سعودی عرب کے شہر مدینہ میں واقع مسجدِ نبوی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے اور اسے پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں ان کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت حاصل تھی۔
اسلامی روایات کے مطابق مسجد نبوی میں ادا کی گئی نماز کا ثواب مکہ میں خانہ کعبہ والی مسجد الحرام کے علاوہ کسی بھی دیگر مسجد میں ادا کی گئی نماز کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے۔
پیغمبرِ اسلام نے یہ مسجد مکہ سے اُس وقت یثرب کہلائے جانے والے شہر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد تعمیر کروائی اور مسجدِ قبا کے بعد مدینہ میں تعمیر کی جانے والی یہ دوسری مسجد تھی۔
اسلامی روایات کے مطابق اسی مسجد میں وہ مقام بھی واقع ہے جسے ’ریاض الجنہ‘ یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کہا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے منسوب ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اسلام نے کہا تھا کہ ‘میرے گھر اور مسجد نبوی کے منبر کے درمیان ایک جگہ جنت کے باغ کا ٹکڑا ہے۔
1400 برس سے زیادہ قدیم مسجد آج وسعت پاتے پاتے قدیم مدینہ شہر کی حدود سے باہر تک پھیل گئی ہے اور وہ سارا علاقہ جو اسلام کے ابتدائی دور کا شاہد ہے اب اس کا حصہ بن چکا ہے۔
اس علاقے میں اسلام کے ابتدائی دور کی ہزاروں نشانیاں موجود تھیں جیسے کہ روضۂ رسول جہاں دو صحابہ ابوبکر اور عمر بھی دفن ہیں، پیغمبر اسلام کی اہلیہ حضرت عائشہ کا حجرہ، پیغمبرِ اسلام کی دیگر بیویوں کے مکانات، گذشتہ صدیوں میں مسجد کو دی جانے والی وسعت کے نتیجے میں اب اس کے اندر آ گئے ہیں۔
1441 برس قبل یہ مسجد پیغمبر اسلام کے گھر سے متصل جگہ پر 632 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی اور آنے والی صدیوں میں کئی مرتبہ اس کو وسعت دی جاتی رہی۔
سلطان غالب القعیطی نے مسلمانوں کے مقدس شہروں، حج اور دنیائے اسلام کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 1909 میں جزیرہ نما عرب میں مسجد نبوی وہ واحد عمارت تھی جہاں روشنی کے لیے بجلی کا استعمال کیا جاتا تھا۔
سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیر کے دور میں اس کو وسیع کرنے کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جو اب بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ہر برس کروڑوں عقیدت مندوں کی منزل بننے والی اس مسجد میں ایک وقت میں 18 لاکھ افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گی۔
گنجائش
عصر حاضر کی اسلامی فکر کے ایک ماہنامہ رسالے میں مسجد نبوی کی تاریخ اور گنبد خضریٰ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں ظفر بنگش لکھتے ہیں کہ ابتدا میں مسجد نبوی کا رقبہ صرف 98 ضرب 115 فٹ تھا۔
تاہم آنے والے ادوار میں مسجد کو کئی مرتبہ وسعت دی گئی تاکہ دنیا بھر سے آنے والے لوگوں، خاص طور پر حجاج کرام کے لیے ایک وقت میں نماز ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جا سکے۔ خیال رہے کہ یہ مسجد مسلمانوں کے ان تین مقدس ترین مقامات میں ایک ہے جہاں ثواب حاصل کرنے کی غرض سے طویل سفر کی اجازت ہے۔
ڈاکٹر شفیق عمر نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں تحریر کیا ہے کہ اپنے ابتدائی رقبے کے لحاظ سے یہ مسجد اب سو گنا بڑی ہے اور تقریباً پورے قدیم شہر پر پھیلی ہوئی ہے۔
پروفیسر صاحب نے بیان کیا ہے کہ مسجد کی بیرونی دیوار اب جنت البقیع کے قبرستان سے مل گئی ہے جو پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں شہر کے مضافات میں تھا اور انھوں نے اس بارے میں ڈاکٹر محمد واجد اختر کی کتاب ‘نو حقائق جو آپ مسجدِ نبوی کے بارے میں نہیں جانتے’ کا حوالہ دیا ہے۔
