تحریریں

ذہن کا دھوکہ جو آپ کو وہ چیزیں بھی دکھا سکتا ہے، جو موجود نہ ہوں

میکسیکو کی پہاڑیوں پر بسنے والا ہوئیچول قبیلہ روحوں سے بات کر سکتا ہے اور اس کام میں ان کی مدد ایک چھوٹا سا سبز پودا کرتا ہے۔

اس پودے کو مقامی لوگ ’پیوٹے‘ کہتے ہیں۔ جب اسے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر چبایا جاتا ہے تو اس سے ایک ایسا مادہ خارج ہوتا ہے جو آپ کو ایسی کیفیت میں لے جاتا ہے، جہاں ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو حقیقت میں موجود نہ ہوں۔

اس پودے کو چبانے سے پہلے شدید خوشی اور سرشاری کا احساس ہوتا ہے، اس کے بعد کے مرحلے میں اردگرد کی آوازیں اور شور زیادہ سُنائی دیتا ہے اور پھر اسے کھانے والے دھندلے خوابوں کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔

ماہر بشریات باربرا میئرہوف اس پودے یعنی ’پیوٹے‘ کو کھا چکی ہیں اور جب ان سے اس تجربے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا اظہار اوپر بیان کیے گئے الفاظ میں کیا۔

پیوٹے میں ’میسکالین‘ نامی ایک مادہ ہوتا ہے جو نشہ آور اشیا کی طرح خوابیدہ کیفیت پیدا کرتا ہے۔

باربرا میئرہوف کے مطابق اُس کا ذائقہ کڑوا اور کھٹا تھا جس کے بعد اُن کو وقت کا احساس نہیں رہا اور وہ ایک کے بعد ایک دھندلا خواب دیکھنے لگیں۔

’میں حرکت نہیں کر پا رہی تھی تاہم میں پُرسکون تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‘ انھوں نے لکھا کہ یہ تجربہ ڈراؤنا نہیں تھا مگر اس نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔

ایسے نشہ آور اجزا کو لاطینی امریکہ میں مذہبی رسومات، جنگ سے قبل یا پھر تفریح کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، ایاہوسکا نامی شربت تقریباً ایک ہزار سال سے مقامی لوگ مذہبی رسومات یا پھر شفا دینے کی روایتی رسم کے دوران استعمال کرتے رہے ہیں۔

میکسیکو کی مایا تہذیب کے لوگ بھی نشہ آور اجزا استعمال کرتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ وہ ان اشیا کی تھوڑی سے مقدار استعمال کر کے اپنے مرحوم آباؤ اجداد سے بات کر سکتے ہیں کیونکہ زیادہ مقدار جان لیوا ہو سکتی ہے۔

آخر ان اجزا کو رسومات میں کیوں استعمال کیا جاتا تھا؟ عین ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہ کیفیت ہو جس میں استعمال کرنے والا حیرانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ درمیانی یا زیادہ مقدار سے روحانی سکون ملنے کا احساس بھی ہوتا ہے۔

سنہ 1950 اور 1960 کی دہائی میں ایسے اجزا میں کافی دلچسپی پائی جاتی تھی اور ان سے ڈپریشن، کثرت شراب نوشی اور شیزوفرینیا کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔

امریکہ میں پراجیکٹ ’ایم کے الٹرا‘ اور ’ایم کے ڈیلٹا‘ کے نام سے تجربات ہوئے جن میں ’ایل ایس ڈی‘ کو سچ اُگلوانے کی دوا کے طور پر استعمال کرنے کے ممکنات کو جانچا گیا۔ سنہ 1960 میں ’ایل ایس ڈی‘ کا استعمال جرم قرار دے دیا گیا تو ان تجربات کو روک دیا گیا تاہم حالیہ برسوں میں کیٹامین اور ایل ایس ڈی میں دلچسپی ایک بار پھر بڑھ گئی ہے

تاہم ایسے اجزا کو کھانا ہی تصوراتی دھوکے کا واحد راستہ نہیں۔ اس کی ایک قسم ایسی ہے جس کا سامنا ان افراد کو ہوتا ہے جن کو مائیگرین یا آدھے سر کا شدید درد لاحق ہوتا ہے۔ بخار میں بھی ایسی کیفیت کا سامنا ہو سکتا ہے خصوصا ملیریا میں۔

امریکہ کی کولیراڈو یونیورسٹی میں ماہر امراض چشم پروفیسر پریم سبرامنیم کہتے ہیں کہ ڈمینشیا، شیزوفرینیا اور چند آنکھ کی بیماریاں بھی بصری فریب کی وجہ بنتی ہیں ۔

اس کے علاوہ شدید غم میں بھی ایسی کیفیت کا حوالہ سامنے آیا ہے جب چند لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے مرنے والے ساتھی کی آواز سنی یا ان کو دیکھا تاہم چند لوگ یہ تجربہ اس وقت بھی کرتے ہیں جب اچانک بہت تیز روشنی کا سامنا کرنا پڑ جائے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی اصل وجہ اب تک ایک پہیلی ہے تاہم اب کچھ حد تک اس راز سے پردہ اٹھ رہا ہے کہ ایسے میں دماغ میں کیا ہو رہا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر برف کی چمک کی وجہ سے چند کوہ پیما ایسا محسوس کرتے ہیں کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ سر ارنسٹ شیکلٹن نے اسی تجربے کے بارے میں بتایا کہ سنہ 1919 کی قطب جنوبی کی مہم کے دوران ’پہاڑوں اور گلیشیئرز پر 36 گھنٹے کے طویل اور مشقت طلب مارچ کے دوران مجھے اکثر ایسا لگا کہ ہم تین نہیں بلکہ چار لوگ ہیں۔‘

اس مخصوص نظر کے دھوکے کی وجہ ’گینزفیلڈ افیکٹ‘ ہو سکتا ہے جس میں اگر ایک مسلسل محرک جیسا کہ ایک جیسی روشنی کا سامنا ہو تو دماغ اس سگنل کو سمجھنے کی کوشش میں ایسی معلومات فراہم کر دیتا ہے جو موجود نہیں ہوتیں۔

ڈریم مشین

روشنی سے پیدا ہونے والے نظر کے دھوکے کو ایک مخصوص ماحول میں پیدا کیا جا سکتا ہے اور اسی کی مدد سے محققین بصری فریب کو سمجھنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔

سسیکس یونیورسٹی کے نیوروسائنس پروفیسر انیل سیٹھ ڈریم مشین نامی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بند آنکھ پر ٹمٹماتی روشنی رنگ، اشکال اور حرکت کا احساس پیدا کر سکتی ہے اور یہ بات بہت پہلے دریافت کر لی گئی تھی۔‘

ڈریم مشین نامی پراجیکٹ 2022 کے دوران پورے برطانیہ میں گھومتا رہا جس کی بنیاد سنہ 1959 میں اسی نام کی ایک دریافت ہے۔ کسی نشہ آور دوائی کے بغیر بصری فریب کا تجربہ کرنے کے وعدے نے مجھے بھی اس کا حصہ بننے کی ترغیب دی۔

یہ میشن دراصل ایک دو منزلہ نیلے رنگ کا آٹھ کونوں والا ڈبہ ہے۔ تقریبا 20 افراد کو ایک گول مرکزی کمرے میں لے جایا گیا جہاں پیچھے جھک جانے والی کرسیوں پر بیٹھ کر چھت پر نگاہ مرکوز کی جا سکتی تھی۔ چھت کے بیچ میں ایک سفید ڈسک نرم چمک پیدا کر رہی تھی جس کے گرد بڑی لائٹس کا دائرہ موجود تھا۔

میں سیٹ پر بیٹھا تو تجربے کا آغاز ایک دھیمی الیکٹرانک موسیقی سے ہوا جو میری پشت پر موجود سپیکرز کی مدد سے سنوائی جا رہی تھی۔ روشنی مدھم ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ کتنی تیز تھی۔ میں اپنی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن یہ ناخوشگوار احساس تھا۔ تیز سفید روشنی اب گلابی نارنجی محسوس ہو رہی تھی۔ پھر لائٹس نے جھپکنا شروع کر دیا۔

