تحریریں

اک سبق – تحریر : واصف علی واصف

"کن فیکوں کیتوئی جس ویھلے اسی وی کولے ہا ”
"بلھے شاہ "

بندہ اللہ سے بات کر رہا ہے کہ جب آپ کن فیکون بولے تو ہم بھی آپ کے پاس تھے ۔ آسان الفاظ الفاظ میں بیان کریں تو ‘ ایک فنکار ہو ایک تصویر بنانے والا اس نے جب ایک تصویر بنائی ‘ تو اب آپ تصویر کو دیکھیں فنکار کو دیکھیں اور تھوڑا سا دماغ لڑائیں اور یہ پوچھیں کہ یہ تصویر ظاہر ہونے سے پہلے کہاں تھی ؟ پھر آپ کو آپ کی عقل یا ایمان راستہ بتائے گا کہ یہ فنکار کے حسن خیال میں تھی ۔تو جو مخلوق آ رہی ہے یا آئی ‘ وہ خالق کے حسنِ خیال میں موجود تھی ۔ ہر انسان حُسن تخلیق سے پہلے حُسن خیال میں تھا ۔ اس لیے بلھے شاہ نے کہا ہے کہ ” کن فیکون ” تے کل دی گل اے اسی تے اُس توں پہلے وی تہاڈے دوست سی محرم سی ” یعنی ہماری آپ کی محبت جو ہے یہ کن فیکون سے پہلے کی ہے ۔کن فیکون تو کل کی بات ہے ۔
ہر مخلوق خالق کے ارادے میں تھی خالق کے حسن خیال میں تھی پھر تخلیق ہوئی ۔ خالق کا ارادہ جو ہے مخلوق سے قریب ہے اور مخلوق ہونے سے جدائی ہے ۔مخلوق تو جدائی کا سفر ہے یعنی مخلوق ہو جانا جدائی کا سفر ہے ۔اور ارادے میں رہنا وصال کا سفر ہے ۔آپ ارادے سے تخلیق میں آئے ہو اسے کہتے ہیں "عالم امر سے عالم خلق تک” ۔اب آپ کون سے عالم میں ہیں ؟ اب آپ عالم خلق میں ہیں ‘ عالم تخلیقات میں ہیں ۔اس سے پہلے آپ” عالم امر” میں تھے ۔ عالم امر میں آپ اللّه کے ارادے میں تھے ‘ اللّه کے پروگرام میں تھے ۔ پھر بعد میں اللّه نے آپ کو دنیا میں بھیجا ۔اسلئے یہ بات ٹھیک ہے کہ جب آپ نے کن فیکوں کہا تو ہم آپ کے پاس ہی تھے کیونکہ ہم تو پہلے ہی تخلیق ہو چکے تھے ‘ ہم نے تو آنا ہی تھا ۔ ارادے سے تخلیق تک کا سفر ہونا ہی تھا ۔

"واصف علی واصف رح "

یہ بھی پڑھیں