تحریریں

سمارٹ واچ جو پارکنسنز کی علامات کی قبل از وقت پیش گوئی کر سکتی ہے

ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سمارٹ واچ پارکنسنز کے مرض کی علامات کی سات سال قبل تک پیش گوئی کر سکتی ہے۔

برطانیہ میں کارڈف یونیورسٹی کے ڈیمنشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً ایک لاکھ چار ہزار ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے جو سمارٹ واچ پہنتے ہیں۔

سنہ 2013 اور 2016 کے درمیان، ایک ہفتے تک ان کی نقل و حرکت کی رفتار کا پتہ لگا کر وہ پارکنسن کی علامات کے آغاز کی پیشین گوئی کرنے میں کامیاب رہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ان اعداد و شمار سے بیماری کی علامات کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔

محققین نے نیچر میڈیسن نامی جریدے میں کہا کہ یہ نتائج کتنے درست ہیں اس کی تصدیق کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے۔

پارکنسنز کی بیماری میں مبتلا افراد کو برسوں سے دماغی نقصان پہنچا ہے۔

پارکنسنز کی علامات میں جسمانی جھٹکے، سست حرکت، اور پٹھوں میں سختی اور کھچاؤ شامل ہیں۔

جب تک ہم پارکنسنز کی پہلی علامات کا پتہ لگا لیتے ہیں، ہمارے دماغ کے خلیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔

اس تحقیق کی قیادت کرنے والی سنتھیا سینڈر نے کہا کہ برطانیہ کی 30 فیصد آبادی سمارٹ واچ پہنتی ہے، اس لیے یہ پارکنسنز کی ابتدائی علامات کا پتہ لگانے کا ایک آسان طریقہ ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے اس تحقیق میں دکھایا ہے کہ ایک ہفتہ کا ڈیٹا پارکنسن کی علامات کا سات سال پہلے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان نتائج کے ساتھ، ہم پارکنسن کی علامات کا پتہ لگانے کے لیے ایک مفید ٹول تیار کر سکتے ہیں، جو مریضوں کو ابتدائی مرحلے میں ہی علاج کروانے میں مدد دے سکتا ہے۔

یہ مطالعہ برطانیہ کے بائیو بینک کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔ بائیو بینک میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کا تفصیلی طبی ڈیٹا موجود ہے۔

اس تحقیق میں شامل کیتھرین پیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ درست ہے اور پارکنسن کی علامات کو کمزوری اور بڑھاپے کے اثرات سے الگ کر سکتا ہے۔‘

’ہم نے اپنے ٹیسٹ کے طریقہ کار کا موازنہ اوسٹیو ارتھرائٹس سمیت دیگر اعصابی عوارض اور نقل و حرکت سے متعلق معذوری کے کئی حالات سے کیا۔‘

کیتھرین پیل کا کہنا ہے کہ ’پارکنسن کے مریضوں کے مطالعے کے نتائج دوسروں سے مختلف تھے۔‘

لیکن پارکنسن کی علامات ظاہر ہونے سے برسوں پہلے کیا لوگوں کو بتایا جائے کہ انھیں پارکنسنز ہے ’ہمیشہ انفرادی اور ذاتی انتخاب رہے گا۔‘

کیتھرین پیل کا کہنا ہے کہ ’یہ مطالعہ اہم ہے کیونکہ ہم پارکنسنز کی بیماری کے بڑھنے کو سست کرنے کے لیے نئے علاج تلاش کرنے کی امید کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں