اگر آپ لسبیلہ سے گوادر کی جانب سفر کرِیں تو آپ کو ساحلی شاہراہ کے دونوں جانب ایسے پہاڑ دکھائی دیں گے جو پہلی نظر میں کسی ماہر فنکار کے ہاتھوں تراشے ہوئے مجمسے لگتے ہیں۔
لیکن ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ شاہکار قدرت کے ہاتھوں تخلیق ہوئے جس کی وجہ سمندری کٹاؤ اور چند دیگر قدرتی وجوہات ہیں۔
انھی عجوبوں میں ’پرنسس آف ہوپ‘ (یعنی امید کی شہزادی) نامی ایک مجسمہ بھی ہے جو دیکھنے میں کسی خاتون سے مشابہت رکھتا ہے۔
پرنسس آف ہوپ ضلع لسبیلہ کے ساحلی علاقے میں صدیوں سے موجود ہے لیکن اسے عالمی سطح پر اس وقت شہرت ملی جب ہالی وڈ کی ایک معروف اداکارہ نے اس علاقے کا دورہ کیا۔
سرکاری حکام کے مطابق انھوں نے ہی اسے ’پرنسس آف ہوپ‘ کا نام دیا۔
تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پرنسس آف ہوپ انہدام کے خطرے سے دوچار ہے۔
ان خدشات کے پیش نظر محکمہ آثار قدیمہ نے حکومت بلوچستان کو پرنسس آف ہوپ سمیت ایسے دیگر مجسموں اور ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کی تجویز پیش کی ہے۔
ضلع لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر مراد کاسی نے بی بی سی کو بتایا کہ پرنسس آف ہوپ کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی شامل ہے۔
پرنسس آف ہوپ یا اس نوعیت کے دیگرمجسموں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل اس کا محل وقوع جانتے ہیں۔
پرنسس آف ہوپ کہاں واقع ہے؟
کوئٹہ کے جنوب میں اندازاً سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پرنسس آف ہوپ کراچی کے قریب بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ہے۔
کراچی سے اس مقام تر رسائی نسبتاً آسان ہے کیوںکہ یہاں سے اس کا فاصلہ ڈیڑھ سے پونے دو سو کلومیٹر کے درمیان ہے۔
ہنگول نیشنل پارک کے پہاڑی سلسلے میں یہ اپنی نوعیت کا واحد مجسمہ نہیں ہے بلکہ یہاں انسانوں کو حیران کر دینے والے اس طرح کے متعدد دیگر سٹرکچرز بھی ہیں۔
یونیورسٹی آف بلوچستان میں شعبہ آثار قدیمہ کے لیکچرر عمران شبیر بلوچ نے بتایا کہ ’آپ ان کو عجیب و غریب عجوبے کہہ سکتے ہیں کیونکہ اگر آپ ان کو دیکھیں تو آپ ضرور حیران ہوں گے کہ یہ کسی انسانی کاوش کے بغیر کس طرح مختلف اشکال اختیار کر گئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ دراصل قدرتی طور پر مٹی سے بننے والے مڈ فارمیشن (Mud Formation) ہیں جو آپ کو بزی ٹاپ سے لے کر گوادر میں ایرانی سرحد کے قریب جیونی تک ملیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں مصر کے اسفنکس سے مشہابت رکھنے والا ایک مجسمہ بھی شامل ہے جس کا سر انسان اور دھڑ شیر جیسا ہے۔
پرنسس آف ہوپ کو یہ نام کس معروف اداکارہ نے دیا؟
عمران شبیر بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے ساحل پر واقع یہ سٹرکچر اور مڈ فارمیشنز صدیوں سے موجود ہیں لیکن خاتون سے مشابہہ مجسمے کو اس وقت بین الاقوامی سطح پر شہرت ملی جب ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے اس علاقے کا دورہ کیا۔
محکمہ آثار قدیمہ بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے بتایا کہ سنہ 2002 میں انجلینا جولی نے اقوام متحدہ کے خیرسگالی سفیر کے طور پر اس علاقے کا دورہ کیا تھا اور انھوں نے ہی اسے پرنسس آف ہوپ کا نام دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انجلینا جولی کے دورے کے بعد یہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
عمران شبیر بلوچ نے بتایا کہ آثار قدیمہ کے حوالے سے ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہر آثار قدیمہ جورج ڈیلز نے 1960ء میں اس علاقے کا دورہ کیا تھا جبکہ اسی طرح فرانسیسی ماہرین کی ٹیم نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا لیکن ان کو یہاں ایسے آثار نہیں ملے جن کی بنا پر ان کی تعمیر کو انسانوں سے جوڑا جا سکے۔
تاہم جمیل بلوچ نے بتایا کہ ان سٹرکچرز کے حوالے سے بعض دلچسپ نظریے اور آرا ضرور موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ ماہرین کی رائے میں یہ ہندوؤں کے مندر ہیں کیونکہ ان کا ایک اہم اور بڑ امذہبی مقام ہنگلاج ماتا انھی کے قریب ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یونانی سکالرز میں سے بعض ان کو یونانی دیوتائوں کے تصورکے طور پر لیتے ہیں۔ تاہم ماہرین کی اکثریت کی رائے میں یہ ڈھانچے سمندری کٹاؤ سمیت قدرتی عمل کے نتیجے میں بنے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اب ان کو آثار قدیمہ کے قوانین کے تحت ناصرف تحفظ حاصل ہے بلکہ ان کو نقصان پہنچانے کی صورت میں سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘
ان ڈھانچوں کو کیا خطرات ہیں؟
جمیل بلوچ کے مطابق ان سٹرکچرز کو اس وقت دو قسم کے بڑے خطرات لاحق ہیں۔
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بعض ایسی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں پرنسس آف ہوپ کے قریب لوگ موجود تھے۔
بعض لوگوں نے کہا کہ ’پرنسس آف ہوپ اب چند دنوں کی مہمان ہے‘ جبکہ بعض نے یہ بھی لکھ دیا کہ ’الوداع پرنسس آف ہوپ الوداع۔‘
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے بتایا کہ ’ایک خطرہ انسانوں سے ہے جبکہ دوسرا بارش اور موسمی حالات سے۔‘
ان کا کہنا تھا ’اب سیاحوں کا یہاں آنے کا رحجان زیادہ ہو گیا ہے جو کہ اچھی بات ہے لیکن لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ چیز کتنی حساس اور نازک ہے وہ تصویریں اور ویڈیوز بنانے کے لیے سٹرکچرز پر چڑھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ یہ ہے تو ایک پتھریلا سٹریکچر لیکن اس کے درمیان مٹی ہے اور جب لوگ ان پر تصاویر اور ویڈیوز بنوانے کے لیے چڑھتے ہیں توان کے گرنے یا متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا انسانوں کے علاوہ قدرتی طور پر بڑا خطرہ بارشوں سے ہےکیونکہ ’بارشوں سے ان کے کٹاؤ کا خدشہ ہے اور اس سے ان کے گرنے کے ساتھ ساتھ سٹرکچر میں تبدیلی کا بھی خدشہ ہے۔‘
ان ڈھانچوں کا تحفظ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
جمیل بلوچ نے کہا کہ انھوں نے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے حکومت کو جو منصوبہ بھیجا ہے اس کا مقصد انسانوں اور قدرتی دونوں خطرات سے بچانا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایک تو لوگوں کو شعور دلانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کو نقصان نہیں پہنچائیں جس کے لیے پرنسس آف ہوپ سمیت دیگر مقامات میں سے ہر ایک پر پانچ سے چھ سائن بورڈ لگانے کی ضرورت ہے۔‘
’ان سائن بورڈز پر یہ تحریر ہو کہ یہ آثارقدیمہ ہیں اس لیے ان کو نقصان نہیں پہنچایا جائے۔ اور ان کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس حوالے سے جو سزائیں ہیں وہ بھی ان سائن بورڈز پر تحریر ہوں۔‘
’اس کے ساتھ ان کے گرد خاردار تار یا اس طرح کے سٹرکچر بھی ہوں تاکہ لوگ ان کے قریب نہ جا سکیں بلکہ وہ ایک فاصلے پر رہیں۔‘
’اس کے علاوہ ان کو بارشوں سے بچانے کے لیے فائبر گلاس لگائے جائیں اور یہ ماحول کے مطابق ہوں کیونکہ لوہے یا کنکریٹ کا کوئی سٹرکچر اس علاقے میں دیرپا ثابت نہیں ہو سکے گا۔‘
انھوں نے گوادر کے علاقے جیونی میں جنگ عظیم اوّل کے وقت انگریزوں کے بنائے گئے ایئرپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ سمندر کے ساتھ ہے لیکن اس کو اس طرح بنایا گیا ہے وہ آج تک محفوظ ہے۔‘
’اس کو جاکر دیکھیں۔ اس کا جو رن وے ہے اور اس پر جو ٹاور بنائے گئے ہیں وہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان کو کچھ نہیں ہوا۔‘
جمیل بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت کو سٹاف کی فراہمی کے لیے بھی کہا ہے جن میں تین چوکیدار اور ایک ٹورسٹ گائیڈ شامل ہو گا۔‘
اب تک پرنسس آف ہوپ کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
پرنسس آف ہوپ کے تحفظ کے لیے اب تک ہونے والے اقدامات کے سلسلے میں جب ضلع لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر مراد کاسی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے ساحلی علاقوں کا قدرتی حسن لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں اور سیاح بڑی تعداد میں آ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پرنسس آف ہوپ کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا ان کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے تحفظ کے لیے چند فوری اقدامات کیے گئے ہیں۔ جن میں پرنسس آف ہوپ کے سو میٹر کے علاقے میں لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی جس کے باعث وہ اب اس کے قریب نہیں جا سکیں گے۔‘
’اس کے علاوہ یہاں پر پولیس کی نفری بھی تعینات کی گئی ہے تاکہ کسی کو تصویر یا ویڈیو بنوانے کے لیے زیادہ قریب نہ جانے دیا جائے۔‘