گلابی نارنجی روشنی کے ساتھ نیلے رنگ کی روشنی کے فلیش شامل ہو گئے۔ ڈریم مشین میں نارنجی اور نیلا رنگ ملنے شروع ہو گیا اور کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں رنگ کی پٹیاں دیکھ رہا ہوں۔ اسے ’فلکر پھوسپھینز‘ کہتے ہیں اور یہ ایک ایسا بصری فریب پیدا کرتا ہے جیسا ادویات کے استعمال سے ہوتا ہے۔ یہ سادہ سے جیومیٹرک پیٹرن غالباً دماغ کے پرائمری کارٹیکس میں جنم لیتے ہیں۔

انیل سیٹھ کہتے ہیں کہ روشنی کے جھپکوں کی فراوانی، جن کو ’سٹروب‘ کہتے ہیں، دماغ کے اس حصے کی لہروں سے مل کر اس بات کو طے کرتی ہے کہ بصری فریب کتنا طاقتور ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سٹروب لائٹس کی سب سے مؤثر فریکوئنسی 10-15 ہرٹز تک ہوتی ہے۔ یہ دماغ کے ایلفا ردھم سے ملتی ہے۔‘

دیگر تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فریکوئنسی ہی اس تصوراتی فریب کے دوران دکھائی دینے والی اشکال کا بھی تعین کرتی ہے۔ 20-30 ہرٹز پر کچھ لوگ دائرے، لہریں یا لکیریں دیکھتے ہیں جبکہ 10 ہرٹز پر چوکور یا ٹیڑھی شکلیں نظر آتی ہیں۔

انیل سیٹھ کہتے ہیں کہ ’اس پر اختلاف موجود ہے کہ الفا ردھم کیا کرتا ہے۔ جب آپ آنکھیں موندتے ہیں اور جب آپ پرسکون ہوتے ہیں تو یہ مزید واضح ہو جاتا ہے۔ چند نیورو سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ دماغ کی وہ عمومی کیفیت ہے جس میں یہ بیکار ہوتی ہے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ الفا ردھم کا ہر دائرہ، جو سو ملی سیکنڈ پر محیط ہوتا ہے، بصری مشاہدے کا ایک فریم ہوتا ہے جس کا ہمارے تصور سے گہرا تعلق ہے۔‘

موسیقی تبدیل ہوئی تو مجھے جو دھاریاں دکھائی دے رہی تھیں وہ لہروں میں بدل گئیں۔ مجھے ان رنگین لہروں کے پیچھے جھومتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سفید دھبے نظر آنا شروع ہوئے، جیسے ستاروں کی کائنات ہو۔ موسیقی ایک بار پھر بدلی اور رنگ بھی تبدیل ہو گئے۔ اب میرے سامنے کسی صحرا کا منظر تھا اور دور گہرے ٹاور بلاکس جیسی شکلیں تھی جس کی جانب میں اڑتا چلا جا رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ سٹروب کی فریکوئنسی بدلی یا نہیں لیکن مجھے نظر آنے والی شکلیں مسلسل حرکت میں تھیں۔

انیل سیٹھ کہتے ہیں کہ ’کسی کو یہ نہیں معلوم کہ ڈریم مشین کیسے کام کرتی ہے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ کیا کرتی ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے دماغ کسی بصری سگنل کی توقع نہیں رکھتا لیکن پھر بھی تیز روشنی کی وجہ سے اسے معلومات مل رہی ہوتی ہیں۔ دماغ اس بصری علم کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن زیادہ سمجھ نہیں پاتا۔

انیل سیٹھ نے بتایا کہ ان کا سب سے دلچسپ تجربہ ان لوگوں کے ساتھ ہوا جو مکمل طور پر نابینا تو نہیں تھے تاہم ان کو بینائی میں مشکلات تھیں۔ ’یہ ایک نہایت دلچسپ تجربہ تھا۔ ان کو ویسا ہی تجربہ ہوا جو عام لوگوں کو ہوتا ہے اور یہ میرے لیے بہت حیران کن تھا۔‘

ایک خواب کی طرح مجھے یہ احساس ہوا کہ وقت آگے بڑھ رہا ہے لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ مشین کنتی دیر سے چل رہی ہے اور اب کتنا وقت باقی ہے۔ ایک وقت پر مجھے ایسا لگا کہ میں شاید سو گیا تھا لیکن میں فوری طور پر اس لمحے میں واپس آ گیا۔

اب صحرا کی جگہ جیومیٹریکل اشکال نے لے لی تھی جو سبز، پیلے، نیلے اور لال رنگ کی تھیں۔ یہ شکلیں میری جانب آ رہی تھیں اور ایسا لگا جیسا کوئی شیشہ ٹوٹنے والا ہے۔ مجھے اپنے گائیڈ کی بات یاد آ گئی جس نے تجربہ شروع ہونے سے پہلے بتایا تھا کہ میں جو بھی رنگ دیکھوں گا وہ میرے دماغ کی پیداوار ہو گی۔ یہ اس تجربے کا سب سے دلچسپ حصہ تھا۔

میرا دماغ رنگ، شکلیں اور پیٹرن کیوں بناتا ہے؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں۔ انیل سیٹھ اور ان کے ساتھی اسی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا انحصار دماغ کے مخصوص حصے پر ہوتا ہے۔

رنگ دیکھنے کی صلاحیت بھی ایک حیران کن حد تک دلچسپ تجربہ ہے۔ کیا میں اور آپ ایک ہی رنگ دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ رنگ کے بارے میں ہمارا تصور تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

مثال کے طور پر موسم گرما میں پیلا رنگ کچھ حد تک سبز نظر آتا ہے اور موسم سرما میں یہ لال کی جانب منتقل ہوتا ہے۔ برطانیہ کی یارک یونیورسٹی کی ماہر نفسیات لارن ویلبورن کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ موسم گرما میں ہریالی کہ وجہ سے سبز روشنی زیادہ دکھائی دیتی ہے اور اسی وجہ سے دماغ کچھ تبدیلی سے گزرتا ہے۔

انیل سیٹھ کہتے ہیں کہ ایک جیسے ماحول میں مختلف تجربات صرف ڈریم مشین تک محدود نہیں۔ ’یہ ہر وقت ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہم سب کا بصری تجربہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، جیسے ہر کسی کے اندر ایک الگ کائنات ہو لیکن ہم اس اندرونی تنوع کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے۔‘

ان کا اگلا منصوبہ اسی بارے میں تحقیق کرنے کا ہے جس کے لیے ان کی ٹیم عوام کے انفرادی بصری تجربات کی معلومات اکھٹا کر رہی ہے۔

ڈریم مشین میں موسیقی اور روشنی مدھم ہو رہی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ تجربہ ختم ہو چکا تھا۔ میں نے ایک اور شخص سے بات کی تو جہاں کچھ قدریں مشترک تھیں وہیں یہ واضح ہوا کہ ہم الگ الگ سفر کر رہے تھے۔ یہی اندرونی انفرادیت اب انیل سیٹھ کے اگلے تجربے کا موضوع ہے۔

ایک پیچیدہ تصویر

میں نے جو تجربہ کیا وہ دلچسپ تھا لیکن اس کے مقابلے میں ان لوگوں کے تجربات کافی حیران کن تھے جنھوں نے نشہ آور چیزوں کا استعمال کیا یا طبی بصری فریب سے گزرے۔ ان کا بصری تجربہ اتنا پیچیدہ کیوں تھا؟

ایاہواسکا میں ڈی ایم ٹی نامی نیورو ٹرانسمیٹر ہوتا ہے جو سیروٹونن، میلانن اور سائیلوکائبن سے مشابہت رکھتا ہے۔ سیراٹونن اور میلانن نیند میں کردار ادا کرتی ہیں جبکہ سیراٹونن بھوک، موڈ کے احساسات کی بھی ذمہ دار ہے