مسجد کو وسعت دینے کا حالیہ منصوبہ جو شاہ عبداللہ نے 2012 شروع کروایا تھا پایہ تکمیل تک پہنچنے پر 18 لاکھ افراد کے لیے اس مسجد میں بیک وقت نماز ادا کرنے کی گنجائش فراہم کر دے گا۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ ابراھیم العساف کا کہنا ہے کہ مسجد کے مرکزی حصے کی عمارت چھ لاکھ 14 ہزار 800 مربع میٹر پر مشتمل ہو گی جبکہ مسجد اور اس کے صحنوں کا مجموعی رقبہ 10 لاکھ 20 ہزار 500 مربع میٹر پر محیط ہو گا جس کے بعد 10 لاکھ افراد مسجد کی مرکزی عمارت اور آٹھ لاکھ اس کے بیرونی صحن میں بیک وقت میں نماز ادا کر سکیں گے۔
عرب نیوز نے مسجد کے ترجمان شیخ عبدالواحد الحطاب کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ شاہ عبداللہ نے مسجد کے اندر خصوصی طور تیار کی گئی 250 چھتریاں لگانے کا حکم دیا تھا جو ایک لاکھ 34 ہزار مربع میٹر علاقے کو سایہ فراہم کریں گی۔ یہ خودکار چھتریاں دوہری تہہ والی ہوں گی تاکہ نمازیوں کو بارش اور صحرائے عرب کی چلچلاتی دھوپ سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے۔
مسجد کو وسعت دینے کے منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں دس لاکھ نمازیوں کی گنجائش فراہم کر دی جائے گی جبکہ پہلے مرحلے میں آٹھ لاکھ افراد کی جگہ بنائی جائے گی۔
مسجد کے گرد و نواح اور انتظام
جنت البقیع کا تاریخی قبرستان جو اب مسجد کی مغربی دیوار کے باہر ہے ان چند عمارتوں اور جگہوں میں شامل ہیں جو مسجد کے چاروں اطراف موجود ہیں۔ یہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے اہم ہے کیونکہ یہاں پیغمبرِ اسلام کی اہلیہ، بیٹی اور دیگر رشتہ داروں کی قبور ہیں۔
مسجد کے احاطے کے گرد جو دیگر عمارتیں اور جگہیں ہیں ان میں سعودی حکومت کے ادارے، ہسپتال، شاپنگ مال، پرتعیش ہوٹل اور بڑی شاہراہیں شامل ہیں۔
مدینہ کی مسجد نبوی اور مکہ کی مسجد الحرام دونوں کا انتظام ایک خصوصی ادارہ چلاتا ہے جبکہ مسجد کی نگرانی کی ذمہ داری سعودی شاہی خاندان کی ہے اور سعودی بادشاہ خود کو خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں۔
امامت
پیغمبرِ اسلام وہ پہلی شخصیت تھے جنھوں نے اس مسجد میں نماز کی امامت کی۔ ان کے وصال کے بعد ان کے ساتھی صحابہ یہ عمل سرانجام دیتے رہے۔
شیخ علی بن عبد الرحمان الحذيفي اس وقت مسجدِ نبوی کے مرکزی امام ہیں تاہم 11 اکتوبر 2019 کو سعودی حکومت نے مزید دو مستقل اماموں کی تعیناتی کی ہے جن میں موجودہ امام کے بیٹے شیخ احمد حذیفی کے علاوہ شیخ خالد المہانہ شامل ہیں۔
ان کے علاوہ دیگر امام بھی موجود ہیں جو خصوصاً تہجد کی نماز کی امامت کرتے ہیں۔
مؤذّن
المبارکپوری کے مطابق پیغمبر اسلام نے اپنے صحابی حضرت بلال بن رباح کو مسجدِ نبوی کا پہلا مؤذّن مقرر کیا تھا۔
روایت کے مطابق جب صحابی رسول عبداللہ بن زید نے پیغمبرِ اسلام کو اذان کے بارے میں اپنے خواب سے آگاہ کیا تو انھوں نے ان سے کہا وہ بلال کی تربیت کریں کیونکہ ان کی آواز بلند ہے اور وہ لوگوں کو نماز کے لیے بلاوا دیں گے۔
سعودی اخبار الریاض کے مطابق چیف مؤذّن شیخ عبدالرحمان خشوقجی کا کہنا ہے کہ آج کل مسجدِ نبوی میں مؤذّنوں کی تعداد 17 ہے جو روزانہ پانچ وقت اذان دیتے ہیں۔
ہر روز ان میں سے تین مؤذّن پانچ وقت مکبریہ سے اذان دیتے ہیں اور نماز کے دوران امام کی آواز نمازیوں تک واضح طور پر پہنچانے کے لیے دہراتے ہیں۔
ابتدا
المبارکپوری کے مطابق پیغمبر اسلام نے مدینہ پہنچنے پر یہ زمین دس دینار میں دو یتیموں ساحل اور سہیل سے خریدی تھی۔ اس سے قبل یہ زمین کھجوریں سکھانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
پیغمبرِ اسلام نے خود اس مسجد کی تعمیر میں شرکت کی تھی۔ تعمیر کے لیے پتھر کی بنیادوں کا استعمال کیا گیا اور مٹی کی دیواریں بنائی گئیں۔ کھجور کے درختوں کے تنے اور شاخیں چھت کے لیے استعمال کی گئیں۔
اس وقت مسجد کے تین دروازے تھے اور اس کا رخ مسجدِ الاقصیٰ کی جانب تھا جو کہ اس وقت کا قبلہ تھا۔ اس میں غریبوں اور مسافروں کو پناہ دینے کے لیے ایک سایہ دار حصہ بھی بنایا گیا تھا۔
بعد میں قبلے کا رخ تبدیل کر کے کعبے کی جانب کر دیا گیا تھا اور ایک دروازے کو بند کر کے دوسری سمت میں ایک اور دروازہ بنا دیا گیا تھا۔ .
