تحریریں

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان کا سٹیٹس کیا ہے؟ ’عدالت نے عمران خان کو ریلیف تو دیا ہے لیکن صرف چند گھنٹوں کا‘

گذشتہ روز پاکستان کے سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی القادر ٹرسٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے گرفتاری کے طریقے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

مگر سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے کے بعد اِس وقت عمران خان کا سٹیٹس کیا ہے؟

عمران خان کا ججز گیٹ سے سپریم کورٹ میں داخل ہونا، دورانِ سماعت دیے گئے ریمارکس اور عدالتی فیصلہ۔۔۔ یعنی کل سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں کتنا غیرمعمولی ہے؟

اور سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے کے بعد اب نیب کے آٹھ روزہ ریمانڈ کی حیثیت کیا ہے؟ کیا نیب کیسز میں گرفتاری سے پہلے ضمانت ممکن ہے؟

بی بی سی ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے آئینی و قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔

’عدالت نے عمران خان کو ریلیف تو دیا ہے لیکن وہ صرف چند گھنٹوں کا ہے‘

آئینی ماہر شاہ خاور کے مطابق ’اس معاملے میں عدالت نے عمران خان کو ریلیف تو دیا ہے لیکن وہ صرف چند گھنٹوں کا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے بعد یہ ریلیف ختم ہو جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت عمران خان سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں اور عدالت عظمی نے اسلام آباد پولیس کو عمران خان کی سکیورٹی کی ذمہ داری دی ہے۔

شاہ خاور جو کہ خود بھی لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کسی ملزم کو ایسا ریلیف ملتے ہوئے نہیں دیکھا کہ ملزم کو رہا بھی کیا جائے اور ساتھ ساتھ حفاظتی تحویل میں بھی رکھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اس عدالتی ریلیف کے بعد عمران خان کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ نیب کی طرف سے جاری وارنٹ گرفتاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکتے ہیں اور عمومی طور پر ایسے معاملات کی سماعت ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ کرتا ہےاور ایسی درخواستوں پر ملزم کو ریلیف مل جاتا ہے اور ملزم کو متعقلہ عدالت سے رجوع کرنے کو کہا جاتا ہے۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ایگزیکیٹو کے پاس بہت سے اختیارات ہیں اور اگر اسلام آباد ہائی کورٹ انھیں ریلیف دے بھی دے تو احاطہ عدالت سے نکلنے کے بعد پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان کو کسی اور مقدمے میں گرفتار کرسکتے ہیں۔

احتساب عدالت کی طرف سے آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ کی قانونی حثیت کیا ہے؟

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ کی طرف سے جو آرڈر آف دی ڈے جاری کیا گیا ہے اس کے بعد احتساب عدالت کی طرف سے عمران خان کے اٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

انھوں نے کہا کہ اگر کل اسلام آباد ہائی کورٹ نیب کی طرف سے جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری پر عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کو منظور نہیں کرتی تو پھر اس صورت میں عمران خان کو گرفتار کرکے انھیں دوبارہ جسمانی ریمانڈ کے لیے متعقلہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ آرڈر آف دی ڈے میں سپریم کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس کا حوالہ دیا ہے جبکہ جس روز عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو یہ مقدمہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے تھا ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان تو اداروں کے خلاف توہین امیز الفاظ استعمال کرنے اور رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کو قتل کی دھمکیاں دینے کے مقدمے میں اپنی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کے لیے پیش ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کسی شخص کو ریلیف دے اور معاملہ ماتحت عدالتوں کو بھجوا دے تو ماتحت عدالتیں سپریم کورٹ کی طرف سے دیے جانے والے ریلیف کے خلاف نہیں جاتیں چاہے بےشک سپریم کورٹ اپنے حکمنامے میں لکھے کہ ماتحت عدالت اسی عدالتی ریلیف یا آبزوریشن سے متاثر نہیں ہوں گی۔

جب عمران خان کو سپریم کورٹ میں پیش کرنا تھا تو انھیں ججز گیٹ سے لایا گیا جبکہ کسی بھی ملزم کو ججز گیٹ سے لانے کی نظیر پہلے نہیں ملتی

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کو کیا سوالات درپیش ہوں گے؟

نیب کے سابق ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کو ُغیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے جو عمران خان کی طرف سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپنا مائنڈ پہلے ہی سے اپلائی کر چکے ہیں اور عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نیب حکام کی طرف سے یہ موقف بھی سامنے رکھا جاسکتا ہے کہ نیب حکام کو عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار ہے اور وہ عدالت ان کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

عدالتی سماعت میں کیا ہوا؟

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے پانچ چھ مرتبہ عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی گرفتاری کے بعد ملک میں جتنے ہنگامے اور توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کی مذمت کریں‘

شاہ خاور کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی وہ بھی غیر معمولی ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاورق نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا تھا۔

اس درخواست کی سماعت کے دوران جب عدالت نے عمران خان کو طلب کیا اور جونہی عمران خان چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں پیش ہوئے تو ان کی آمد پر کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد جن میں سے اکثریت وکلا کی تھی وہ عمران خان کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور عدالتی عملے نے عمران خان کو پہلی لائن میں اس کرسی پر بٹھایا جو کہ چیف جسٹس کے سامنے تھی۔

چیف جسٹس نے عمران خان کو دیکھ کر کہا کہ ’گڈ ٹو سی یو‘

 

یہ بھی پڑھیں