تحریریں

وہ عادات جو آپ کی آواز کو بوڑھا ہونے سے روک سکتی ہیں

برٹش سنگر اور کمپوزر سر ایلٹن جان، اس سال کے گلاسٹنبری میوزیکل فیسٹیول کی تاریخ میں براہ راست سب سے زیادہ دیکھے جانے والے گلوکار کا ریکارڈ بنا کر ہیڈ لائنز کا حصہ بنے۔

یہ وہ تاریخی لمحات تھے جب سر ایلٹن جان کی برطانیہ میں آخری پرفارمنس دیکھنے کے لیے ستر لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بی بی سی کا رخ کیا۔

76 سالہ گلوکار نے شاندار شو پیش کیا لیکن ان کے تمام کریئر کے دوران ان کی آواز میں تبدیلی کو شاید صرف وہی لوگ محسوس کر پائے ہوں گے جنھوں نے کئی دہائیوں سے ان کی موسیقی کو فالو کیا ہو۔

اور یہ تبدیلی صرف اس وقت نہیں آئی جب انھوں نے 1980 کی دہائی میں اپنے گلے میں موجود ووکل کورڈ (اوتار صوت) میں ہو جانے والے بعض طبی مسائل کے باعث سرجری کروائی تھی۔

تو کیا ہم اپنی آواز پر عمر کے اثرات کو روک سکتے ہیں؟

سر ایلٹن جان کی برطانیہ میں آخری پرفارمنس دیکھنے کے لیے ستر لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بی بی سی کا رخ کیا

عورت کی آواز ماہواری کے مراحل میں مختلف ہو سکتی ہے

واضح رہے ووکل کورڈ ہمارے گلے سے آواز پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا نظام تنفس کا ایک حصہ ’لرنکس‘(larynx)

ہے جو دراصل وہ پائپ نما چیز ہے جو حلق کے ذریعے سے ہمارے پھیپھڑوں تک ہوا کو منتقل کرتا ہے۔ سانس لینے کے دوران جب ہوا لرنکس سے گزرتی ہے تو اس کی وجہ سے آواز پیدا ہوتی ہے۔

ووکل کورڈ کے تین اہم حصے ہوتے ہیں۔ ووکلس کے پھٹے، ووکل لیگامنٹ اور پھر انھیں ڈھانپنے کے لیے غدود پر مشتمل جھلی۔

اس جھلی کا کام سطح کو نم رکھنا اور انھیں نقصان سے بچانا ہے۔ آواز پیدا کرنے والی اس نالی میں تقریباً 17 دیگر عضلات بھی موجود ہوتے ہیں جو ووکل کورڈ کی پوزیشن اور تناؤ کو تبدیل کر سکتے ہیں اور اس طرح گلے سے نکلنے والی آواز کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

لڑکے اور لڑکیوں میں بلوغت کی عمر سے پہلے آواز میں بہت کم فرق ہوتا ہے لیکن بلوغت کے دوران ہارمونز اپنے اثرات مرتب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ عمل لرنکس کی ساخت کو تبدیل کرتا ہے جس سے مردوں کی آواز نسبتا بھاری ہو جاتی ہے۔ بلوغت کے بعد مردوں میں ووکل کورڈز کی لمبائی تقریباً 16 ملی میٹر اور خواتین میں 10 ملی میٹر ہوتی ہے۔ بلوغت کے بعد خواتین کے ووکل کورڈ 20 سے 30 فیصد پتلے ہوتے ہیں۔

اس چھوٹی اور پتلی نالی کی وجہ سے خواتین کی آواز مردوں کے مقابلے میں کم بھاری یا پتلی ہوتی ہے۔

بلوغت کے بعد بھی ہارمونز آواز کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عورت کی آواز اس کی ماہواری کے مراحل کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف ماہواری سے پہلے ہارمونل تبدیلیاں ووکل کورڈ کو سخت کر دیتی ہیں اس لیے اوپرا گلوکاروں کو 1960 کی دہائی میں گریس ڈیز (آرام کے دن) مہیا کیے جاتے تھے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی آواز کو نقصان نہ پہنچے۔

انیسویں صدی میں لکڑیوں پر ملنے والے بہت سے کندے یہ بتاتے ہیں کہ سائنسداں ایک عرصے سے انسانی آواز اور اس کے آلہ صوت سے بہت زیادہ متاثر رہے ہیں

آواز کی تبدیلی 30 برس کی عمر سے شروع ہو سکتی ہے

جسم کے تقریباً ہر دوسرے حصے کی طرح، آواز کی بھی ایک عمر ہوتی ہے لیکن یہ تبدیلیاں ہر کسی کے لیے قابل توجہ نہیں ہو سکتی ہیں۔

جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں، لرنکس اپنے معدنی مواد (منرل کانٹینٹ) کو بڑھانا شروع کر دیتا ہے جو اسے کارٹلیج سے زیادہ سخت کر کے ہڈی کی طرح بنا دیتا ہے۔

یہ تبدیلی ہمارے اندر 30 برس کی عمر سے شروع ہو سکتی ہے اور اس کا اثر خاص کر مردوں میں زیادہ ہوتا ہے، جس سے یہ آواز کی ہڈیوں کو کم لچکدار بناتا ہے۔

اسی دوران بہت سے لوگوں میں دوسرے عضلات کے طرح آواز پیدا کرنے میں معاون پٹھے بھی ضائع ہونے لگتے ہیں۔

پھیپھڑوں کے پٹھوں کے افعال میں بھی کمی آنے سے آواز پیدا کرنے کے لیے سینے سے خارج ہونے والی ہوا کی طاقت میں کمی آتی ہے اور اس سارے نظام کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت میں کمی کے ساتھ ساتھ حفاظتی بلغم پیدا کرنے والے غدود بھی کم ہونے لگتے ہیں۔

تمباکو نوشی اور الکوحل کا آواز پر اثر

اگرچہ زیادہ تر لوگوں میں ووکل کورڈ کی عمر بڑی حد تک یکساں ہوتی ہے تاہم ہمارا طرز زندگی ان کو پہنچنے والے نقصان کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے اور ہماری آواز کا انداز بدل سکتا ہے۔

مثال کے طور پر تمباکو نوشی سوزش کا سبب بنتی ہے اور اس سے ذیادہ مقدار میں بلغم بننے لگتا ہے لیکن اس سے حفاظتی جھلی بھی خشک ہو سکتی ہے، یہی اثر الکوحل کا بھی ہوتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ، یہ عوامل آواز پیدا کرنے والی کورڈ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس طرح ہماری آواز تبدیل ہو سکتی ہے۔

کچھ ادویات بھی ہماری آواز کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتی ہیں جیسے کہ سٹیرائیڈ ان ہیلر۔ خون کو پتلا کرنے والی ادویات بھی ہمارے گلے اور آواز کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور پولپس (جسم کے کسی حصے میں ٹشور کا بڑھنا) بننے کا سبب بن سکتے ہیں۔

گلے میں آوازکی نالی کے اطراف پولپس بننے سے آواز تیز یا کھردری ہو سکتی ہے۔ پٹھوں کو آرام دینے والی ادویات ( مسلز ریلیکسینٹ) بھی گلے میں جلن اور آواز کو تبدیل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

ان ادویات کی وجہ سے ہونے والی جلن اور تبدیلیاں عام طور پر استعمال بند کرنے کے بعد غائب ہو جاتی ہیں۔

اپنی آواز کا بہت زیادہ استعمال

ہمارا ایک اور طرز زندگی ہماری آواز پر اثر انداز ہو کر اس کو تبدیل کر سکتا ہے جو عام طور پر گلوکاروں اور دوسرے ایسے لوگوں میں دیکھا جاتا ہے جو کام کے دوران اپنی آواز کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

اس کی مثال ٹیچرز اور فٹنس انسٹرکٹربھی ہیں۔

کام کے دوران اپنی آواز کا بہت زیادہ استعمال ایک غیر معمولی حالت کا باعث بن سکتا ہے، جسے رینکے اویڈیما (Reinke’oedema) کہا جاتا ہے۔

یہ ڈس آرڈر تمباکو نوشی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس طبی صورتحال میں ورم کی وجہ سے آواز کی نالیوں میں موجود رطوبت پھول جاتی ہے، جس سے آواز کی پچ بدل جاتی ہے ۔

رینکے اویڈیما کے شدید ورم کی صورت میں رطوبت (سیال) کو نکالنے کے لیے سرجری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بہت سی صورتوں میں آرام کرنے اور صحت کے لیے پریشان کن چیزوں مثلاً سگریٹ نوشی اور الکوحل سے پرہیز کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق سپیچ اور لینگویج تھراپی بھی آواز کی تبدیلی کو دور کر سکتی ہے۔

اگرچہ آواز پیدا کرنے والی نالیوں میں عمر کے اثرات کے باعث ہونے والی تبدیلیوں کو روکا تو نہیں جا سکتا تاہم ہم مسلسل مشق کے ذریعے اپنی آواز کے معیار اور صلاحیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس کی مثال کے لیے ہم گلوکاروں کی آواز کی کوالٹی کو مد نظر رکھ سکتے ہیں، جن کی اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں آواز میں کم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور عمر کے اثرات ان کی آواز پر کم نمایاں ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں