تحریریں

پیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟

پیسے کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ ہزاروں سال سے ادائیگی کا یہ واحد طریقہ ہے اور دولت کی پیمائش کا بھی۔ اسی سے وہ نظام جڑا ہے جس کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
تاہم پیسے کی تاریخ اس کی تعریف کی طرح ہی متنازع ہے۔ فلسفی اور معاشی ماہرین اس پراسرار وقت کے بارے میں الگ الگ نظریے رکھتے ہیں جب پیسے کا نظام متعارف ہوا۔
تاہم ہزاروں سال قبل چاندی، مٹی کی چیزوں اور دیگر اشکال میں لین دین ہوا کرتا تھا حتی کہ ایک وقت آیا جب قدیم عراق میں دھاتی سکے پہلی بار متعارف کروائے گئے۔
اس کے کافی عرصہ بعد چین میں کاغذ کے نوٹ سامنے آئے جو اس لیے بنائے گئے کیوںکہ سکے اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ ان کو رکھنا ہی ایک مسئلہ تھا۔اور صرف 70 سال پہلے، ایک پہاڑی سلسلے میں موجود ہوٹل میں رات گئے ہونے والے خفیہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہرے رنگ کا کاغذ، ڈالر، دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی بن گیا۔
بی بی سی منڈو پیسے کے جنم اور ارتقا کی تاریخ بتا رہا ہے جو انسانیت کے سفر کو سمجھنے کا اہم جزو ہے

میسوپوٹامیا میں تجارتی لین دین
پیسے کا بطور کرنسی آغاز کب ہوا؟ چند ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سوال کا جواب پانچ ہزار سال قبل موجودہ عراق، میسوپوٹامیا، سے ملتا ہے جہاں جو اور چاندی کی تجارت ہوتی تھی۔
ان مصنوعات کی اپنی قدر تھی اور اسی لیے ان کو ایک پیمانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا جس سے دیگر اشیا کی قیمت طے کی جاتی تھی جیسا کہ غلام کی قیمت، قرض پر سود یا مزدوری کی اجرت۔
جان ٹیلر برطانوی میوزیم میں مشرق وسطی کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند مزدوروں کو چیزوں میں ادائیگی کی جاتی تھی جیسا کہ شراب یا فرنیچر۔
وہ کہتے ہیں کہ تاجر بھی ایسے ہی لین دین کرتے تھے جسے بارٹر نظام کہا جاتا ہے۔
’اب اس کو کرنسی یا پیسہ کہا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ بحث کا موضوع ہے۔‘

قرض اور سود
ولیم بی ہیفورڈ امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیسہ دراصل مالیاتی قدروقیمت طے کرنے کی کوشش ہے جبکہ کرنسی پیسے کی اصل شکل ہے۔
اگر ان کی بات کو مانا جائے تو چاندی اور جو بھی کرنسی کی ہی ایک شکل تھے اور شاید پیسے کی سب سے پرانی مثال بھی۔
پروفیسر ولیم نے عراق میں قدیم میسوپوٹامیا کے ان علاقوں میں کھدائی کی جہاں تجارت ہوا کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ لین دین کی بناد یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے کیا حاصل کر سکتا ہے اور اس کے بدلے مستقبل میں کیا دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ اور یہاں سے ہی جنم لیتا ہے قرض کا نظام۔
وہ کہتے ہیں کہ قدیم میسوپوٹامیا میں قرض کے شواہد ملے ہیں جن پر سود بھی ہوا کرتا تھا۔
ہمورابی کا ضابطہ واضح کرتا ہے کہ چاندی پر 20 فیصد سود جبکہ غلے پر 33 فیصد سود ہوا کرتا تھا۔
میسوپوٹامیا کی تاریخ میں زیادہ وقت تک چاندی کے ذریعے ہی اشیا کی قدر و قیمت طے کی جاتی تھی۔
پروفیسر ولیم کا کہنا ہے کہ ہم نے اکثر کھدائی کے دوران چاندی کے خزانے دریافت کیے جو چھپائے گئے تھے۔

میسوپوٹامیا کی مٹی کی تختیوں پر بحث

قدیم میسوپوٹامیا کی باقیات سے ایسی مٹی کی تختیاں ملیں ہیں جن پر قرض کی تفصیلات موجود ہیں۔

مورخ نیل فرگوسن کے مطابق ان میں سے چند کا حجم انسانی ہاتھ سے بھی چھوٹا ہے جن پر ادائیگی کے وعدے درج ہیں۔

چند میں لکھا گیا کہ جو کا قرض تختی کے مالک کو ادا کیا جائے گا۔ اس طرح کی روایت کا مطلب ہے کہ مٹی کی یہ تختی بھی پیسے کی ہی ایک قسم بن گئی تھی۔

ایکارٹ فراہم قدیم زبانوں کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم میسوپوٹامیا میں تاجر روایتی دھاتوں کی بجائے ایسے کرنسی کا استعمال کرتے تھے جس کا فرضی وجود ہوتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ طویل فاصلوں پر ہونے والی تجارت جس کے آثار چوبیس ہزار مٹی کی تختیوں کی شکل میں وسطی ترکی سے بھی ملے ہیں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت بھی جدید دور جیسے چیک کی کوئی شکل موجود تھی۔

’ادائیگی اسی شخص کو کی جاتی تھی جس کے پاس مٹی کی تختی موجود ہوتی تھی۔‘

تاہم ہر کوئی اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا۔

نکولس پوسٹ گیٹ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں ماہر آثار قدیمہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مٹی کی تختیاں صرف ادائیگی کا ریکارڈ رکھنے کے لیے تھیں۔  ’پیسے کی موجودہ شکل سے قریب ترین جو چیز ہم دیکھتے ہیں وہ چاندی اور جو تھی

پہلا باضابطہ سکہ

سرکاری طور پر کسی حکومت کی جانب سے سکے کا پہلا سراغ ترکی سے ملتا ہے جس پر اس وقت کی لیڈیا نامی سلطنت کے بادشاہ الئیٹس کی مہر ثبت ہے۔

یہ سکہ جو سونے اور چاندی سے بنا ہے ان سکوں سے پرانا ہے جو چین، انڈیا یا اس سے بھی قدیم تہذیبوں جیسا کہ مصر، ایرانی یا یونانی تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

سکے پائیدار تھے اور ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا آسان تھا۔

اپنی کامیابی کی وجہ سے سکے سیاسی اثر ورسوخ کا ذریعہ بھی بن گئے۔ ٹیکس اکھٹا کرنے سے لے کر فوج کے خرچ اٹھانے اور تجارت کرنے کے لیے سکے مفید ذریعہ بن گئے۔

سکوں کے ساتھ ساتھ پیسہ دیگر اشکال میں بھی موجود رہا۔

تنخواہ کا انگریزی زبان کا لفظ بھی لاطینی زبان کے لفظ سیلیریئم سے نکلا ہے۔ روم کی سلطنت سپاہیوں اور سرکاری افسران کو نمک میں ادائیگی کرتی تھی جو اس وقت ایک قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی جس سے خوراک محفوظ رکھنے کا کام لیا جاتا تھا۔

قدیم زمانے کے چند سکے نایاب بھی ہیں اور خوبصورت بھی جن سے اہم معلومات ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک چاندی کا سکہ ہے جو ایتھنز میں بنا اور اس یونانی دیوی ایتھینا کا نشان بنا ہوا ہے

کاغذی پیسہ

طویل عرصے تک چین میں تانبے یا کانسی کا سکہ بنیادی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس کے وسط میں ایک سوراخ ہوتا تھا تاکہ ایک سے زیادہ سکوں کو باندھ کر اکھٹا رکھا جا سکے۔

جیسے جیسے تجارت پھیلی، زیادہ سکوں کی مانگ بڑھی۔ ایک وقت تھا جب تانبہ نایاب ہو گیا لیکن اس سے بھی اہم نکتہ یہ تھا کہ حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ کرنسی کا کنٹرول تو انکے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔

یہ حکمران نہیں چاہتے تھے کہ ان کی قیمتی کرنسی کسی اور سرزمین میں ضائع ہو جائے۔ انھوں نے قانون بنا دیا کہ اب صرف لوہے کے سکے استعمال ہوں گے۔

لیکن یہ نئے سکے اتنے وزنی تھے کہ جب زیادہ بڑی رقم کی ادائیگی کرنا مقصود ہوتی یا پیسہ دور لے کر جانا ہوتا تو بیل گاڑی یا خچر اس وزن کو برداشت نہیں کر پاتے تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس مشکل کی وجہ سے تاجروں نے پہلی بار کاغذ کی کرنسی کا تجربہ شروع کیا۔

اس نتیجے میں جیاوزی نامی پہلی کاغذی کرنسی وجود میں آئی جو سلطنت سونگ نے جاری کی اور کرنسی کے نظام کو قابو میں کر لیا تاکہ تاجر اپنی کرنسی کا استعمال نہ کریں۔ یوں پہلے باقاعدہ سرکاری نوٹ کا آغاز ہوا۔

یہ اتنا ہی سرکاری تھا جتنا امریکی ڈالر 1792 میں تھا جب اسے ملک کی سرکاری کرنسی کے طور پر اپنایا گیا۔

جب خفیہ مذاکرات نے ڈالر کو دنیا کی طاقتور ترین کرنسی بنا دیا

دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر ہو رہی تھی کہ اتحادیوں کو یہ نظر آنا شروع ہوا کہ ان کی اپنی میعشت تباہ ہو چکی تھی۔ انھوں نے سوچنا شروع کیا کہ جب بحالی کا عمل شروع ہو گا تو بین الاقوامی تجارت کس کرنسی میں ہو گی۔

اس وقت 44 ممالک کے نمائندے 22 دن کے لیے امریکہ میں بریٹن وڈز قصبے کے ماوئنٹ واشنگٹن ہوٹل میں اکھٹے ہوئے۔

یہاں جنگ کے بعد عالمی میعشت اور تجارت کے مستقبل پر مزاکرات ہوئے۔

یورپی ممالک جنگ کے نیتجے میں تباہ حال تھے جب کہ امریکہ کے پاس دنیا میں سونے کے سب سے بڑے ذخائر تھے۔

ایڈ کونوے اپنی کتاب ’دی سمٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ بائیس دن تک شدید سیاسی لڑائی اور بحث ہوئی۔

اس دوران دو شخصیات میں دو بدو لڑائی بھی ہوئی جس میں برطانوی جان کینز ایک عالمی کرنسی کا تصور لیے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ کے ہیری ڈیکسٹر تھے۔

اس کانفرنس کے بعد طے ہوا کہ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنگ کے بعد معاشی مشکل کا سامنا کرتے ممالک کو امریکی ڈالر میں ہی قرض دیں گے۔

اس وقت کس نے سوچا ہو گا کہ ان مزاکرات کے نتیجے میں جدید بین الاقوامی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ قائم کیا جا رہا ہے جو آج تک قائم ہے

یہ بھی پڑھیں