تحریریں

فرزند پنجاب اور پنجابی رابن ہُڈ کہلانے والے دُلا بھٹی جو سرحد کے دونوں جانب یکساں مقبول ہیں

آج کے دن سنہ 1589 کو دلا بھٹی کو 42 برس کی عمر میں بغاوت کی پاداش میں مغل بادشاہ اکبر کے دور میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دلا بھٹی کی قبر لاہور میں موجود ہے۔ ان کا اصل نام میاں محمد عبداللہ تھا جبکہ ان کی عرفیت دلا بھٹی تھی۔ انھیں پنجاب کا حقیقی فرزند بھی کہا جاتا ہے اور ہر سال ان کے مداح ان کی قبر پر جا کر پھول چڑھاتے ہیں اور ان کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔

دلا بھٹی سرحد کے دونوں جانب یکساں مقبول ہیں اور ان کی یاد میں لوہڑی تہوار بھی منایا جاتا ہے۔

ان کی برسی پر سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو سے قبل تھوڑا یہ جانتے ہیں کہ دلا بھٹی کی کہانی کیا ہے اور انھیں کس جرم کی پاداش میں پھانسی دی گئی۔انڈین پنجاب میں مشہور ان لوک گیتوں میں پاکستان کے شہر پنڈی بھٹیاں کے دلا بھٹی کا نام بار بار دہرایا جا رہا ہے۔

دلا بھٹی کی کہانی کیا ہے؟

پنجاب یونیورسٹی کے سابق پروفیسر زبیر احمد نے بی بی سی کو سنہ 2021 میں دلا بھٹی کی یاد میں منائے جانے والے لوہڑی تہوار کے موقع پر بتایا تھا کہ روایات کے مطابق دو ہندو لڑکیوں سندری اور مندری کو مغل بادشاہ اکبر کے لوگوں نے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی تو دلا بھٹی نے انھیں بچایا تھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں لڑکیاں بہنیں تھیں اور ایک پنڈت کی بیٹیاں تھیں۔ دلا بھٹی نے ان کی شادی کروائی اور پھر اس موقع پر شکر دی اور دلا نے بتایا کہ بیٹیوں کو ایسے رخصت کیا جاتا ہے۔

پروفیسر زبیر احمد کہتے ہیں کہ روایات یہ بھی ہیں کہ دُلا بھٹی کے والد کو بھی اکبر بادشاہ کے لوگوں نے گرفتار کیا تھا اور پھر ان کی والدہ لاہور میں اپنے بیٹے کی تلاش میں گئی تھیں۔

ان کے مطابق ’دُلے کی کہانی 18ویں صدی میں سکھوں کی مثلیں ہوتی تھیں جن سے یہ مشہور ہوئے۔ ان کا سکھوں اور ہندؤوں سے تعلق تھا۔ پھر پنجاب میں جب نہری نظام آیا تو پھر سے دُلے کی کہانی جاگی۔ دُلے کا نام ہمارے لوک گیتوں میں ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ دُلے کا نام بادشاہوں کی درج تاریخ میں تو نہیں تھا لیکن لوک داستان اور زبانی تاریخ میں ان کا نام ہے اور اس پر لکھا گیا ہے۔

پروفیسر زبیر کہتے ہیں کہ نجم حسین سید نے ایک ڈرامہ لکھا ‘تخت لاہور’۔ اب اس پر باقاعدہ کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ دُلا اب تاریخ میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔

پروفیسر زبیر کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ لاہور میں دریافت ہونے والی قبر ان کی ہے یا نہیں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن روایات میں ہے کہ دُلا بھٹی کو موچی گیٹ کے پاس پھانسی دی گئی اور ان کی قبر لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں ہے۔

لیکن ان کو پھانسی کیوں دی گئی؟

پروفیسر زبیر احمد کے مطابق پنڈی بھٹیاں کے دُلا بھٹی نے ٹیکس، آبیانہ ادا کرنے سے انکار کیا اور ان کو پھانسی دیے جانے کے وقت وہاں اپنے دور کے ایک معروف شاعر شاہ حسین بھی موجود تھے۔

دُلا بھٹی کے حوالے سے یہ شعر پڑھا جاتا ہے:

‘میں پورہاں دلی دے کنگرے

جب تک تخت لاہور ہے میں دُلا وچ بار’

(میں مینار کے کناروں کو ریزہ ریزہ کر دوں گا، جب تک تخت لاہور ہے مغل شاہی ہے میری لڑائی ہے۔

تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے رشید چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ دلا بھٹی سے متعلق جو واقعات سننے کو ملتے ہیں وہ زبانی ہیں۔ ان کے مطابق دلا بھٹی کا واقعہ سچ ہونے کا ثبوت مغلوں کے مسودوں میں ملتا ہے مگر ان میں دلا بھٹی کا مؤقف شامل نہیں ہے کہ انھوں نے یہ بغاوت آخر کیوں کی تھی۔

