تحریریں

بچے کو سمارٹ فون کس عمر میں دینا چاہیے؟

یہ مخمصہ جدید دور کا ہے۔ کیا اپنے بچوں کو سمارٹ فون دینا چاہیے یا جب تک ممکن ہو انھیں اس سے دور رکھا جائے؟

اگر آپ ماں باپ ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ بچے کو سمارٹ فون دینا ایسا ہے جیسے اسے ایک ایسی پوٹلی تھما دی جائے جس کے ذریعے دنیا بھر کی تمام برائیاں کُھل کر آپ کے بچے کے سامنے آ جائیں گی اور آپ کے بچے کی پوری زندگی متاثر ہو جائے گی، تو آپ کو معاف کیا جا سکتا ہے۔

بچوں پر سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ممکنہ بُرے اثرات کے حوالے سے آئے روز شائع ہونے والی حیران کن شہ سرخیاں کسی بھی ماں باپ کو قائل کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون بالکل نہیں دینا چاہیے۔

بظاہر بہت سی مشہور شخصیات بھی جدید دور کے اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون دیا جائے یا نہیں۔ مثلاً معروف گلوکارہ میڈونا کا کہنا تھا کہ انھیں پچھتاوا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کو 13 برس کی عمر میں فون استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر انھیں معلوم ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتیں۔

دوسری جانب، شاید یہ بھی سچ ہے کہ خود آپ کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور آپ اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری حصہ سمجھتے ہیں۔ ای میلز اور آن لائن شاپنگ سے لے کر ویڈیو کال اور اپنے بچوں کی تصویروں تک، آپ ہر چیز اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کے بچوں کے ہم جماعت اور دوست، تمام سمارٹ فونز خرید رہے ہیں تو اگر آپ کے بچوں کے پاس فون نہ ہوا تو وہ اس کسی چیز سے محروم ہونے جیسا محسوس کریں گے۔

اگرچہ ہمارے پاس بچوں اور نوجوانوں پر سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے اٹھنے والے بہت سے سوالوں کے جواب نہیں ہیں، لیکن اس موضوع پر موجود تحقیق ہمیں سماٹ فونز اور سوشل میڈیا کے بڑے بڑے خطرات اور فوائد سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

چونکہ ہمارے پاس اس بات کے کوئی مصدقہ اور واضح شواہد نہیں ہیں کہ بچوں کی ذہنی صحت پر سمارٹ فون یا سوشل میڈیا تک رسائی کے عموماً برے اثرات ہوتے ہیں، لیکن شاید کہانی یوں مکمل نہیں ہوتی۔ اب تک ہونے والی زیادہ تر تحقیق نوبالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے حوالے سے کی گئی ہے اور شواہد بتاتے ہیں کہ ذہنی نشوونما کے مخصوص ماہ و سال میں بچوں پر سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ زیادہ تر ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرتے وقت کہ آپ کا بچہ سمارٹ فون کے لیے تیار ہے، ہمیں کچھ عوامل کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بچے کو سمارٹ فون دینے کے بعد ہمیں بطور والدین کیا کرنا چاہیے۔

برطانیہ کے میڈیا کے نگران ادارے، آف کام، کے اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ میں اکثر بچوں کے پاس 11 برس کی عمر میں سمارٹ فون موجود ہوتا ہے۔ نو برس کی عمر میں 44 فیصد بچوں کے پاس یہ سہولت موجود ہوتی ہے اور 11 سال کی عمر میں یہ تناسب 91 فیصد ہو جاتا ہے۔

امریکہ میں نو سے 11 برس کی عمر کے بچوں کے 37 فیصد والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کے پاس اپنا سمارٹ فون موجود ہے، جبکہ یورپ کے 19 ممالک میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق نو سے 16 برس کی عمر کے 80 فیصد بچوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بھی سمارٹ فونز موجود ہیں اور وہ تقریباً روزانہ سوشل میڈیا پر جاتے ہیں، تقریباً ہر روز۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے منسلک نفسیاتی سائنس کی ماہر، پروفیسر کینڈس آڈگرز کہتی ہیں کہ ’جب ہم 13 سے 19 برس کے بچوں کی بات کرتے ہیں تو یہ تناسب 90 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔‘

پیدائش سے آٹھ برس تک کی عمر کے بچوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے کی گئی یورپی تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ اس عمر کے بچوں کو ’انٹرنیٹ کے خطرات کی کچھ سمجھ نہیں ہوتی یا بہت کم سمجھ ہوتی ہے‘ اور اگر اس عمر سے بڑے بچوں پر سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے واضح اثرات کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی ہمارے پاس کوئی مضبوط شواہد نہیں ہیں۔‘

پروفیسر آڈگرز نے اپنی تحقیق میں نہ صرف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال اور نو بالغ بچوں کی ذہنی صحت کے درمیان تعلق کے حوالے سے بڑے پیمانے پر جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے تین مجموعوں کا جائزہ لیا، بلکہ انھوں نے بہت سی دوسری تحقیق کا بھی مطالعہ کیا۔ ان کی تحقیق میں بھی نوبالغ لڑکے لڑکیوں کی ذہنی صحت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کے درمیان کوئی ایسا تعلق نہیں دیکھا گیا جو تمام بچوں اور مختلف حالات پر لاگو ہوتا ہو۔

پروفیسر کے بقول ’اکثر تحقیق میں سوشل میڈیا کے استعمال اور ذہنی صحت کے درمیان کوئی تعلق نہیں نظر آیا۔ وہ مطالعے جن میں دونوں چیزوں کے درمیان تعلق دکھائی دیا ،ان میں بھی منفی یا مثبت تعلق کا حجم بہت کم تھا۔

’بلکہ ہماری تحقیق میں جو چیز بہت واضح طور پر سامنے آئی وہ لوگوں کی سوچ سے بہت مختلف، خود نوبالغ لڑکے لڑکیوں کی سوچ سے بھی مختلف تھی اور شواہد کے مطابق سوشل میڈیا اور ذہنی صحت کے درمیان کوئی تعلق نہیں دکھائی دیا۔‘

اسی طرح یونیورسٹی آف کیمبرج سے منسلک تجرباتی نفسیات کی ماہر ایمی اوربن کی تحقیق میں بھی دونوں چیزوں کے درمیان تعلق کے بارے میں کوئی حتمی ثبوت نہیں دیکھا گیا، تاہم ان کی تحقیق میں سوشل میڈیا کے استعمال اور ذہنی صحت کے درمیان اوسطاً تھوڑا سا منفی تعلق دیکھا گیا۔

ایمی اوربن کے مطابق ان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ بچوں کی ذہنی صحت میں بہتری یا خرابی اور سوشل میڈیا کے درمیان تعلق ثابت کر سکیں یا یہ کہہ سکیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال واقعی بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے کی جانی والی اکثر تحقیق کا معیار اتنا اچھا نہیں کہ اس سے کوئی بامعنی نتائج حاصل ہو سکیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم یہاں اوسط کی بات کر رہے ہیں۔ ایمی اوربن کہتی ہیں کہ ’سائنسی رپورٹوں اور کتابوں میں کسی شے کے ذہنی صحت پر اثرات کے حوالے سے بہت مختلف نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی لیے کسی ایک نوجوان کے تجربات کا انحصار اس کے مخصوص ذاتی حالات پر ہو سکتا ہے اور اس حوالے سے صرف وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو اس بچے کے بہت قریب ہوں۔‘

عملی طور پر دیکھیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شواہد سے قطع نظر ہو سکتا ہے کہ کچھ بچوں کو سوشل میڈیا اور دوسری ایپس استعمال کرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہو، اس لیے والدین کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اس چیز کو سامنے رکھیں اور ایسی صورت میں اپنے بچے کی مدد کریں۔

