تحریریں

سورج کے ساتھ ساتھ :تحریر راجہ قدیر

سورج کے ساتھ ساتھ…1985
🌍🌅🌍🌅🌍🌅🌍🌅🌍🌅
-میری سٹوری ذرا لمبی ہے مجھے پتہ ہے آپکا ٹائم بہت قیمتی ہے عام طور لمبی پوسٹ کم لوگ پڑھتے ہیں۔ اگر پسند نہ آئے تو کمنٹ میں لکھ دیں۔ آئیندہ محتاط رہوں گا۔ شکریہ۔ —————
کہتے ہیں دنیا گول ہے🌍 بلکہ واقعی گول ہے اور یہ سورج کے گرد چکر لگاتی ہے اور ایک چکر سال کا ہوتا ہے۔ اسی سےموسم بنتے ہیں۔ جب قطب شمالی سورج کے سامنے ہوتا ہے تو موسم گرما ہوتا ہے۔ قطب جنوبی میں اس کے برعکس ماسم سرما ہوتا ہے۔
دوسرا چکر زمین اپنے محور پر لٹو کی طرح گھومتی ہے۔ جو حصہ سورج کے
سامنے آتا ہے وہاں دن ہوتا ہے۔دوسرے لفظوں میں دن چلتا رہتا ہے اور رات اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ سب سے پہلے دن جاپان والے دیکھتے ہیں۔ اسی لٸے اسکو چڑھتے سورج کی سرزمین کہتے ہیں۔ اور اس کے بعد آہستہ آہستہ مغرب کی طرف بڑھتا ہے اور 24 گھنٹے کےبعد پھر جاپان میں طلوع ہو جاتا ہے۔
میں ایک ایسے سفر کا احوال بیان کروں گا جس میں دن کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے جہاں سورج غروب ہوتا ہے وہاں پہنچ گیۓ۔ دوسرے لفظوں میں سورج کے ساتھ ساتھ پرواز کرتے رہے۔
سورج طلوع ہونے سے کچھ پہلے غالباً دن بنگلہ دیش یا بھارت میں چڑھا ہو گا۔سحر کے وقت ہم PIA کے جمبو جیٹ پر کراچی سے نیویارک روانہ ہوے۔ جہاز نے جب اڑان بھری تو سورج طلوع ہونے کے قریب تھا اور دن کی روشنی پھیل رہٸی تھی۔ کچھ دیر بعد جب جہاز اوپر گیا تو سورج نظر آیا۔ تھوڑی دیر بعد صبح کا ناشتہ سرو کیا گیا۔ کراچی سے جہاز سمندر کے اوپر پرواز کرتا ہوا گلف کی طرف بڑھ رہا تھا۔ خلیج فارس جنوب مغربی ایشیا میں ایران اور جزیرہ نما عرب کے درمیان واقع خلیج ہے۔ یہ تجارتی نقطہ نظر سے دنیا کے اہم ترین آبی علاقوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ ایران، عراق اور بعض عرب ریاستوں کو بحر ہند سے ملاتی ہے
کیونکہ ہمارا پہلا سٹاپ دوبٸی تھا۔ ہمارا تین آدمیوں کا گروپ تھا اور کورس کے لیۓ امریکہ جا رہے تھے۔ میں باہر دیکھنے کا کچھ زیادہ ہی شوقین تھا اسلیۓ کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا۔ جب جہاز کا رخ شمال کی جانب گلف کی طرف ہوا تو سورج نکلا ہوا تھا اور تازہ تازہ سورج بہت دلکش نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اگست کا مہینہ تھا جہاز کے اندر AC کی وجہ سے ٹھنڈک تھی۔ لیکن نیچے گلف کا نیلا پانی اور سورج کی روشنی مل کر بہت رومانٹک سین بنا رہے تھے۔ دور نیچے کو شپ گلف میں چھوٹی کشتیوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دو گھنٹے کی اڑان کے بعد کپتان کی آواز سناٸی دی کہ تھوڑی دیر میں ہم دوبٸی انٹرنيشنل ایر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ تھوڑی دیر بعد جہاز لینڈ کر گیا۔ کپتان نے پھر اعلان کیا کہ دوبٸی والے مسافر اتریں گے۔ باقی اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہیں۔ جہاز ٹرمینل پر کھڑا ہوا تو دوبٸی والے مسافر اترنے لگے۔ کچھ دیر بعد نٸے مسافر آ کر بیٹھ گٸے۔ door close ہونے کے بعد جہاز نے پھر اڑان بھری۔ ہماری اگلی منزل قاہرہ تھی۔ ہم مغرب کی طرف جا رہے تھے اور دن بھی ہمارے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف جا رہا تھا۔ جہاز جب اوپر ہوا تو ہم سعودی عرب کے ریگستان پر پرواز کر رہے تھے۔ریگستانی منظر سورج کی روشنی میں بہت خوبصورت نظر آ رہا تھا۔ اففف یہ صحرا ۔۔۔یہ ہوا کے دوش پہ اڑتی ریت ۔۔۔نا جانے کیا ہے اس میں ایسا جو مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔۔نہ جانے کیوں من کرتا ہے ۔اس صحرا کی ساری ریت اپنی وجود پہ اوڑھ لوں ۔سب کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں ۔میرا وجود اس ریت میں ریت ہو جاۓ۔۔کیوں ایسی بے اختیاری ہو جاتی ہے صحرا کو دیکھ کر ۔ شاید اس صحرا کی ویرانی سے عشق ہے مجھے ۔یا شاید ایسا ہی ایک صحرا مرے اندر بستا ہے ۔تب ہی میرا وجود اس صحرا کی طرف کھنچتا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد پھر ناشتہ دیا گیا۔ لیکن پاکستانی ٹاٸم کے مطابق لنچ ٹاٸم تھا۔ 4 گھنٹے کی فلاٸٹ سعودی عرب کو کراس کر کے بحیرہ احمر میں داخل ہو گیا۔ بحیرہ احمر (Red Sea) یا بحیرہ قلزم خلیج ہے۔ یہ آبنائے باب المندب اورخلیج عدن کے ذریعے بحر ہند سے منسلک ہے۔ اس کے شمال میں جزیرہ نمائے سینا، خلیج عقبہ اور خلیج سوئز واقع ہیں جو نہر سوئز سے ملی ہوئی ہے
بحیرہ احمر کے دوسری طرف افریقہ شروع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد نہر سویز کو پار کرکے افریقی ملک مصر میں داخل ہوٸی تو جہاز کچھ نیچے ہو گیا۔ دریایۓ نیل کا پانی صاف نظر آ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد پاٸلٹ نے اعلان کیا اب ہم قاہرہ انٹرنشنل ایرپورٹ پر اترنے والےہیں۔ جن مسافروں نے قاہرہ اترنا تھا وہ اتر گٸے ۔ اور چند ایک مصری جہاز پر سوار ہوٸے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد جہاز نے پھر اڑان بھری۔ اور اگلی منزل پیرس کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ ایک لمبی پرواز تھی تقریباً 5 گھنٹے کی۔ ایک براعظم افریقہ سے دوسرے براعظم یورپ میں جانا تھا۔ قاہرہ سے جہاز اڑا تو بحیرہ روم میں داخل ہو گیا۔ ایر ہوسٹس نے لنچ سرو کیا۔ بحیرۂ روم، جسے اردو میں بحیرۂ متوسط یابحیرۂ ابیض بھی کہا جاتا ہے، (انگریزی: Mediterranean Sea) افریقا، یورپ اورایشیا کے درمیان ایک سمندر ہے جو تقریبا چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے۔ یہ صرف وہاں سے کھلا ہے جہاں اسپین اورمراکش آمنے سامنے ہیں اور درمیان میں چندکلومیٹر کا سمندر ہے (دیکھیے : آبنائے جبل الطارق) بحیرہ روم کے شمال میں یورپ، جنوب میں افریقہ اور مشرق میں ایشیا موجود ہے۔ یہ 2.5 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے لیکن اسے بحر اوقیانوس سے منسلک کرنے والی آبنائے جبرالٹر صرف 144 کلومیٹر چوڑی ہے۔ واضع رہے کہ یہ ہمارا دوسرا لنچ تھا اس فلاٸٹ پر۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ جہاز بادلوں کے اوپر چلا گیا تو کبھی بادل نیچے نظر آتے کبھی سمندر کا نیلا پانی اور چھوٹے چھوٹے بحری جہاز بلندی کی وجہ سے۔ کافی دیر جہاز سمندر کے اوپر اڑتا رہا پھر جا کر خشکی نظر آٸی۔ اب جہاز سوٹزرلینڈ کے اوپر تھا۔سویٹزرلینڈ کہا جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ ایک یورپی ملک ہے جو جغرافیائی اعتبار سے ایک طرف کوہِ الپس کی خوبصورت وادیوں اور دوسری طرف ایورہ کی اونچی نیچی پہاڑیوں میں واقع ہے۔ یہ ملک 21 ہزار265 مربع کلو میٹریا 15 ہزار940 مربع میل رقبے پر محیط ہے
کوہ ایلپس کی برف پوش چوٹیاں سورج کی روشنی میں اپنا جلوہ دکھا رہیں تھیں۔ سبزہ بھی بہت تھا سبز اور سفید رنگ کے امتزاج نے اور زیادہ حسین منظر بنا دیا تھا۔ پاٸلٹ نے بڑی مہارت سے دونوں ساٸڈ سے خوبصورت منظر دکھایا۔ اور رفتہ رفتہ جہاز فرانس کی حدود میں داخل ہو گیا۔ سورج کا سفر بھی ہمارے ساتھ ساتھ جاری تھا۔ یعنی جدھر دن جا رہا تھا ہم بھی اسی طرف جا رہے تھے۔ کافی دیر فرانس پر اڑنے کے بعد پاٸلٹ نے اعلان کیا کہ ہم پیرس پر اترنے والے ہیں۔ معمول کے مطابق مقامی وقت اور درجہ حرارت بتاے۔ فرانس کے وقت کے مطابق دن کے 12 بجے تھے۔ جہاز تھوڑا نیچے ہوا تو پیرس کا ایفل ٹاور نظر آیا۔اور کچھ دیر بعد پیرس ایرپورٹ پر اتر گیا۔ یہاں جہاز میں ایندھن اور صفاٸی کے لیۓ دو اور گھنٹے رکنا تھا۔ ہم بھی ایرپورٹ لاونج میں آگیۓ۔ ہمارے ساتھ دنیا کا طویل القامت شخص عالم چنا پاکستانی بھی سفر کر رہا تھا۔ 9 فٹ قد کے ساتھ بہت نمایاں تھا۔ وہ بھی شاٸد کراچی سے نیویارک جا رہا تھا۔ ایرپورٹ لاونج میں ہر شخص کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کے ساتھ اس کا سیکرٹری تھا جو سندھی اور انگلش پر عبور رکھتا تھا۔ کیونکہ عالم چنا سندھی تھا۔ بہت سارے یورپین اس کے ساتھ ہاتھ ملا رہے تھے۔ فوٹو بھی بنوا رہے تھے۔ اور سوال بھی کر رہے تھے۔ جس کا جواب علم چنا سیکٹری کی مدد سے دے رہا تھا۔ سیکٹری بمشکل اس کی ناف تک ہو گا۔ ہم بھی گردن اوپر کر کے دیکھنے لگے۔ اس کےجوتے کا ساٸز نہیں تھا موچی سپیشل 12 نمبر کا بناتا تھا۔ شلوار قمیض بھی کافی کھلی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ 12 میٹر کپڑا لگتا ہے۔ خوراک بھی یقیناً زیادہ ہی کھاتا ہو گا۔ پاکستانی حکومت نے وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جس سے روزمرہ کے اخراجات اور بود و باش پورے ہوتے تھے۔ چارپاٸی کا ساٸز بھی بڑا ہو گا۔ عام دروازے سے گزرنا محال تھا۔
کافی دیر ہم ایرپورٹ کے اندر گھومتے رہے۔ ایر پورٹ کے چاروں طرف شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جہاں سے باہر کا منظر دکھاٸی دے رہا تھا۔ ایفل ٹاور پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا۔
کچھ دیر بعد ادھر ادھر گھومتے رہے۔ اسکے بعد اعلان ہوا کہ نیویارک جانے والے مسافر جہاز میں تشریف لے جایٸں ۔ ہم جہاز میں داخل ہوٸے تو زیادہ تر نیۓ یورپین مسافر تھے۔ کالے بالوں کی جگہ بھورے سنہری بالوں نے لے لی۔ ابھی سورج کافی اوپر آگیا تھا۔ جہاز جب رن وے کے سرے پر کھڑا اڑان بھرنے کی تیاری کر رہا تھا تو میں نے جہاز کی کھڑکی سے ایفل ٹاور کا نظارہ کیا جو بہت نمایاں نظر آ رہا تھا۔
ایفل ٹاور لوہے سے بنے ایک مینار کا نام ہے جو فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ اس کا نام اس کو ڈیزائن کرنے والے گستاف ایفل پر رکھا گیا ہے۔پیرس کا یہ سب سے اونچا ٹاور دنیا میں سب سے زیادہ پہچانی جانے والی یادگار ہے اس کی بلندی 1063 فٹ / 324 میٹر ہے۔ اسے 1889ء میں مکمل کیا گیا۔ یہ جب سے بنا ہے اسے 200،000،000 لوگ دیکھ چکے ہیں اس لحاظ سے یہ دنیا کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زيادہ سیاح آچکے ہيں۔ اس کا وزن 7300 ٹن ہے۔
جہاز جب اوپر ہوا کچھ دیر فرانس پر اڑنے کے بعد بحر اوقیانوس کے اوپر آ گیا۔
ایر ہوسٹس نے اعلان کیا کہ
کراچی سے آنے والے مسافروں کے لیۓ ڈنر اور پیرس سے سوار ہونے والوں کے لیۓ لنچ سرو کیا جاۓ گا۔ کھانا کم و بیش ایک جیسا ہی تھا۔ بحراوقیانوس کی بلندیوں پر کھانا تناول کیا۔
بحر اوقیانوس دوسرا بڑا سمندر ہے جو سطح زمین کے 5/11 حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کا انگریزی نام اٹلانٹک، لیکن اردو میں عموما اوقیانوس سے مراد Atlantic Ocean لی جانے لگی ہے لہذا یہاں "بحر اوقیانوس” کو Atlantic Ocean کے متبادل کے طور استعمال کیا گیا ہے