تاریخ اور داستانوں کا حوالہ دیتے ہوئے رشید چوہدری نے بتایا کہ کہ دلا بھٹی ہمایون کے دور سے خود ساندل بار کے ریونیو کلیکٹر تھے اور انھوں نے جب ریونیو جمع کرنے سے انکار کیا تو ان کے ساتھ خوشحال گڑھ کے خوشحال خان خٹک بھی شامل تھے۔

خیال رہے کہ بار وہ علاقہ ہوتا تھا جو مغلوں کے بندوبست میں شامل نہیں تھا۔ یعنی ایسا علاقہ باہر کا ہوتا تھا اسے بار کہا جاتا تھا۔ انھیں علاقہ غیر بھی کہا جاتا تھا اور یہاں زیادہ تر لوٹ مار کر کے ریونیو اکھٹا کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے باروں کو نہریں نکال کر باقاعدہ بندوبست میں شامل کیا تھا۔

رشید چوہدری کے مطابق اس حصے میں مغلوں کا وجود اس طرح نہیں تھا مگر دلا بھٹی جیسی تحریکوں کو کچلنے کے لیے اکبر خود 14 برس تک تخت لاہور پر آ کر بیٹھا اور پھر بالآخر دلا بھٹی کو گرفتار کر کے سرعام پھانسی دی۔ ان کے مطابق اس سر عام پھانسی کا احوال مغلوں کی تاریخ میں بھی دستیاب ہے کیونکہ اکبر کے نورتن خاصے پڑھے لکھے تھے اور اس وقت درباری تاریخ لکھنے کا رواج بھی عام تھا۔

رشید چوہدری کے مطابق لوہڑی کا واقعہ سے جڑی داستانوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ دلا بھٹی نے ایک ہندو لڑکی کی شادی زبردشتی رکوانے کی مغل دور کے ایک گورنر کی کوشش ناکام بنائی اور پھر خود اس لڑکی کی شادی یقینی بنائی، جس پر پنجابی میں گانے بھی مشہور ہیں۔

رشید چوہدری کے مطابق دلا بھٹی کا تو بہت عرصہ نام لینا بھی اتنا پسند نہیں کیا جاتا مگر پھر بعد میں ایسی پنجابی تحریکیں اٹھیں جنھیں یہ احساس ہوا کہ دلا بھٹی تو اصل میں فرزند پنجاب تھا جو اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے مغلوں کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔

لوہڑی کا تہوار کیا ہے؟

دلا بھٹی کے ہندو لڑکیوں کی شادی کروانے والے واقعے کو لوہڑی یعنی آفت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لوک داستانوں کے مطابق دلا بھٹی نے اس آفت کا رخ موڑ دیا تھا تو اس وجہ سے اب ان کی یاد میں پاکستان اور انڈیا میں لوہڑی کا تہوار بھی ہر سال 13 جنوری کو منایا جاتا ہے۔

‘سندر مندریے تیرا کون وچارا

دلا بھٹی والا

دُلے نے دھی ویاہی

سیر شکر پائی ۔۔۔۔’

(سندر مندریے تیرا مددگار کون ہے، وہ دلا بھٹی والا ہے، دُلے نے بیٹی بیاہی ہے، اس نے سیر شکر پائی ہے)

انڈین پنجاب کے مکین یہ لوک گیت جھوم جھوم کر گا رہے ہیں۔ ہر گھر میں آگ کے الاؤ روشن کیے جا رہے ہیں اور اس کے گرد دوست احباب موجود ہیں۔ گپ شپ کے ساتھ دہکتی آگ میں پھینکی جانے والی مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔

یہ جاتی سردیوں کو رخصت کرنے اور مل بیٹھنے کا ایک موقع ہے۔ لیکن ان لوک گیتوں میں پاکستان کے شہر پنڈی بھٹیاں کے دلا بھٹی کا نام بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے لوہڑی کا یہ تہوار دلا بھٹی کے نام کے بغیر ادھورا ہے۔

بی بی سی نے اس تہوار سے جڑے اس نام اور اس کی لوک داستان جاننے کے لیے سرحد کے دونوں جانب پنجاب کے مکینوں سے بات کی جس میں ہماری مدد اس تہوار کو انڈیا سے رپورٹ کرنے والے صحافی رویندر سنگھ رابن نے کی۔

امرتسر سے کچھ فاصلے پر چبہ نامی گاؤں کی ہرمند دیو بھی اس تہوار کو منا رہی ہیں۔ انھوں نے فون پر ہم سے بات کی اور بتایا کہ یہ ہمارا بہت اہم اور خاص تہوار ہے۔ دلا بھٹی ہمارے پنجاب کے ’روبن ہڈ‘ مانے جاتے ہیں اور اس تہوار میں لڑکیوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے جن کی مدد دلا بھٹی نے کی تھی۔

’ہم آگ جلاتے ہیں جیسے ہم پُوگی بولتے ہیں اس میں ہم مونگ پھلیاں، گڑ، تِل اور ریوڑیاں پھینکتے ہیں ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور خود بھی کھاتے ہیں۔‘