دوسری جانب کچھ بچوں کے لیے سمارٹ فون ایک نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً کسی معذوری کا شکار بچہ انٹرنیٹ کے ذریعے معلوم کر سکتا ہے کہ اسے کہاں سے مدد مل سکتی ہے اور وہ اپنے جیسے دوسرے افراد سے رابطہ کر سکتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس میں سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر سونیا لوِنگسٹون کہتی ہیں کہ ’تصور کریں آپ خود ایک ایسا بچہ ہیں جسے یہ پریشانی ہے کہ شاید اس کی بلوغت صحیح سمت میں نہیں جا رہی، یا جنسی اعتبار سے آپ اپنے دوستوں سے مختلف ہیں یا آپ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں فکرمند ہیں اور آپ کے ارد گرد کے لوگ آپ کی باتوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔‘ ایسے میں سمارٹ فون آپ کے لیے نہایت کارآمد چیز ثابت ہو سکتی ہے۔

اکثر اوقات جب بچے فون پر کسی سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے دوستوں یا گھر والوں سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔

پروفیسر سونیا کے مطابق ’اگر آپ واقعی تجزیہ کریں کہ بچے انٹرنیٹ پر کس سے رابطہ کر رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن سے وہ حقیقی دنیا میں ملتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سوچنا کہ ہمارا بچہ فون لیکر کہیں تنہائی میں کھو گیا ہے، ہو سکتا ہے کہ کچھ بچوں کے معاملے میں یہ اندیشہ درست ہو، لیکن بچوں کی بڑی اکثریت فون پر بھی (اپنے جاننے والوں) سے رابطہ کر رہے ہوتے ہیں، ان سے اپنی کوئی چیز شیئر کر رہے ہوتے ہیں یا ان کے ساتھ مل کر کوئی ویڈیو وغیرہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

بلکہ اکثر لوگ کہتے ہی کہ سمارٹ فون آنے کے بعد بچے گھر سے بہت کم نکلتے ہیں۔ ڈنمارک میں 11 سے 15 سال کے بچوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سمارٹ فونز کے ساتھ بچے آزادانہ گھومتے پھرتے ہوئے خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ انجان مقامات پر بھی وہ ماں باپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور انھیں والدین کی مدد دستیاب ہوتی ہے۔

تحقیق میں شامل بچوں کا کہنا تھا کہ گھر سے باہر سمارٹ فون پاس ہونے سے وہ خود کو زیادہ محفوظ سمجتے ہیں، موسیقی سنتے رہتے ہیں اور اپنے دوستوں اور والدین سے مسلسل رابطے میں بھی رہتے ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ اگر آپ کا بچہ ہر وقت فون پر اپنے ہم عمر لڑکے لڑکیوں سے باتیں کرتا رہتا ہے تو اس میں بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔

پروفیسر لِونسگٹون کے بقول ’میں سمجھتی ہوں کہ سمارٹ فون ایک ایسی زبردست چیز ہے جس نے بچوں کی بہت سی ایسی ضروریات کو پورا کیا ہے جو کبھی پہلے پوری نہیں ہوئی تھیں، لیکن بہت سے بچے سمارٹ فون کی وجہ سے دباؤ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ سمارٹ فون بچے پر یہ دباؤ بھی ڈال سکتا ہے کہ شاید تمام مقبول لوگ فون پر ہی نظر آتے ہیں اور اسے اس گروپ میں شامل نہیں کیا جا رہا۔‘

مثلاً رواں برس پروفیسر اوربن اور ان کے ساتھیوں نے ایک مضمون شائع کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جو بچے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ بلوغت کے آنے والے کچھ مخصوص عرصے میں اپنی زندگی سے کم مطمئن ہوتے ہیں۔

10 سے 21 برس کے 17 ہزار لڑکے لڑکیوں پر تحقیق کے اعداد وشمار کے تجزیے سے ماہرین کو معلوم ہوا ہے کہ 11 سے 13 برس کی عمر میں زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والی لڑکیاں اور 14 سے 15 برس کے ایسے لڑکے، ایک سال بعد اپنی زندگی سے کم مطمئن ہوتے ہیں

ماہرین کے مطابق تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ان برسوں میں کم سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں ایک برس بعد اپنی زندگی سے زیادہ مطمئن پائے گئے۔

ان نتائج کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ لڑکیاں عموماً لڑکوں سے پہلے بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں، تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد کم ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے اپنی زندگی سے کم مطمئن ہونے کا تعلق بلوغت میں فرق سے ہے یا نہیں۔

تحقیق کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں میں 19 برس کی عمر میں بھی اسی قسم کی بے اطمینانی نظر آئی اور یہ عموماً وہی عمر ہوتی ہے جب اکثر بچے گھر سے دور چلے جاتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کی ان عمروں کو حتمی نہ سمجھیں بلکہ اپنے خاندان کے حوالے سے خود فیصلہ کریں، لیکن یہ جاننا بھی اچھا ہے کہ کس عمر میں بچے سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے حوالے سے زیادہ حساس ہو سکتے ہیں۔

مثلاً 13 سے 19 برس کی عمر میں ہمارے دماغ میں بہت بڑی تبدیلی آ جاتی ہے اور یہ چیز اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے کہ اس عمر میں نوجوانوں کا رویہ اور احساسات کیا ہوتے ہیں۔ شاید اسی عمر میں وہ سوشل میڈیا کے ساتھ اپنے تعلق اور اپنے سٹیٹس کے بارے میں زیادہ حساس ہو جاتے ہیں

پروفیسر اوربن کے مطابق ’بلوغت اور نوعمری کا عرصہ آپ کی ذہنی نشو و نما کا اہم وقت ہوتا ہے۔ اس دوران آپ کے ہم عمر آپ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے، آپ کی دلچسپی بہت زیادہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور سوشل میڈیا کا ڈیزائن ایسا ہے کہ اس میں آپ کو دوسروں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے اور دوسرے لوگ آپ پر تبصرہ کرتے ہیں، اور آپ محض ایک بٹن دبا کر یہ سب کچھ جان لیتے ہیں، اسی لیے یہ وقت آپ کے لیے زیادہ ذہنی دباؤ کا باعث ہو سکتا ہے۔‘

عمر کے علاوہ دیگر ایسے عوامل بھی ہیں جو بچوں پر سوشل میڈیا کے اثرات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے تحقیق کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔

اوربن کا کہنا ہے کہ مختلف اوقات میں لوگوں پر مثبت یا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ زندگی کے مختلف اوقات میں مختلف تجربات ہو سکتے ہیں، یا ممکن ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو مختلف طریقے سے استعمال کر رہے ہوں۔

بچوں کو سمارٹ فون دینے یا نہ دینے کے مسئلے سے نبرد آزما خاندانوں کو تحقیق کسی حد تک مدد تو فراہم کر سکتی ہے تاہم یہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی کہ سمارٹ فون کس عمر میں دیا جائے؟

اوربن کا کہنا ہے کہ ’یہ کہنے سے کہ معاملات پیچیدہ ہیں، قدرتی طور پر یہ سوال والدین کے پاس واپس لوٹ جاتا ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں کیوں کہ یہ انفرادی فیصلہ ہے۔‘

آڈگرز کا کہنا ہے کہ ’والدین کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس کے بچے اور خاندان پر کیا اثرات ہوں گے؟‘

بہت سے والدین کے لیے بچے کو سمارٹ فون لے کر دینا ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ آڈگرز کے مطابق کئی والدین چاہتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کے پاس سمارٹ فون ہو تاکہ وہ ان سے دن بھر رابطے میں رہ سکیں۔

اس کے علاوہ یہ بلوغت کے سفر کا ایک اہم سنگ میل بھی ہے۔ آسٹریا کی یونیورسٹی آف ویانا میں کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی محقق اینجا سٹیوک کا کہنا ہے کہ ’والدین کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا بچے عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ اپنا فون رکھنے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں؟

ایک نکتہ جسے والدین کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کے پاس سمارٹ فون ہونے سے کس حد تک آرام دہ ہیں۔

سٹیوک اور ان کے ساتھیوں کی ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ جب والدین اپنے بچے کے سمارٹ فون پر کنٹرول نہ ہونے کی شکایت رکھتے ہیں تو بچوں کے ساتھ فون کے معاملے پر تنازع بڑھ جاتا ہے۔

یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ سمارٹ فون رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایپ یا گیم تک رسائی دے دی جائے۔

پروفیسر سونیا لوِنگسٹون کا کہنا ہے کہ ’میں اکثر جب بچوں سے انٹرویو کرتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ والدین ان کو فون تو دیتے ہیں لیکن چند شرائط کے ساتھ اور اس بات پر بھی بحث ہوتی ہے کہ ان کو کون سی ایپس تک رسائی دی جائے گی جو میرے خیال میں کافی عقل مندی ہے۔‘

والدین اپنے بچوں کے ساتھ گیم کھیل سکتے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ وہ اس مواد سے مطمئن بھی ہیں یا نہیں، یا پھر فون پر موجود مواد کا جائزہ لینے کے لیے وقت مختص کر سکتے ہیں۔

آڈگرز کا کہنا ہے کہ کسی حد تک والدین کو جانچ پڑتال کرنی چاہیے تاہم یہ بات چیت کے ذریعے ہونا چاہیے جس کے دوران بچوں کو ویسے ہی مدد فراہم کی جائے جیسے عام زندگی میں کی جاتی ہے۔

سمارٹ فون کے قوانین طے کرتے ہوئے، جیسا کہ رات کے وقت کمرے میں فون نہ رکھنا، والدین کو چاہیے کہ اپنے فون کے استعمال پر بھی دیانت داری سے نظر ثانی کریں۔

پروفیسر سونیا لوِنگسٹون کا کہنا ہے کہ ’بچے دوغلے پن سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کو بہت بُرا لگتا ہے جب ان کو کسی ایسی بات پر ڈانٹا جائے جو والدین خود کرتے ہیں، جیسا کہ کھانے کے وقت یا سونے سے پہلے بستر میں فون کا استعمال کرنا۔‘

بچے اپنے والدین سے ہی فون کا استعمال سیکھتے ہیں۔ پیدائش سے آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر ایک یورپی رپورٹ کے مطابق عمر کے اس حصے میں خطرات کا ادراک نہیں ہوتا تاہم بچے اپنے والدین کی نقل کر رہے ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران چند والدین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے بچوں کو ان کی ڈیوائس کا پاس ورڈ معلوم تھا اور وہ خود سے اس کا استعمال کر سکتے تھے۔

لیکن والدین اس چیز کو مثبت طریقے سے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ سٹیوک کا کہنا ہے کہ مشترکہ استعمال بچوں کو فون کا استعمال سکھانے کا ایک اچھا طریقہ ہو سکتا ہے تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ فون میں کیا ہے اور کس لیے ہے۔

بچے کو سمارٹ فون کب لے کر دینا ہے، والدین کے لیے یہ اہم فیصلہ ہے۔ کچھ کے لیے فون نہ دینا درست فیصلہ ہو گا اور اگر تھوڑی سی عقل مندی کا استعمال کیا جائے تو ایسے بچوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

پروفیسر سونیا لوِنگسٹون کا کہنا ہے کہ ’ایسے بچے جو پراعتماد اور معاشرتی طور پر متحرک یا میل جول رکھنے والے ہوتے ہیں، اپنے وقت کا مصرف تلاش کر لیتے ہیں۔ آخر ان کی زندگی کا محور تو سکول ہوتا ہے جہاں وہ ہر روز ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔‘

درحقیقت سمارٹ فون کے بغیر کچھ کھو دینے کا ڈر بھی بچوں کے لیے ایک اچھا سبق ہو سکتا ہے کیوں کہ جب وہ بڑے ہوں گے اور اپنے لیے فون خریدنے کی آزادی رکھتے ہوں گے تو ان کو اس کی حدود کا تعین کرنے کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔

لوِنگسٹون کا کہنا ہے کہ ’کچھ کھو دینے کے خوف کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوتا تو ہر کسی کو یہ سیکھنا ہو گا کہ کہیں نہ کہیں ایک حد مقرر کی جائے ورنہ تو آپ 24 گھنٹے فون پر انگلی گھما رہے ہوں گے۔‘

یہ بھی پڑھیں