سیراٹونن اور ڈی ایم ٹی کے درمیان موجود قدر مشترکہ کی مدد سے ان کی وضاحت ممکن ہے۔ ڈی ایم ٹی، سائیلوکائب اور لیبارٹری میں تیار کردہ ایل سی ڈی ہمارے دماغ میں سیراٹونن ریسیپٹرز کو متحرک کرتے ہیں اور اسی سے پیچیدہ بصری فریب پیدا ہوتا ہے۔

ایک تحقیق میں شرکا کے ایک گروہ کو ایل ایس ڈی کی طےشدہ مقدار دی گئی جبکہ دوسرے گروہ کو کیٹانسیرن نامی کیمیکل جو سیراٹونن ریسیپٹرز کو بند کر دیتا ہے۔ اس تجربے کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ ان ریسیپٹرز کا کیا کردار ہوتا ہے۔ ایل ایس ڈی والے گروہ کو پہلے بے مقصد لگنے والی موسیقی معنی خیز لگنے لگی جبکہ یہ احساس دوسرے گروہ کو نہیں ہوا جن کے ریسیپٹرز بند ہو چکے تھے۔

زیورچ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کیٹرن پریلر کا کہنا ہے کہ ’گہرے احساسات کی وضاحت کے لیے یہ اہم ہے۔‘ ایک تحقیق میں ان کو علم ہوا کہ ایل ایس ڈی دماغ کے احساسات سے جڑے نیٹ ورکس بڑھا دیتی ہے۔

منشیات سے ہونے والے اس تصوارتی فریب میں جیومیٹرک طرز کی اشکال سے لے کر افراد، جانوروں، روحوں اور بد روحوں سے بھرے منظر نامے دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسر پریم سبرامنیم کہتے ہیں کہ دماغ کے پرائمری کارٹیکس میں پیدا ہونے والے بصری فریب شکلوں، روشنیوں کی شکل لیتے ہیں۔ آدھے سر کے شدید درد میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ اسی کی طبی مثال ہے۔ انھوں نے دماغ کے ٹیومر کے مریضوں میں بھی ایسی علامات دیکھی ہیں۔

تاہم یہ تجربات خوفناک بھی ہو سکتے ہیں جن میں ڈراؤنے چہرے، لوگ یا چیزیں نظر آ سکتی ہیں۔ یہ شزوفرینیا یا ڈیمینشیا کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔

اس کی ایک مثال چارلس بونیٹ سنڈروم کی بیماری ہے جو بینائی کھونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس بیماری میں آنکھ کے پردے کو نقصان پہنچنے، یا آنکھ سے روشنی گزرنے کو محدود کرنے والی کوئی کیفیت جیسا کہ موتیا، بصری فریب پیدا کرتا ہے۔

اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بینائی جانے سے یہ بصری فریب کیسے پیدا ہوتا ہے لیکن خِیال کیا جاتا ہے کہ جیسے جیسے نظر متاثر ہوتی ہے، دماغ معلومات کی کمی پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں شکلیں نمودار ہوتی ہیں۔

چارلس بونیٹ سنڈروم کو ’فینٹم وژن‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا موازنہ ’فینٹم لمب سنڈروم‘ سے بھی کیا جاتا ہے جس میں جسمانی حصہ کٹ جانے کے باوجود متاثرہ شخص کو لگتا ہے کہ وہ حصہ اب بھی ان کے جسم کے ساتھ ہی جڑا ہے

اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بینائی جانے سے یہ بصری فریب کیسے پیدا ہوتا ہے لیکن خِیال کیا جاتا ہے کہ جیسے جیسے نظر متاثر ہوتی ہے، دماغ معلومات کی کمی پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں شکلیں نمودار ہوتی ہیں۔

چارلس بونیٹ سنڈروم کو ’فینٹم وژن‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا موازنہ ’فینٹم لمب سنڈروم‘ سے بھی کیا جاتا ہے جس میں جسمانی حصہ کٹ جانے کے باوجود متاثرہ شخص کو لگتا ہے کہ وہ حصہ اب بھی ان کے جسم کے ساتھ ہی جڑا ہے

یہ بھی پڑھیں