ہرمند کہتی ہیں کہ اس تہوار پر ہم ڈانس کرتے ہیں۔ اگر کسی کی شادی حال ہی میں ہوئی ہو یا کسی گھر میں بچہ پیدا ہوا ہو وہاں سب بطور خاص اکٹھے ہوتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔

لیکن یہ فقط دیہات میں ہی نہیں، انڈین پنجاب کے شہروں میں بھی اتنا ہی مقبول ہے۔

میں نے دلا بھٹی کے بارے میں کچھ مزید جاننے کی جستجو میں گرو نانک یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہریش شرما سے رابطہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ دراصل آج دیسی کیلینڈر میں موسمِ سرما کا آخری دن ہے۔ پوگ کا مہینہ ختم ہوا چاہتا ہے اور اب مگ شروع ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ موسم کے علاوہ اس تہوار کا 90 فیصد تعلق لوک داستان سے جڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ پنجاب سے نکل کر پورے شمالی انڈیا کا تہوار بن چکا ہے۔

ڈاکٹر ہریش کہتے ہیں کہ یہ تہوار ذات پات اور مذہب سے آگے ہے۔ محلے والے اکٹھے ہو کر آگ کا الاؤ روشن کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس تہوار پر کھانے پینے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ گوشت نہیں کھانا یا شراب نہیں پینی، سب ان پابندیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔

’فری ہو کر یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ بندش نہیں کہ کوئی ہندو ہے سکھ ہے یا مسلمان سب مناتے ہیں۔ دن میں ہم لوگ پتنگ اڑاتے ہیں اور شام ہوتے ہی گھر کے باہر الاؤ روشن کرتے ہیں۔‘

بی بی سی نے ان سے لوک گیت میں دلا بھٹی کے ذکر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہم اپنے بڑوں سے سنتے چلے آئے ہیں۔

’دلا بھٹی کے بارے میں لکھی ہوئی دستاویز تو نہیں ملتی لیکن جو لوک داستان ہے وہ یہاں سب کو معلوم ہے۔ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ ‘

پروفیسر ہریش نے روشن الاؤ کی لائیو ویڈیو دکھاتے ہوئے ہم سے رخصت چاہی۔

نامہ نگار رویندر سنگھ نے مجھے بتایا کہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دلا بھٹی کی قبر لاہور میں موجود ہے۔

پاکستان کے پنجاب میں کیا اب بھی اس تہوار کی یادیں باقی ہیں

یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق پروفیسر زبیر احمد سے رابطہ کیا۔ تو ان سے گفتگو کے آغاز سے پہلے ہی کچھ نعروں کی آوازیں سنائی دیں۔ ’لوہڑی زندہ باد‘

بی بی سی نے جب انھیں اپنے فون کرنے کا مقصد بتایا تو وہ کہنے لگے تقسیم سے پہلے تو یہ دونوں جانب کے پنجاب میں منایا جاتا تھا لیکن پھر یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ ہندوؤں کا تہوار ہے جو کہ غلط تاثر ہے۔

’سنہ 47 سے پہلے اسے دونوں جانب منایا جاتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں پاکستان میں اب کچھ سال پہلے ہی پنجابی لوگ اس تہوار کو منانا شروع ہوئے ہیں۔

’ابھی یہ لاہور کے دو مقامات پر منایا جا رہا ہے۔ پھر لائل پور میں بھی منایا جائے گا۔ ‘

سوشل میڈیا پر دلا بھٹی کی یاد

راجپوت نامی صارف نے لکھا کہ 26 مارچ کو فرزند پنجاب اور پنجاب کے رابن ہڈ کو مغل بادشاہ اکبر نے قتل کر دیا تھا۔ ان کے مطابق پنڈی بھٹیاں میں پیدا ہونے والے دلا بھٹی پنجاب کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے مطابق دلا بھٹی کے والد اور دادا کو بھی مغل بادشاہ اکبر نے قتل کیا تھا۔

ان کے مطابق دلا بھٹی نے اکبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور مسلح جدوجہد شروع کرتے ہوئے ٹیکس اور دینے سے انکار کیا اور اکبر کے نظام کو للکارا۔

صارف راجپوت کے مطابق دلا بھٹی نے ایک موقع پر اکبر کے بیٹے سلیم کو بھی گرفتار کر لیا تھا مگر پھر انھیں یہ کہہ کر آزار کر دیا کہ ان کی لڑائی اکبر سے ہے ان کے بیٹے سے نہیں۔ ان کے مطابق دلا بھٹی مغلوں کی اہم تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے اور ان کا جینا دوبھر کر دیا۔

ان کے مطابق دباؤ میں آ کر اکبر بادشاہ نے دباؤ میں آکر اپنا دارالخلافہ لاہور منتقل کر دیا تا کہ دلا بھٹی کے اثر کو کم کیا جا سکے۔

ان کے مطابق دلا بھٹی کے آخری الفاظ تھے کہ پنجاب کا کوئی قابل عزت فرزند کبھی پنجاب کی مٹی کا سودا نہیں کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں