حال ہی میں انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش کے ایک پرائیویٹ کالج کی 26 لڑکیوں کو قے، سردرد اور چکر آنے کی شکایت کے بعد ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ یہ کالج اننت پورم ضلع کے بکرایاسمدرم میں واقع ہے۔
ان طالبات نے بیمار ہونے سے ایک رات پہلے کالج کے ہاسٹل میں کھانا کھایا تھا جس کے بعد انھیں فوڈ پوائزننگ ہو گئی۔
اس سے قبل آندھرا پردیش کے سریکاکولم ضلع کے ٹیکلی میں بھی 29 طالبات کو فوڈ پوائزننگ کی شکایت پر ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔ یہ تمام لڑکیاں پسماندہ طبقے کی لڑکیوں کے ہاسٹل میں رہ رہی تھیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں اوسطاً 16 لاکھ افراد ہر سال فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو جاتے ہیں یا آلودہ کھانا کھانے کے بعد بیمار ہو جاتے ہیں۔
جبکہ دنیا بھر میں اوسطاً ہر روز 340 بچے آلودہ کھانا کھانے سے مر جاتے ہیں۔
آئیے ہماری خوراک کا حصہ ان چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں جو فوڈ پوائزننگ کا سبب بن سکتی ہیں اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے ۔
یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق روز مرہ خوراک کے کچھ اجزا ایسے ہیں جو فوڈ پوائزننگ کی وجہ بن سکتے ہیں:
کچا گوشت
جب کوئی فرد کم پکا ہوا یا کچا گوشت کھاتا ہے تو اس کے فوڈ پوائزننگ کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں کیمپائلوبیکٹر نامی جراثیم (بیکٹیریا) پائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اور بیکٹیریا بھی ہیں کچے یا کم پکے ہوئے گوشت میں بھی پائے جاتے ہیں اسی لیے، سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن تجویز کرتا ہے کہ کچے گوشت کو دھونے میں احتیاط کریں یا نہ دھوئیں۔
سی ڈی سی کے مطابق ’کچے گوشت کو دھونے سے اس میں موجود بیکٹیریا قریبی برتنوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ پورے باورچی خانے کو متاثر کر سکتا ہے۔‘
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اگر گوشت کو صحیح طریقے سے پکایا جائے تو اس کے بیکٹیریا ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سی ڈی سی تجویز کرتا ہے کہ اگر کھانے کے بعد کھانا باقی رہ جائے تو اسے دو گھنٹے کے اندر فریج میں رکھنا چاہیے۔
سی ڈی سی کے مطابق اگر گوشت کو فریج میں رکھنا ہے تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہیے۔ اس سے یہ جلد ٹھنڈا ہو جائے گا اور اس کے بیکٹیریا کی افزائش کی رفتار کم ہو جائے گی۔
خوراک کی ماہر ڈاکٹر پرتیبھا لکشمی کہتی ہیں، ’کچا یا کم پکا ہوا گوشت کھانے سے سیسٹیرکوسیس جیسی بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ صرف پکا ہوا گوشت کھانا چاہیے‘۔
دوسری جانب گوشت سے بنے فاسٹ فوڈ کو بغیر پکائے کھانے سے فوڈ پوائزننگ کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر آر ایس بی نائیڈو کہتے ہیں،’جو کباب اور تکّے آپ ریستورانوں میں دیکھتے ہیں اور سڑک کے کنارے فروخت ہوتے ہیں، وہ ٹھیک سے نہیں پکے ہوتے ہیں۔ یہ گوشت اس طرح نہیں پکایا جاتا کہ اس کے اندر کے تمام جراثیم مر جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام غذائیں اکثر فوڈ پوائزننگ کا سبب بن جاتی ہیں۔
ایسی سبزیاں جو دھلی ہوئی نہیں ہوتیں
تازہ ہری سبزیاں کھانے کے بہت سے فوائد ہیں۔ تاہم بعض اوقات یہ سبزیاں کئی بیماریوں اور انفیکشن کا سبب بن جاتی ہیں۔
کچی سبزیوں میں بیکٹیریا جیسے ای کولی، سالمونیلا اور لسٹیریا شامل ہو سکتے ہیں۔ کچی سبزیاں جہاں کھیت سے کچن تک پہنچتی ہیں، وہیں ان میں ہر جگہ بیکٹیریا کے انفیکشن ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
کئی بار کچن کی گندگی سے ہری سبزیاں بھی متاثر ہو جاتی ہیں، اسی لیے کچی ہری سبزیوں کو اچھی طرح دھو کر ہی کھانا چاہیے۔
ڈاکٹر پرتیبھا لکشمی کہتی ہیں، ’یہ بھی بہت اہم ہے کہ آپ جو سبزیاں کھاتے ہیں وہ کہاں اگائی جاتی ہیں؟‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آج کل سبزیوں کی کاشت انتہائی غیر محفوظ ماحول میں کی جاتی ہے۔ ان پر کئی
قسم کی کیڑے مار دوائیں چھڑکی جاتی ہیں۔ اس لیے سبزیوں اور پھلوں کو نمکین پانی میں اچھی طرح دھو کر ہی استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری صورت میں ان سے الرجی یا انفیکشن کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔‘
ڈاکٹر آر ایس بی نائیڈو بھی ڈاکٹر پرتیبھا سے متفق ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں بنیادی طور پر صفائی کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ ہم اکثر یہ خبریں سنتے ہیں کہ پانی پوری یا گول گپّے کھانے کے بعد لوگوں کو فوڈ پوائزننگ ہو گئی اور انھیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ صفائی کا فقدان ہے۔
’یا تو یہ تمام دکاندار اپنی سبزیوں کو ٹھیک سے صاف نہیں کرتے۔ یا پھر وہ جگہ جہاں وہ پکاتے ہیں صاف نہیں ہے۔‘
’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پانی پوری یا چاٹ بیچنے والا اپنی صفائی کا خیال نہیں رکھتا، اس سے بھی انفیکشن پھیلتا ہے۔‘
کچا دودھ اور دودھ کی مصنوعات
نان پاسچرائزڈ یا ایسا دودھ جس سے جراثیم کا خاتمہ نہ کیا گیا ہو اور اس سے بنی مصنوعات سے فوڈ پوائزننگ کا خطرہ بھی ہے۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ای کولی، سالمونیلا ، لسٹیریا، کیمپائلوبیکٹر اور کرپٹو سپورڈیم جیسے بیکٹیریا کچے دودھ میں موجود ہو سکتے ہیں۔
ایسے دودھ سے بنی آئس کریم اور دہی بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دودھ کو پاسچرائز کرنے یا ابالنے سے اس میں موجود بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں۔ دودھ کو گرم کرنے سے اس کے غذائی عناصر میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ڈاکٹر پرتیبھا لکشمی کا کہنا ہے کہ کچا دودھ پینے سے آنتوں کی ٹی بی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ دودھ کچا پینا چاہیے۔ وہ اس کے لیے بچوں کے ماں کا دودھ پینے کی مثال دیتے ہیں۔‘
’تاہم ماں کے دودھ اور جانور کے دودھ میں فرق ہے۔ گائے یا بھینس کا دودھ دینے والے نے صفائی کا کتنا خیال رکھا۔ کیا اس نے اپنے ہاتھ صابن سے دھوئے یا نہیں؟ کس برتن میں دودھ پیا؟ دودھ پینے کے بعد دودھ کہاں رکھا گیا؟ یہ چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں، اسی لیے دودھ کو گرم کرکے ہی پینا بہتر ہے۔‘
کچے انڈے
کچے انڈوں میں سالمونیلا بیکٹیریا ہوتا ہے۔ یہ بیکٹیریا انڈے میں اس وقت بھی موجود ہو سکتے ہیں جب یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہو اور اس کے خول میں کوئی شگاف نہ ہو۔
اسی لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ صرف پاسچرائزڈ یا ابلے ہوئے انڈے ہی استعمال کیے جائیں۔ سی ڈی سی تجویز کرتی ہے کہ انڈوں کو اس وقت تک ابالنا چاہیے جب تک کہ سفید اور زردی دونوں سیٹ نہ ہوجائیں۔
سی ڈی سی کا مشورہ ہے کہ انڈوں کو فریج میں رکھتے وقت ریفریجریٹر کا درجہ حرارت انڈوں کے حساب سے سیٹ کیا جائے۔
جہاں تک ممکن ہو صرف تازہ انڈے ہی استعمال کریں۔