یہ ایک 8 گھنٹے کی طویل تھکا دینے والی فلاٸٹ تھی۔ میں نیچےبحراوقیانوس کے نیلے پانیوں کا نظارہ کر رہا تھا۔ دور دور تک خشکی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہم ایشیا افریقہ یورپ سے نکل کر چوتھے براعظم امریکہ کے جانب محو پرواز تھے ۔ پاکستان میں تو دن ختم ہو گیا تھا لیکن بحر اوقیانوس پر دوپہر تھی۔ سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ کبھی کبھار بادلوں کا کوٸی ٹکڑا آ جاتا تھا اور سمندر نظر نہیں آتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا جیسے بادلوں کے اوپر تیر رہے ہیں۔ دو تین گھنٹے کے بعد ایک انگلش فلم لگا دی گٸی تاکہ لوگ بور نہ ہوں۔
زیادہ دیر بیٹھنے کی وجہ سے کچھ تھکاوٹ ہو گٸی۔ تو میں واش روم میں جانے کے لیۓ کھڑا ہوا ۔ فارغ ہونے کے بعد میں پیچھے کچن کے ساتھ ایک کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اور ایک ڈرنک لی اور کھڑے کھڑے پیتا رہا اور باہر کا اور اندر کا نظارہ کرتا رہا۔
تقریباً 8 گھنٹے کی اڑان کے بعد پاٸلٹ نے اعلان کیا کہ کچھ دیر میں ہم نیویارک ایرپورٹ پر اترنے والے ہیں۔
یاستہائے متحدہ امریکا (انگریزی: United States of America؛ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکہ) شمالی امریکا میں واقع ایک ملک ہے۔ اسے عرف عام میں صرف یونائیٹڈ سٹیٹس (انگریزی: United States؛ ریاستہائے متحدہ) بھی کہتے ہیں جبکہ امریکا (انگریزی: America؛ امیریکہ) کا لفظ بھی زیادہ تر اسی ملک سے موسوم کیا جاتا ہے جو بعض ماہرین کے مطابق تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔

ریاستہائے متحدہ شمالی امریکا کا دوسرا اور دنیا کا تیسرا (یا چوتھا) بڑا ملک ہے۔ اس کے شمال میں کینیڈا، جنوب میں میکسیکو، مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحر الکاہل واقع ہیں
بحراوقیانوس کا سفر تمام ہوا۔ اب چھوٹے چھوٹے جزیرے نظر آنا شروع ہوے۔ جہاز تھوڑا نیچے آیا تو مشہور مجسمہ آزادی بھی نظر آیا۔
مجسمہ آزادی ایک بہت بڑا مجسمہ ہے جو امریکہ میں نیو یارک شہر کی بندرگاہ پر نصب ہے۔ یہ دنیا بھر میں امریکہ کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسے امریکہ کی آزادی کی 100 سالہ تقاریب کے موقع پر فرانس کی طرف سےفرانس-امریکہ دوستی کے اظہار کے طور پر تحفتا امریکی عوام کو پیش کیا گیا۔

تانبے کا بنا ہوا یہ مجسمہ 1886ء میں امریکا کے حوالے کیا گیا۔ یہ مجسمہ تمام امریکا آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے دریائے ہڈسن کے دہانے پر جزیرہ آزادی پر لگایا گیا ہے۔

اس کا ڈیزائن آئفل نے بنایا۔ یہ مجسمہ ایک عورت کا ہے جس نے ڈھیلا سا لباس پہنا ہوا ہے اس کے سر پر سات نوکوں والا تاج ہے جو سات سمندروں اور سات براعظموں کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنے بائيں ہاتھ میں اپنے جسم کے ساتھ اسنے ایک تختی لگائی ہوئی ہے۔ اور دوسرے ہاتھ میں اونچا کر کے ایک جلتی ہوئی مشعل پکڑی ہوئی ہے۔ مجسمے کا ڈھانچا لوہے کا ہے اور اس پر تانبے کا مجسمہ ہے۔ مشعل سونے کے پترے کی ہے۔ مجسمہ 151 فٹ اور 1انچ لمبا ہے۔ تختی کے اوپر چار جولائی 1776ء لکھا ہوا ہے جو امریکہ کی سلطنت برطانیہ سے آزادی کے اعلان کی تاریخ ہے

اب جہاز جان ایف کینیڈی ایر پورٹ پر لینڈ کرنے لگا۔
ایرپورٹ ٹرمینل پر ہم دستی سامان نکالا اور باہر ایرپورٹ لونج میں آ گیۓ۔
مقامی وقت کے مطابق شام کے 4 بجے تھے۔ سورج اب بھی اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ پاکستان میں پھر صبح ہونے والی تھی لیکن دن اور تاریخ اگلی تھی۔ ہم 24 گھنٹے کا سفر کر چکے تھے۔
نیویارک میں ہماری امیگریشن ہونی تھی۔ پہلی بار امریکہ میں انٹری پر کمپیوٹر میں ہاتھ کی انگلیوں کے نشان لیۓ گیۓ۔ پاسپورٹ اور ویزا چیک کرنے کے بعد ہمیں باہر جانے کی اجازت تھی۔ انٹرنيشنل ٹرمینل سے لوکل ٹرمینل پر جانے کے لیۓ بس موجود تھی۔ ہماری اگلی منزل Denver تھی۔ جو مزید پانچ گھنٹے کی مسافت پہ تھا۔ Trans word ایر لایٸن کی پرواز میں دو گھنٹے کا انتظار تھا۔ ہم اجنبیوں کی طرح ہر چیز کو بڑی غور سے دیکھ رہے تھے ہمارے لیۓ بالکل ایک دنیا اور نیۓ لوگ تھے۔ ایک امریکی نے نکر پہن رکھی تھی جسکے دھاگے نکلے ہوے تھے۔ میری ساتھی شاہ نے کہا کہ کتنے غریب لوگ ہیں پینٹ پرانی ہو جاٸے تو پھاڑ کر نکر بنا لیتے ہیں۔ میں چونکہ پہلے بھی امریکيوں کے ساتھ کام کر چکا تھا۔ میں نے کہا نہیں یہ ان لوگوں کا فیشن ہے اور یہ نکر دوسری نکر سے مہنگی ہو گی کیونکہ اس کے دھاگے نکلے ہوے ہیں۔ امریکی ایسی چیزوں کو پسند کرتے ہیں جو منفرد اور attract کرتی ہوں۔ اتنے میں ایک اور امریکی کی پتلون پر گھٹنوں کی جگہ پر پیوند لگے ہوے تھے۔ شاہ نے کہا وہ دیکھو ٹاکیاں لگی ہوٸی ہیں۔ پتلون پھٹنے کے بعد مرمت کر کے پہن لیتے ہیں یا پھاڑ کر جانگیہ بنا لیتے ہیں۔ خیر شاہ بھی مذاق میں بات کر رہا تھا۔ 2 گھنٹے ایر پورٹ پر گزارنے کے بعد اناونسمنٹ ہوٸی کہ Denver جانے والے مسافر فلاں گیٹ پر تشریف لایٸں۔ یوں ہم جہاز کے اندر گٸے۔ 6 بجے کا لوکل ٹاٸم تھا۔ اور ہمیں 26 گھنٹے سفر میں گزر گیٸے تھے۔ پاکستان میں تو دوسرے دن شروع ہو گیا تھا تاریخ بدل گئی تھی لیکن ہمارا دن غالباً بہت لمبا تھا ۔ 36 گھنٹے کا ہو گا ۔ابھی اور مغرب میں جانا تھا جہاں دو گھنٹے کا فرق تھا۔
جہاز پر بیٹھتے ہی ہمیں نیند نے گھیر لیا۔ اور ہم سو گٸے۔ ایر ہوسٹس نے ڈنر سرو کیا۔ لیکن ہم دو دفعہ پہلے بھی ڈنر کر چکے تھے اسلیۓ سوے رہے۔ امریکی ایرہوسٹس کافی کمٹڈ ہوتی ہیں۔ اس نے کھانا اٹھا کر ہمارے اوپر ایک منی بلینکٹ ڈال دیا کیونکہ جہاز کے اندر کافی ٹھنڈک تھی۔ 5 گھنٹے آرام سے نیند کی۔ جب جہاز لینڈنگ پر آیا تو ایر ہوسٹس نے اٹھایا اور کہا سیٹ بیلٹ باندھ لیں ہم Denver لینڈ کرنے والے ہیں۔ مقامی ٹاٸم کے مطابق رات کے 9 بجے تھے۔ ابھی تک وہی دن چل رہا تھا۔ یہ میری زندگی میں most longest day تھا. اور طویل ترین سفر تھا۔ چار براعظموں پر محیط سفر دلچسپ تھا اور معلوماتی بھی تھا۔
