ یا شوگر فری قسموں میں پایا جاتا ہے۔ یہ چینی سے 200 گنا زیادہ میٹھا ہے مگر اس میں چینی جتنی کیلوریز نہیں۔

ڈائٹ کوک، کوک زیرو، پیپسی میکس اور سیون اپ فری جیسے مشہور برانڈز میں اسپارٹیم کی مٹھاس ڈالی جاتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی یہ قریب چھ ہزار پراڈکٹس میں پایا جاتا ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ، چیوئنگ گم، دہی اور کھانسی روکنے والی میٹھی گولیاں۔

اتنے وسیع استعمال کے باوجود اس کیمیکل کی سیفٹی پر 1980 کی دہائی کے دوران تنازع کھڑا ہوا۔

میں نے ڈبلیو ایچ او میں محکمۂ نیوٹریشن اور فوڈ سیفٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانسسکو برانکا سے پوچھا کہ زیادہ صحت بخش انتخاب کیا ہے: چینی یا سویٹنر؟

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ سویٹنر والی کولا پینی ہو یا چینی والی تو میرے خیال سے ایک تیسرا راستہ بھی ہے کہ پانی پی لیا جائے اور میٹھی چیزوں کا استعمال محدود رکھا جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی مقالوں کے جائزے سے یہ ’خدشہ‘ پیدا ہوا کہ اسپارٹیم صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ان لوگوں کو تشویش نہیں ہونی چاہیے جو کبھی کبھار یا کسی تہوار کے موقع پر ڈائٹ مشروب یا اسپارٹیم والی کوئی اور چیز پیتے ہیں ’مسئلہ بہت زیادہ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ہے۔‘

ڈبلیو ایچ او میں انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر نے سب سے پہلے شواہد کا جائزہ لیا۔

اس نے چار ممکنہ اقسام بیان کی ہیں:

ڈائٹ کوک، کوک زیرو، پیپسی میکس اور سیون اپ فری جیسے مشہور برانڈز میں اسپارٹیم کی مٹھاس ڈالی جاتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی یہ قریب چھ ہزار پراڈکٹس میں پایا جاتا ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ، چیوئنگ گم، دہی اور کھانسی روکنے والی میٹھی گولیاں۔

اتنے وسیع استعمال کے باوجود اس کیمیکل کی سیفٹی پر 1980 کی دہائی کے دوران تنازع کھڑا ہوا۔

میں نے ڈبلیو ایچ او میں محکمۂ نیوٹریشن اور فوڈ سیفٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانسسکو برانکا سے پوچھا کہ زیادہ صحت بخش انتخاب کیا ہے: چینی یا سویٹنر؟

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ سویٹنر والی کولا پینی ہو یا چینی والی تو میرے خیال سے ایک تیسرا راستہ بھی ہے کہ پانی پی لیا جائے اور میٹھی چیزوں کا استعمال محدود رکھا جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی مقالوں کے جائزے سے یہ ’خدشہ‘ پیدا ہوا کہ اسپارٹیم صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ان لوگوں کو تشویش نہیں ہونی چاہیے جو کبھی کبھار یا کسی تہوار کے موقع پر ڈائٹ مشروب یا اسپارٹیم والی کوئی اور چیز پیتے ہیں ’مسئلہ بہت زیادہ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ہے۔‘

ڈبلیو ایچ او میں انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر نے سب سے پہلے شواہد کا جائزہ لیا۔

اس نے چار ممکنہ اقسام بیان کی ہیں:

عالمی ادارۂ صحت نے اسپارٹیم کی درجہ بندی ان اشیا میں کی ہے جو اس کے مطابق ’ممکنہ طور پر کینسر کا باعث بن سکتی ہیں۔‘ اس فہرست میں الو ویرا اور لیڈ بھی شامل ہیں۔

اس فیصلے کی وجہ وہ تین مقالے ہیں جن میں اس کا تعلق جگر کے کینسر سے جوڑا گیا تھا۔

تاہم ’ممکنہ‘ اس لیے لکھا گیا کیونکہ اس کا تعلق سائنسی شواہد سے ہے۔ اگر شواہد ٹھوس ہوتے تو اسپارٹیم کی درجہ بندی مزید اوپر کی جاتی۔

انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی ڈاکٹر میری شوبار برگن کا کہنا ہے کہ ’شواہد اچھے معیار کے تھے نہ تسلیم کے قابل‘ اور ’یہ محققین کے لیے پیغام ہے‘ کہ وہ سویٹنر پر مزید تحقیق کریں۔

کینسر کی درجہ بندیوں سے اکثر غلط ہیڈلائنز بنتی ہیں۔ الکوحل اور پلوٹونیئم کینسر کا باعث بنتے ہیں لہذا ایک ہی درجہ بندی میں ہیں تاہم دونوں میں سے ایک کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

اس لیے عالمی ادارہ صحت اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا مشترکہ محکمہ ’ایکسپرٹ کمیٹی آن فوڈ ایڈیٹیوز‘ کا کام ہے کہ اشیا کی محفوظ مقدار کا تعین کریں۔

انھوں نے اسپارٹیم کے کینسر، دل کے امراض اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا باعث بننے کے شواہد کا جائزہ لیا مگر اسے ’ناکافی شواہد‘ ملے اور اس نے 1981 سے اپنی تجویز تبدیل نہیں کی۔

اس لیے اسپارٹیم کی محفوظ مقدار یومیہ جسم کے وزن کے اعتبار سے 40 ملی گرام فی کلوگرام ہے۔

یہ کوئی ہدف نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مجوزہ مقدار ہے۔ اس کا تعلق جسم کے وزن سے ہے اور بچوں میں حد کے قریب پہنچنے کا زیادہ امکان ہے۔

ڈاکٹر برانکا نے کہا کہ رات کے کھانے کے وقت میٹھے کاربونیٹڈ مشروب میز پر رکھنا ’اچھا فیصلہ نہیں‘ کیونکہ اس سے بچوں میں پوری زندگی کے لیے میٹھی چیزوں کی لت لگ سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس بات کے ٹھوس سائنسی شواہد موجود ہیں کہ سویٹنرز لوگوں کو وزن کم کرنے میں مدد نہیں کرتے۔

ان کی تجویز ہے کہ لوگ کم میٹھوں والی ڈائٹ پر منتقل ہوں لہذا چینی اور سویٹنر دونوں کو کم کریں جبکہ کمپنیاں کم میٹھی مگر مزیدار اشیا بنائیں۔

سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اسپارٹیم کیسے کینسر کا باعث بنتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق اسپارٹیم آنت میں جا کر بہت جلد تین چیزوں میں ٹوٹ جاتا ہے: فنائلیلانین، اسپارٹک ایسڈ اور متھانول۔

مگر یہ کئی طرح کے کھانوں کے ہضم کرنے کے دوران بنتے ہیں اور کینسر سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ محققین کے مطابق اسپارٹیم براہ راست لوگوں کے ڈی این اے میں کینسر کا باعث نہیں بنتا۔ جسم میں سوزش کی سطح بڑھانا ایک ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔

انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل فرانسز ہنٹ ووڈ نے کہا کہ اس جائزے نے ایک بار پھر اسپارٹیم کے محفوظ ہونے کو ثابت کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اسپارٹیم، دیگر لو کیلوری سویٹنرز کی طرح، متوازن ڈائٹ کے ذریعے لوگوں کی چینی کی کھپت کم کرتا ہے اور یہ عوامی صحت کا اہم معاملہ ہے۔‘

کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو محفوظ انداز میں اسپارٹیم استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں پی کے یو نامی پیدائشی بیماری ہے۔ ایسے لوگ فنائلیلانین کو ہضم نہیں کر پاتے جو کہ اسپارٹیم کے ٹوٹنے سے بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں