انڈیا کی ریاست مہاراشٹر نے دورِ جدید کی دو لتوں ٹی وی اور انٹرنیٹ سے روزانہ ڈیڑھ گھنٹے کی ’آزادی‘ کا اعلان کر دیا ہے۔
ضلع سانگلی کے دیہہ وڈگاؤں میں روز شام سات بجے ایک سائرن بجتا ہے جو رہائشیوں کے لیے اشارہ ہوتا ہے کہ وہ ٹی وی اور موبائل فون بند کر دیں۔
لت پیدا کرنے والے ان آلات کو دیہی کونسل کے ساڑھے آٹھ بجے بجنے والے سائرن پر دوبارہ آن کیا جا سکتا ہے۔
دیہی کونسل کے سربراہ وجے موہیتے نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’ہم نے انڈیا کے یومِ آزادی کے موقع پر فیصلہ کیا کہ ہمیں اس لت کو روکنا ہے۔ اگلے دن سے سائرن بجنے پر تمام ٹی وی اور موبائل فون بند کیے جانے لگے۔‘
وڈگاؤں کی آبادی تقریباً تین ہزار ہے اور یہاں زیادہ تر لوگ یا تو زراعت سے منسلک ہیں یا شوگر ملوں میں کام کرتے ہیں۔
وجے نے بتایا کہ بچے کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران آن لائن کلاسز لیتے تھے جس کے بعد وہ ٹی وی اور موبائل فونز کے عادی ہو گئے۔
رواں سال تعلیمی ادارے دوبارہ کھلنے کے بعد بچے سکولوں اور کالجوں کلاسز لینے کے لیے جانے لگے۔
وجے کہتے ہیں کہ ’مگر وہ کلاس سے واپس آ کر یا اپنے موبائل فونز پر کھیلتے رہتے یا پھر ٹی وی دیکھتے رہتے۔‘
اُنھوں نے بتایا کہ کئی بڑے افراد بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے اپنا زیادہ وقت ان آلات کے ساتھ صرف کرنے لگے تھے
وندنا موہیتے کہتی ہیں کہ اُن کے لیے اپنے دو بچوں کی نگرانی کرنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ ’وہ مکمل طور پر اپنے فون یا ٹی وی میں گم رہتے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جب سے یہ نئی روایت شروع ہوئی ہے میرے شوہر کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ کام سے واپس آئیں اور پڑھائی میں ان کی مدد کریں تاکہ میں کچن میں سکون سے اپنا کام کر سکوں۔‘
مگر سب لوگوں کو اس پر آمادہ کرنا آسان نہیں تھا۔ وجے کہتے ہیں کہ جب کونسل نے اس معاملے پر بات کی اور دیہاتیوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تو مردوں نے اسے مسترد کر دیا۔
اس کے بعد کونسل نے گاؤں کی خواتین کو جمع کیا جنھوں نے تسلیم کیا کہ وہ بھی بہت زیادہ ٹی وی سیریل دیکھنے لگی ہیں چنانچہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ پورا گاؤں کچھ دیر کے لیے اپنے ٹی وی اور موبائل فونز بند کر دے گا۔
کونسل کا ایک اور اجلاس ہوا جس میں طے ہوا کہ گاؤں کے مندر پر ایک سائرن نصب کیا جائے گا۔
اس فیصلے پر عملدرآمد آسان نہیں تھا۔ جب سائرن بجتا تو کونسل کے عملے اور کچھ دیہاتیوں کو در در جا کر لوگوں سے کہنا پڑتا کہ وہ اپنے ٹی وی اور موبائل فون بند کر دیں۔
وجے کے مطابق اب اس فیصلے پر پورا گاؤں عملدرآمد کرتا ہے۔
مگر کیا اتنے مختصر وقت کے لیے ٹی وی اور فون بند کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز میں نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر منوج کمار شرما کہتے ہیں کہ اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کووڈ نے آن لائن سرگرمیوں کے رجحان اور ان پر گزارے جانے والے وقت میں اضافہ کیا ہے۔‘
جولائی اور دسمبر 2020 کے دوران ڈاکٹر شرما اور ان کے ساتھیوں نے 682 افراد (495 خواتین اور 185 مردوں) پر ایک تحقیق کی جس میں یہ پایا گیا کہ ’انٹرنیٹ کا پریشان کن استعمال‘ نوبالغ افراد اور نوجوانوں میں تیزی سے سامنے آ رہا تھا۔ یہ انٹرنیٹ کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘
مطالعے میں پایا گیا کہ ’انٹرنیٹ کا حد سے زیادہ غیر پیداواری استعمال کیا جائے تو اس کے پریشان کُن استعمال کا خطرہ بڑھا جاتا ہے جس سے نفسیاتی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس میں نوجوانی کے کئی پہلوؤں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے۔‘
ایسے نوبالغ افراد جو پہلے ہی نفسیاتی دباؤ کے شکار ہوں ان کی طرف سے انٹرنیٹ کا ایسا استعمال زیادہ ممکن ہے جو اُنھیں ناگوار جذباتی حالات سے عارضی فرار فراہم کرے۔
اس کی وجہ سے وہ سماجی میل جول، خاندان والوں کے ساتھ بیٹھنا اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا کم کر سکتے ہیں جس سے وہ پہلے سے زیادہ تنہا ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شرما کہتے ہیں کہ دانستہ طور پر اس ڈیجیٹل بریک سے خاندان کے ہمراہ اچھی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے آن لائن سرگرمیوں پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔
’آپ کو اپنے بچوں سے بات کر کے یقینی بنانا چاہیے کہ وہ جسمانی یا آف لائن سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، بھرپور سو رہے ہیں اور اچھی غذا بھی کھا رہے ہیں۔‘
گنا اگانے والے دلیپ موہیتے تین بچوں کے باپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