جب صحابہ نے پیغمبرِ اسلام کو تجویز دی کہ چھت کو گارے سے پختہ کر دیا جائے، تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا: ’نہیں، یہ چھت عریشِ موسیٰ کی طرح رہے گی، موسیٰ کی چھپر نما چھت کی طرح۔‘ اس کے تین سال بعد تک فرش کو کسی چیز سے ڈھکا نہیں گیا تھا۔
مسجد کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مسجد کا ابتدائی رقبہ 1050 مربع میٹر تھا اور ہجرت کے سات سال بعد پیغمبرِ اسلام کی ہدایت پر اسے بڑھا کر 1425 مربع میٹر کر دیا گیا تھا۔
پیغمبرِ اسلام کے گھر
پیغمبرِ اسلام کا مکان مسجد کے بالکل ساتھ بنایا گیا اور وہاں ہی ان کا انتقال ہوا اور وہیں ان کی اہلیہ حضرت عائشہ کے حجرے میں انھیں سپرِ خاک کیا گیا۔
ڈاکٹر زریوا کہتے ہیں کہ جب پیغمبرِ اسلام کی وفات ہوئی اور ان کے ساتھی ان کی تدفین کے لیے بہترین مقام کا انتخاب کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر نے انھیں بتایا کہ پیغمبرِ اسلام کہہ چکے تھے کہ نبیوں کو وہیں دفنایا جاتا ہے جہاں اللہ ان کی روح نکالتا ہے۔
جب خلیفۂ اول بیمار ہوئے تو انھوں نے اپنی بیٹی سے اجازت مانگی کہ کیا وہ ان کے حجرے میں پیغمبرِ اسلام کے قریب دفن ہو سکتے ہیں جس پر حضرت عائشہ نے رضامندی ظاہر کر دی۔
خلیفۂ دوم عمر بن خطاب نے بھی ایسا ہی کیا اور انھیں بھی پیغمبرِ اسلام اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کے قریب دفن ہونے کی اجازت مل گئی۔
تاہم کئی صدیوں میں مسجد کے پھیلاؤ کی وجہ سے قبروں والا یہ حجرہ مسجد کے اندر آ گیا ہے۔ مسجدِ نبوی کا معروف سبز گنبد اس حجرے کے اوپر ہی بنایا گیا ہے
مسجد کی خوبصورتی
شاندار طرزِ تعمیر اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے بنائی گئی اس عمارت کی ہر چیز انتہائی خوبصورت ہے اور مبالغہ آرائی کے بغیر بھی کہیں تو یہ عمارت دور سے بھی بہت زیادہ دلکش ہے۔
اس مسجد میں اندر سے لے کر باہر تک اس کی ٹیکنالوجی، طرزِ تعمیر، اس کی مینجمنٹ، اس کے وسائل کے استعمال ہر طرح سے حسن چھلکتا ہے۔
اپنے احاطوں سے اس کے صحن تک اور دیدہ زیب زر و جواہرات سے مزین چھتوں تک، اس کے حجم اور اس کے بلندی سے لے کر اس کے گنبدوں اور میناروں تک، اس کے صحنوں اور اس کی چھتریوں سے لے کر اس کی چھت تک، اس کی روشنیوں اور ساؤنڈ سسٹم سے لے کر اس کی ٹھنڈک اور اس کی راحت تک، اس کی دیواروں اور اس کے فرش سے لے کر اس کے دروازوں اور سیڑھیوں تک، یہاں تک کہ اس کے ستونوں اور غالیچوں کی آرائش کو بھی الفاظ میں بیان کرنا ناانصافی ہوگی۔
اس مسجد کے ترجمان شیخ عبدالواحد الحطب کا کہنا ہے کہ اس کمپاؤنڈ میں 250 میناروں پر خودکار چھتریاں لگائی گئی ہیں تاکہ عبادت گزار شدید دھوپ اور بارش سے بچ سکیں۔ ان چھتریوں اپنے ہی پانی کی نکاسی کا نظام بنایا گیا ہے، اور ہر ایک 143 مربع میٹر جگہ پر سایہ کرتی ہے اور 800 عبادت گزاروں کو موسم کی سختیوں سے بچاتی ہے۔