ڈائیٹشین نیتا دلیپ کہتی ہیں، ’کئی بار انڈے زیادہ دیر تک رکھنے کے بعد ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسے انڈے کھانے سے کئی قسم کے انفیکشن ہو سکتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ انڈے خریدتے وقت ان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو صرف تازہ انڈے ہی استعمال کیے جائیں۔‘
کچی مچھلی
کچی مچھلی میں بیکٹیریا کے ساتھ کئی قسم کے وائرس بھی ہوتے ہیں۔ اسی لیے مچھلی کو کچا کھایا جائے تو کئی طرح کی بیماریاں لگنے یا کئی بار اموات کا اندیشہ رہتا ہے۔
اسی لیے سی ڈی سی کا مشورہ ہے کہ مچھلی کو اچھی طرح دھو کر پکانے کے بعد کھایا جائے۔
اسی طرح جھینگے کے بارے میں سی ڈی سی کا مشورہ ہے کہ ’آلودہ پانی میں اگائے جانے والے جھینگے میں نورو وائرس ہو سکتا ہے۔ اس لیے انھیں اچھی طرح دھو کر پکانا چاہیے جب تک کہ ان کی کچی بو دور نہ ہو جائے۔‘
اسی طرح ڈاکٹر پرتیبھا لکشمی کہتی ہیں کہ ’مچھلی خریدتے وقت لوگوں کو ہمیشہ بیچنے والے سے چیک کرنا چاہیے کہ وہ کہاں سے پکڑی گئی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں، ’آج کل مچھلیوں کو آلودہ اور گندے ماحول میں پالا جاتا ہے۔ ایسی مچھلی کھانے سے کئی قسم کے انفیکشن ہو سکتے ہیں۔‘
’کچی مچھلی کبھی نہیں کھانی چاہیے۔ یہی بات مچھلی سے بنی دوائیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔مچھلیوں کو کیسے پالا جاتا ہے؟ پکڑنے والے ان کی صفائی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
پھوٹا ہوا اناج
پھوٹے ہوئے یا ایسے اناج جن میں اگنے کا عمل شروع ہو چکا ہو اگرچہ آپ کی صحت کے لیے بہت اچھے ہیں۔ وہ ہلکی گرمی اور نمی میں تیار ہوتے ہیں۔ تاہم ایسے ماحول میں بیکٹیریا بھی بہت تیزی سے بڑھتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات سپراؤٹس میں سالمونیلا جیسے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر پرتیبھا لکشمی کہتی ہیں کہ سپراؤٹس کے معاملے میں ہمیں ان باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے: مثال کے طور پر، سپراؤٹس کب سے رکھے گئے؟ وہ کب تک کھلی فضا میں تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سپراؤٹس کو زیادہ دیر تک پانی میں بھگو کر نہیں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح انھیں زیادہ دیر تک بند جگہوں پر نہیں رکھنا چاہیے۔ وہ جگہ جہاں ہوا کی نقل و حرکت اچھی ہو وہاں سپراؤٹس میں بیکٹیریا کے بڑھنے کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔
گُندھا ہوا باسی آٹا
گندم کا آٹا ہو یا کوئی اور قسم، اسے گوندھ کر رکھنے سے کئی قسم کے بیکٹیریا جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا، سی ڈی سی تجویز کرتی ہے کہ فوری طور پر کچا گندم کا آٹا استعمال کر لیا جائے۔
اسے کبھی بھی گوندھ کر اگلے دن استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ڈائیٹشین نیتا دلیپ کہتی ہیں کہ ’آٹے کو جتنا تازہ گوندھا جائے گا، یہ اتنا ہی صحت بخش ہوگا۔ سبزیاں ہوں یا آٹا، انھیں زیادہ دیر تک کچن میں نہیں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بیکٹیریا بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
’اسی لیے ذخیرہ شدہ آٹے سے انفیکشن پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‘
اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بیکٹیریا یا فوڈ پوائزننگ کے خوف سے صفائی کا خیال کسی جنون کی طرح سر پر نہ سوار ہو جائے۔
ڈاکٹر پرتیبھا لکشمی کہتی ہیں کہ ’بیکٹیریا ہمارے لیے ہمیشہ بُرے نہیں ہوتے۔ یہ ہماری قوت مدافعت یعنی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ ہمارے پیٹ میں بہت سے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں بہت سے مہلک انفیکشنز سے بچاتے ہیں۔