کچھ عرصہ پہلے تک ٹوئٹر اورایلون مسک کا رشتہ ویسا ہی لگتا تھا جیسا یکطرفہ محبت میں ایک عاشق کا ہوتا ہے۔
ایلون مسک ٹوئٹر کو پسند کرتے ہیں، اس پلیٹ فارم پر ان کے آٹھ کروڑ تیس لاکھ فالوور ہیں اور وہ یہاں کافی سرگرم رہتے ہیں اور بعض اوقات متنازعہ ٹوئٹس بھی کرتے ہیں۔
امریکہ کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے ان پر ٹیسلا کے حوالے سے کسی بھی طرح کی ٹوئٹ کرنے پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ ان کی ایک ٹوئٹ کی وجہ سے ٹیسلا کے حصص میں 14 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
مسک نے ٹوئٹر پر ایک غوطہ خور کے بارے میں قابل اعتراض ریمارکس بھی دیے تھےجس کے بعد اس غوطہ خور نے ان پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا۔ تاہم مسک نے یہ مقدمہ جیت لیا تھا۔
اب واپس ٹوئٹر اور ایلون مسک کی بات کرتےہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اگر 16 سال پرانے کاروبار کے لیے 44 ارب ڈالر ادا کرنا جس نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ منافع اور ترقی نہیں کی ہے، اسکی مدد کرنے کے مترادف ہے اور ٹوئٹر کے شیئر ہولڈرز کو اس معاہدے سے اتفاق کرنا ہی چاہیے۔
مسک کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹوئٹر کی’غیر معمولی صلاحیت’ کو پوری طرح استعمال کیا جائے۔
وہ ٹوئٹر سے پیسہ کمانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، انکے پاس پہلے ہی بہت پیسہ ہے اور وہ مختلف قسم کی جائیدادوں کے مالک ہیں۔
ٹوئٹر نے کمپنی کو زبردستی قبضے سے بچانے کے لیے ‘زہر کی گولی’ کی حکمت عملی کا استعمال کیا جو کسی کو بھی کمپنی میں 15 فیصد سے زیادہ حصص خریدنے سے روکتی ہے۔ تاہم اب ٹوئٹر اور ایلون مسک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔
ایلون مسک ٹوئٹر کیوں خرید رہے ہیں
شاید ٹوئٹر کا بورڈ مسک کے اس اعلان سے ناخوش تھا کہ وہ ٹوئٹر پر زیادہ ‘اظہارِ رائے کی آزادی’ اور کم موڈریشن دیکھنا چاہتے ہیں۔
بہت سے ریپبلکن، جنہوں نے طویل عرصے سے محسوس کیا ہے کہ ٹوئٹر کی اعتدال پسندی کی پالیسیاں بائیں بازو کے خیالات کے اظہار کی آزادی کے حق میں ہیں وہ اس معاہدے اور مسک کی دلیل سے خوش ہیں۔
لیکن دنیا بھر کے ریگولیٹر سوشل نیٹ ورکس کی نکیل کسنے کی بات کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ان کے مواد کی زیادہ ذمہ داری لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر تشدد کو بھڑکانے والے مواد کے لیے، ریگولیٹر ایسی صورت حال میں پلیٹ فارمز پر بھاری جرمانے عائد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ذمہ داریاں بھی طے کی جا رہی ہیں۔
لیکن ہمیں اس کے مالی پہلو کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ٹوئٹر کا بنیادی کاروباری ماڈل اشتہارات پر مبنی ہے اور مسک اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ مسک کا دعویٰ ہے کہ سبسکرپشن ماڈل میں ان کی زیادہ دلچسپی ہے۔
ایسے ماحول میں جہاں تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم مفت ہیں، سبسکرپشن ماڈل کو بڑھانا تھوڑا مشکل لگتا ہے۔ ٹوئٹر صارفین فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا ڈیٹا ٹوئٹر کے لیے پیسہ کمانے کے لیے استعمال کیا جائے اور وہ اس کے لیے ادائیگی کرنے کو تیار ہیں لیکن یہ قدم ایک جوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
کرپٹو کرنسی میں مسک کی دلچسپی
کرپٹو کرنسیوں کے لیے ایلون مسک کی ترجیح کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کیا وہ بٹ کوائن جیسی غیر مستحکم، غیر محفوظ کرنسیوں میں ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے اس پلیٹ فارم کا استعمال کر سکتے ہیں؟
مسک، دنیا کے امیر ترین انسان ہیں ان کے کئی کاروبار ہیں جن کی کامیابیوں میں پے پیل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔ وہ بے باک ہیں جو ہر حد کو پار کرتے ہیں اور قواعد کو توڑنا پسند کرتا ہے۔
جنوری میں 9.2 فیصد حصص خریدنے کے بعد بھی انھوں نے ٹوئٹر کے بورڈ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ذمہ داری کا پابند نہیں ہونا چاہتے تھے۔
ان کے پاس وفادار پرستاروں کی ایک فوج ہے جو انھیں پسند کرتے ہیں۔
میں نے ایک بار اس حقیقت کے بارے میں ٹوئٹ کیا تھا کہ جس طرح سے ان کے فائننس کی ساخت ہے (انکے اثاثے زیادہ تر نقد آمدنی کے بجائے سٹاک پر مبنی ہیں اور ان کے پاس ٹھوس اثاثے نہیں ہیں) وہ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
اس ٹوئٹ پر مجھے جواب ملا کہ ایسی بات لکھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ وہ بہت ذہین انسان ہیں اور مجھے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
مسک اور ٹوئٹر کے درمیان یہ ایک جارحانہ کاروباری معاہدہ ہے، جس میں نہ تو کوئی مول بھاؤ کیا گیا اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ ہوا۔
یہ ایک پرائیویٹ کمپنی کی پرائیویٹ فروخت ہے۔ یہ دو بڑی کمپنیوں کا انضمام نہیں ہے ایسے میں ریگولیٹر کی جانب سے آنے والی رکاوٹیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
30 کروڑ صارفین کے لیے ایلون مسک کا ٹوئٹر موجودہ ٹوئٹر سے بہت مختلف ہوگا۔ پہلے سے زیادہ جارحانہ اور شاید لبرل کی طرف اس کا جھکاؤ کم ہوگا۔