ڈینور (Denver) کو”Mile-High City”
بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ سطح سمندر سے ایک میل کی بلندی پر واقع ہے ۔ میں نے ستمبر کے مہینے میں یہاں برف باری بھی دیکھی۔

US Air Force
کو پہلے ہی اطلاع دے دیٸ گٸی تھے کہ PAF کے 3 ادمی کورس کے لیۓ فلاں فلاٸٹ سے Denver پہنچ رہے ہیں۔ اسلۓ انہوں گاڑی Denver Airport پر بھیج دی۔ ہم بالکل اجنبی تھے۔ میرے ساتھی شاہ نے36 گھنٹے کی طویل مسافت سے اکتا کر شلوار قمیض پہن لی۔میرے خیال میں پورے ایرپوٹ پر واحد آدمی تھا جس نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ اور اسی شلوار قمیض کی وجہ سے ڈراٸیور نے ہم سے رجوع کیا۔ وہ کافی دیر انتظار کے بعد ڈراٸیور واپس جانے والاتھا تو اس نے ایک پاکستانی فیملی سے پوچها کیا انہوں نے کسی اور پاکستانی کو دیکھا ہے تو انہوں نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اس آدمی نے شلوار قمیض پہن رکھی ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا آپ کورس کے لیے آۓ ہیں۔ ہم نے کہا ہاں۔ تو اس نے ایک ڈبل کیبن شیورلیٹ گاڑی کی طرف اشارہ کیا اور ہم سامان اس میں رکھ کر اس کے ساتھ بیٹھ گٸے یوں شاہ کی شلوار قمیض ہماری شناخت کا ذریعہ بنی۔
تقریباً ادھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم Lowary AFB پہنچے۔ گےائرپورٹ پر چیک کے بعد ہمیں 1400 عمارت میں اتار دیا۔ Reception میں بیٹھی ایک امریکی خاتون نے نہایت پر تپاک Welcome کیا۔ اور ہمیں کمرے کی چابیاں اور ایک عدد پیک ڈنر حوالے کرتے ہوے ایک اور خاتون کو کہا کہ ان کو ان کے کمروں میں چھوڑ آو۔ یوں ہم اپنے کمروں میں آ گۓ ۔ کمرہ فل فرنشڈ تھا بڑا کمرا دو بیڈ فرج اور ٹی وی کی سہولت کافی میکر اور چاۓ اور کافی کے ساشے موجود تھے۔ باتھ روم باتھ ٹب اور سامان اور کپڑوں کے لیے کپ بورڈ موجود تھا۔ میں نہانے کے بعد فریش ہوا اور سو گیا۔ واضح رہے کہ تیسرا ڈنر کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔اور تھکاوٹ کی وجہ سے جلد سو گیۓ۔
ہم نے 36 گھنٹے سفر میں گزارے اور دن اور تاریخ نہیں بدلی۔ longest day. لیکن پاکستان میں تبدیل ہو گیا۔ اگر امریکہ میں رات 11 بجے تھے تو پاکستان میں دوسرے دن کے 11 بجے تھے۔ ہمیں reception پر بتایا گیا تھا ایک ہفتہ آرام کریں. تاکہ آپ کے سونے کے اوقات ایڈجسٹ ہو جاٸیں۔
Lowry Air Force Base. is a (USAF) training base and site of the U.S. Air Force Academy. 🌹🌹🌹🌹🌹

🌹تحریر راجہ قدیر🌹

یہ بھی پڑھیں