چنگیز خان، امریکہ میں خانہ جنگی اور برطانیہ میں صحت عامہ کے ادارے میں کیا قدر مشترک ہے؟ اس کا جواب ہے: کیڑے۔ جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا، کیڑے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ مکھیاں، زیادہ تر کیڑوں کی طرح، انڈے سے بالغ ہونے تک، لاروا اور دیگر مراحل سے گزرتی ہیں۔
مکھیاں اپنی بہت سی قسموں میں لاروا مرحلے کے دوران میگوٹ کی شکل میں ہوتی ہیں۔ یہاں مخصوص کیڑوں جیسے کالیفورڈ، بلیو فلائیز یا گرین فلائیز کی بات ہو رہی ہے۔
ہم میں سے اکثر نے انھیں سڑنے والے گوشت پر یا پالتو جانوروں کے فضلے پر بھنبھناتے دیکھا ہے۔ اس دوران ان کی تعداد دس گنا بڑھ سکتی ہے
لیکن ان میں سے کچھ انواع نقصان دہ نہیں بلکہ ان کے طبی فوائد ہیں۔
جنگ کے زخم
میگوٹس کے آپ کے زخموں پر رینگنے کا خیال شاید اچھا نہ لگے لیکن ان کا طبی استعمال، جسے ڈیبرائیڈمنٹ تھراپی کہا جاتا ہے، ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔
روایت ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی متصل سلطنت کے بانی چنگیز خان اپنے سپاہیوں کی مدد کے لیے کیڑوں سے بھرا ایک چھکڑا لے کر پورے ایشیا میں گھومتے تھے۔
یہ کیڑے ان کے زخموں میں رینگتے ہوں گے اور ان کا گوشت کھاتے ہوں گے۔ ان کیڑوں کو زندہ نہیں بلکہ مردہ اور بوسیدہ بافتوں میں چھوڑا جاتا ہوگا۔
حیرت انگیز طور پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چنگیز خان اور ان کی فوجوں کو معلوم تھا کہ وہاں میگوٹس ہیں جو نہ صرف ان کا گلا سڑا گوشت کھاتے ہیں بلکہ متاثرہ بافتوں کو چبانے کے بعد زخموں کو بھی صاف کرتے ہیں۔
مگر یہ حکمت عملی صرف منگول نہیں اپناتے تھے۔
آسٹریلیا میں نیو ساؤتھ ویلز کے قدیم نگیامپا کے آبائی قبیلے میں اس کے شواہد موجود ہیں، شمالی میانمار کے پہاڑی لوگ اور وسطی امریکہ کے مایا بھی انھیں استعمال کیا جاتا تھا۔
زخموں کو اس طرح صاف کرنے کی روایت عالمی سطح پر پائی جاتی ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طریقہ عمومی طور پر استعمال نہیں ہوتا تھا مگر عالمی سطح پر طبی ماہرین کو اس کا علم تھا۔
جان فورنی زکریاس نامی ایک سرجن، جنھوں نے امریکہ میں خانہ جنگی کے دوران ڈین ویل کے ایک ہسپتال میں کچھ عرصے تک کام کیا، نے اس رجحان پر توجہ دینا شروع کی۔
وہ جدید دور میں پہلے شخص تھے جنھوں نے جان بوجھ کر بوسیدہ بافتوں کو ہٹانے کے لیے میگوٹس کا استعمال کیا۔ اس کے نتائج کافی اچھے تھے جسے انھوں نے ’اطمینان بخش‘ قرار دیا۔
انھوں نے دیکھا کہ کیڑے اپنے بیکٹیریا کے زخموں کو بھی صاف کرتے ہیں۔
تاہم یہ کام جلد ہی رُک گیا جب رابرٹ کوچ اور لوئیس پاسچر جیسے سائنسدانوں نے حفظان صحت کی وکالت کی، جو کہ میگوٹس کے استعمال سے موافقت نہیں رکھتا۔
الیگزینڈر فلیمنگ اور پینسلن کی آمد کے ساتھ اس مشق کو بظاہر تاریخ کے حوالے کر دیا گیا تھا، یعنی اب کوئی نہیں چاہتا کہ ان کے زخموں پر میگوٹس رینگنے لگیں۔
مگر پھر 1980 کی دہائی میں اینٹی بائیوٹکس ایسے بیکٹیریا کے خلاف ناکام ثابت ہوئیں جو ان کے خلاف قوت مدافعت بنا چکے تھے۔ انھیں ایم آر ایس اے کہا جاتا ہے۔
ان کے خلاف نئے ہتھیار کی ضرورت پڑی اور اس طرح ایک بار پھر زخموں پر کیڑوں کی واپسی ہوئی جو ان کے خلاف مؤثر ثابت ہوئے۔