تحریریں

القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب کیا ہو گا؟: منقول

سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ جانتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب کیا ہوگا؟

القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ ‘بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔’

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔

جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔

اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔

قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا ہے

نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔

اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ناقابل تردید شواہد سامنے آئے تھے، جس کی بنیاد پر اس معاملے میں کی جانے والی انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

نیب کے افسر کے مطابق جب معاملہ انویسٹی گیشن کے مرحلے میں آجاتا ہے تو پھر ملزمان سے براہ راست تفتیش کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر انھیں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔

نیب حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عمران خان، بشریٰ بی بی بیرسٹر شہزاد اکبر اور ریئل سٹیٹ ڈیویلپر کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ القادر ٹرسٹ میں کی جانے والی انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے تو انھوں نے منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔

نیب حکام کے مطابق نیب نے انکوائری شروع کی تو عمران خان کی حکومت کے تقریباً تمام کابینہ ارکان کو طلب کیا تھا جنھوں نے 3 دسمبر 2019 کے اجلاس میں شرکت کی تھی تاہم نیب حکام کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ رہنما نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

اسلام آباد کے سب رجسٹرار آفس میں ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کے چند ماہ کے اندر جہلم میں 460 کنال اراضی خرید کر عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے نام منتقل کر دی گئی اور ٹرسٹ کی تخلیق کے بعد یہ زمین زلفی بخاری نے ٹرسٹ کے نام منتقل کردی۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے منگل کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں۔

وزیرداخلہ کے مطابق خاص اس وقت جب عمران خان سیاسی مخالفین پر کرپشن کے جھوٹے مقدمات تیار کروا رہے تھے اس وقت پر ہی وہ یہ سب بدعنوانی کر رہے تھے۔ جس پراپرٹی ٹائیکون نے القادر ٹرسٹ کے لیے زمین دی تو ان کے ہی اکاؤنٹ میں 60 ارب بھیج کر قومی خزانے کو یہ ٹیکا لگایا۔

ان کے مطابق بنی گالہ میں 240 کنال زمین فرح گوگی کے نام پر رجسٹرڈ ہے، جس کی مالیت پانچ سے سات ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ وفاقی کابینہ کو عمران خان نے اندھیرے میں رکھا اور صرف کاغذ لہرا کر منظوری لے لی گئی۔ ان کے مطابق اس وقت کی کابینہ بھی ایک طرح سے ذمہ دار ہے جس سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے

نیب قوانین میں نئی ترامیم سابق عمران خـان کے لیے کتنی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں؟

قومی احتساب بیورو کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ موجودہ حکومت کی طرف سے نیب کے قوانین میں نئی ترامیم کا، جنھیں سابق وزیراعظم عمران خـان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، سب سے زیادہ اور فوری فائدہ عمران خان کو ہوگا۔

ان کے مطابق نئی ترامیم میں 90 دن کے ریمانڈ کے بجائے ریمانڈ کا عرصہ کم کر کے 14 دن کر دیا گیا ہے اوران ترامیم کے بعد اب عمران خان آسانی سے ضمانت حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اب یہ اختیار ٹرائل کورٹ کو بھی ہے کہ وہ انھیں ضمانت دے سکے۔

ان کے مطابق سیکشن 9 سی میں ہونے والی ترمیم کے مطابق نیب پابند تھا کہ وہ عمران خان کو کال اپ نوٹسز بھیجتا اور ان کے ساتھ انکوائری رپورٹ لف کرتا کہ اب یہ انکوائری حتمی ہے اور اب باقاعدہ تحقیقات ہوں گی۔

سابق پراسیکیوٹر کے مطابق نیب نے عمران خان کے خلاف مکمل قانونی عمل کی پیروی نہیں کی ہے، جس کا فائدہ ملزم کو ہو گا۔

تاہم نیب نے اپنے اعلامیے میں یہ کہا ہے کہ عمران خان نیب کے کال اپ نوٹسز کا خاطر خواہ جواب نہیں دیتے رہے اور ان کی گرفتاری نیب آرڈیننس اور قانون کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔

عمران شفیق کے مطابق گرفتاری کے لیے تین بڑی وجوہات کا ہونا ضروری ہے۔ پہلے نمبر پر تو یہ ہے کہ ملزم کے فرار ہونے کا خدشہ ہو، وہ حقائق میں ردوبدل کرا سکتا ہو یا وہ پہلے سے اشتہاری ہو۔

عمران شفیق کے مطابق نیب کی گرفتاری کے بعد عمران خان کو بالکل اسی عمل کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی ملزم کو پولیس گرفتاری کے بعد سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کی میڈیکل ہوگا، ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا اور پھر انھیں مزید مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کے مطابق قانونی طور پر نیب ملزم پر جسمانی تشدد نہیں کر سکتا مگر ذہنی تشدد کے متعدد طریقے ہیں جن کا نیب کی حراست میں ملزمان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں