اگر کوئی آپ سے کہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آرام سے بیٹھو اور کچھ نہ کرو، تو آپ کا دماغ اسے قبول نہیں کرے گا، بلکہ یہ خیال بار بار آپ کے ذہن میں آئے گا کہ کچھ ادھورے کاموں اور دیگر ضروری کاموں کو کیسے پورا کیا جائے۔
آج کی مصروف زندگی میں یہ عام بات ہے کہ ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹس سے لے کر تمام ای میلز کو چیک کرنے، تمام کاموں کو مکمل کرنے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے تک ہر چیز کے لیے دن کے 24 گھنٹے کم پڑ جاتے ہیں۔
اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تو آپ تفریح کے لیے اپنے موبائل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصروں کا جواب دینا اور کبھی کچھ اور چیزوں کو تلاش کرنا۔
لیکن یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آتی کہ بور ہونا بھی ایک آسان اور مفید آپشن ہے
کچھ لوگ اپنے خیالات اور نظریات کے ساتھ تنہا رہنے کے بجائے خود کو ’بجلی کا جھٹکا‘ دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ بات مشہور سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
ایک تحقیقی تجربے کے حصے کے طور پر، کچھ لوگوں کو ایک کمرے میں 15 منٹ تک اکیلے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔
ان تمام لوگوں کو بتایا گیا کہ اس دوران انھیں کچھ نہیں کرنا ہے۔ ایک ہی آپشن تھا، ایک بٹن دبانا، جس سے انھیں ہلکے بجلی کے جھٹکے لگیں گے۔
تجربے میں شامل 42 افراد میں سے تقریباً نصف نے کم از کم ایک بار وہ بٹن دبایا، جب کہ انھیں بجلی کے جھٹکے کا احساس پہلے ہی ہو چکا تھا۔
اس میں ایک ایسا شخص تھا جس نے 15 منٹ تک بیکار بیٹھے رہنے کے دوران 190 بار بٹن دبایا۔
اس تجربے کے بعد تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق ’ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ بیکار بیٹھے ہوئے بھی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
جسم کا وہ حصہ جو ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے
ہمارا دماغ دراصل چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے اور اس کا کام ہمارے سونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ سونے کے دوران یہ تناؤ پیدا کرنے والے تمام عوامل کو سنتا اور ان کا انتظام کرتا ہے تاکہ آپ اپنی نیند اچھی طرح پوری کر سکیں۔
اس دوران آپ کو خبر نہیں ہوتی، پھر بھی آپ کا دماغ فیصلے کرتا ہے، مسائل کا حل تلاش کرتا ہے اور نئے امکانات کے بارے میں سوچتا ہے۔
یہ حصہ جو ہمارے جسم میں ہمیشہ ’آن‘ رہتا ہے کبھی بریک یا رخصت نہیں لیتا۔ لیکن نیورو سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دماغ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
نیند ایک ایسا ہی عمل ہے، جس میں اگرچہ ہمارا دماغ کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن اس دوران یہ خود کو ٹھیک بھی کرتا ہے۔ اسی لیے نیند کا بور ہونا بھی ہماری صحت کے لیے ضروری ہے۔
اطالوی لوگ بور ہونے کی اس خوبی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہاں تک کہ وہاں ایک کہاوت بھی ہے ’کچھ نہ کرنے کا سُکھ‘ یہ وہاں کی ثقافت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت لوگ آرام کرتے ہیں اور کچھ نہ کرنے کی صورتحال سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کچھ نہ کرنے کا مطلب جھپکی لینا نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اور بھی گہرے ہیں۔ اس کا حقیقی مطلب ہے کہ اپنے آپ کو روزمرہ کی زندگی کی ہلچل سے الگ کرنا، اپنے اندر جھانک کر دیکھنا، آرام کرنا اور یہ محسوس کرنا کہ آپ حال میں رہ رہے ہیں
بوریت میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی ہیں
نیورو سائنسدان ایلیسیا ووف، جو کہ امریکہ میں رینسلیئر پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں ایک محقق کے طور پر کام کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’دماغ کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو کبھی کبھار بور ہونے دیں۔‘
فوربس پنلکیشنز کو دیے گئے اپنے بیان میں ایلیسیا مزید کہتی ہیں، ’بور ہونے سے ہمارے سماجی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہت سے سوشل نیورو سائنسدانوں کی دریافت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جب ہم کچھ کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے دماغ کی نیٹ ورکنگ سب سے زیادہ فعال ہوتی ہے۔‘
دوسرے الفاظ میں، تخلیقی خیالات بوریت میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو بہتر خیالات میں تبدیل کرنے کا یہ اچھا موقع ہوتا ہے‘۔
دماغی صحت کے لیے فائدہ مند
اس کی تفصیل بتاتے ہوئے ایلیسیا مزید کہتی ہیں کہ ’بوریت والے لمحات بھلے ہی ہمیں بے کار، خالی اور غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں، لیکن اس دوران تمام حکمت عملی اور مسائل کے حل ہمارے ذہن میں تیرتے رہتے ہیں۔ بہت سے مشہور مصنفین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ذہن میں بہت سے تخلیقی خیالات اس وقت آئے جب وہ نہانے، گھاس کاٹنے یا گھر کا فرنیچر ادھر اُدھر کرنے جیسے کام کر رہے تھے۔
2019 میں ’اکیڈمی آف مینجمنٹ ڈسکوریز‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے۔ تحقیق میں شامل محققین نے ایک گروپ کو ان کے رنگ کے مطابق پھلیاں چھانٹنے کا بورنگ کام دیا۔ جبکہ دوسرے گروپ کو اس سے بہتر کام سونپا گیا۔
ٹاسک کے بعد ان دونوں گروپوں کے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ دیر سے آنے کے لیے بہترین بہانے تلاش کریں۔ محققین نے پایا کہ جس گروپ کو بورنگ ٹاسک دیا گیا تھا وہ اس گروپ کے مقابلے میں بہتر بہانہ بناتا تھا جسے بہتر ٹاسک دیا گیا تھا۔
برطانوی ماہِر نفسیات سینڈی مین کی کتاب ’آرٹ آف بیئنگ بورڈ‘ کی دلیل بھی ایسی ہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بوریت کا احساس اتنا مضبوط اور حوصلہ افزا ہے کہ یہ تخلیقی صلاحیتوں اور سوچ کو بہتر میں اضافہ کر سکتا ہے‘
سینڈی کی رائے میں جب بچے بور ہوتے ہیں تو والدین کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ انھیں چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں ’بوریت کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ آپ کو اس دوران کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
اس لیے انھیں اپنی بوریت سے خود ہی لڑنا سیکھنے دیں۔ ان کے اندر کی تخلیقی صلاحیتیں اسی طرح کھل کر سامنے آئیں گی‘۔
ان کا کہنا ہے کہ بور ہونا اچھا نہیں لگتا لیکن اس دوران ہمارے دماغ کی بیٹری چارج ہوتی ہے۔
بوریت توجہ میں اضافہ کرتی ہے
جس طرح نیند ہمارے دماغ کے لیے مفید ہے، اسی طرح بوریت یا مخمصے کی کیفیت بھی دماغ کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ٹِم کریڈر کا کہنا ہے کہ ’بیکار بیٹھنا چھٹی جیسی چیز نہیں ہے، یہ ہمارے دماغ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہمارے جسم کے لیے وٹامن ڈی۔‘
امریکہ کے میگزین ’سائنٹیفک امریکن‘ میں بھی ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس میں بوریت جیسی مبہم صورتحال کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔
اس میں ٹم کریڈر کا کہنا ہے کہ ’کنفیوژن یا الجھن کی کیفیت ہمارے دماغ کے توجہ اور تجسس کو بڑھاتا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور افادیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ کی زندگی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور دیرپا یادیں بنانے میں مدد کرتا ہے۔
سینڈی اپنی کتاب ’آرٹ آف بیئنگ بورڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ روزمرہ کی زندگی کی ہلچل کے درمیان ’دن میں خواب دیکھنا‘ سکون کی سانس کی طرح ہے۔ یہ بات کئی مطالعات میں ثابت ہو چکی ہے۔
مثال کے طور پر آج کے دور میں دفتری ای میلز، سوشل میڈیا اور ڈیٹنگ ایپس پر مسلسل مصروفیت آپ کی دماغی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسی لیے دوبارہ اسی طاقت سے شروع ہونے کے لیے بریک لینا ضروری ہو جاتا ہے۔
اسی لیے سینڈی سمیت بہت سے ماہرین معلومات کے اس شور میں بوریت کو ایک حفاظتی عمل سمجھتے ہیں۔ سینڈی کہتی ہیں ’بطور بالغ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہم پر معلومات کی بمباری ہوتی ہے۔‘
ہم صرف اس وقت اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب ہمیں اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم ریڈیو، سپم پیغامات کے عادی ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ ، ہم کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔
ہمیں اپنی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں سوچنے کی ترغیب اسی وقت ملتی ہے جب یہ تمام چیزیں گھبراہٹ کا باعث بنتی ہیں۔‘
اس لیے ضروری ہے، تھوڑی سی بوریت بھی پیدا کی جائے، تاکہ کچھ نہ کرنے اور اسے قبول کرنے کی خوشی ملتی رہے۔