نیکول بیکر ان بہت سے لوگوں میں سے ایک ہیں جو کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ’انسومنیا‘ یعنی نیند نہ آنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میری یہ عادت تھی کہ میں ہر روز رات نو بجے سو جاتی تھی مگر اب میں رات تین بجے بھی جاگ رہی ہوتی ہوں۔ یہ تھکا دینے والی اور پریشان کُن صورتحال ہے کیونکہ اس کے باعث مجھے دن بھر کام کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘
نیکول بیکر ایک کمپنی میں کوارڈینیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اُن کے نیند کے مسائل کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بے چینی ہے۔
’میرے خیال میں کووڈ سے ہونے والی اموات، اپنی نوکری، خاندان، آمد ورفت پر پابندیوں اور مستقبل کے بارے میں عدم اعتماد کی وجہ سے میرے ذہن پر بہت دباؤ پڑا ہے۔ میرا ذہن ہر وقت دوڑ رہا ہوتا تھا اور زندگی کے بارے میں چوبیس گھنٹے سوچتا رہتا ہے جس کی وجہ سے میں سو نہیں پا رہی
یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمٹن کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں انسومنیا کے مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔ پہلے ہر چھ میں سے ایک شخص کو یہ بیماری لاحق تھی مگر اب یہ شرح ہر چار میں ہے ایک ہے۔
ادھر امریکہ میں سنہ 2020 میں گوگل پر لفظ انسومنیا تاریخ میں سب سے زیادہ دفعہ ڈھونڈا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران نیند کے مسائل کی وجہ بے چینی کے علاوہ لوگوں کی روزمرہ زندگی کے ربط میں زبردستی تبدیلیاں اور سماجی عناصر میں کمی کو کہا جا رہا ہے۔
کیونکہ تھکا ہوا سٹاف کم کارآمد ہوتا ہے اس لیے متعدد کمپنیاں اپنے ملازمین کو بہتر اور زیادہ نیند دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ نیکول بیکر کی کمپنی ایم وی ایف بھی ایسی ہی ایک کمپنی ہے۔ جب کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی تو ایم وی ایف نے ملازمین کی بہتری کے لیے ذہنی صحت سے متعلق سیشن کیے اور میڈیٹیشن ایپ ’ہیڈ سپیس‘ کی مفت سبسکرپشن دی۔
نیکول کہتی ہیں اس سب نے انھیں انسومنیا کا مقابلہ کرنے میں مدد کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان وسائل سے مجھے یہ پہچاننے میں مدد ملی کہ وبا نے مجھے کیسے متاثر کیا ہے اور مجھے ذہنی سکون ملا۔‘
کیٹی فشر ایک سلیپ کوچ ہیں اور ’سرکیڈین سلیپ کوچنگ‘ کی بانی ہیں۔ وہ مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ ان کے ملازمین کی مدد کی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کی نیند متاثر ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ گھروں میں رہنے کی وجہ سے صبح دیر تک سوتے ہیں۔ وہ ورزش کم کرتے ہیں اور انھیں تھکاوٹ دور کرنے کا موقع نہیں ملتا۔‘
دفتر نہ جانے سے وقت کا احساس، جو دن کا ربط چلاتا ہے، متاثر ہوتا ہے۔‘
ایڈورٹائزنگ کی عالمی کمپنی گروپ ایم کے ساتھ بھی کیٹی کام کرتی ہیں۔ گروپ ایم پہلے ہی نومولود بچوں کے والدین کے لیے نیند کے لیے کوچنگ کی ورک شاپس اپنے ملازمین کو فراہم کرتا تھا۔ وبا کے دوران انھوں نے اپنی یہ سروس تمام ملازمین کو فراہم کی ہے۔ اپنے سیشنز میں کیٹی لوگوں کی صحت کا جائزہ لیتی ہیں، ان کے ذاتی حالات اور نیند میں کمی کی وجوہات پرکھتی ہیں اور ان مسائل کے حل تجویز کرتی ہیں۔
گروپ ایم کی جینیفر ہارلی کہتی ہیں کہ نیند سے متعلق سپورٹ ان کے کاروبار کے لیے اہم ہے۔ ’جب ہم کافی نیند نہیں کرتے تو ہم اپنا کام بہترین انداز میں نہیں کرتے، اسی لیے ہمیں نیند میں بہتری کے معاملے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کاروباروں کو چاہیے کہ وہ اس بات کے اثرات جائزہ لیں کہ اُن کے ملازمین کتنے صحتمند خوش اور نیند پوری کیے ہوئے ہیں
رینڈ گروپ کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی ناکافی نیند کی وجہ سے کام صحیح سے نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی معیشت کو 40 ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوتا تھا۔
اب جیسے جیسے بہت سے کاروبار لوگوں کو گھروں سے کام کرنے دے رہے ہیں کیٹی فشر کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ملازمین کو چیک کرتے رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ دفتری اور گھریلو زندگی میں توازن رکھیں اور جو لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں ان کو ایک متواتر روٹین رکھنے کو کہیں۔
وہ لوگوں کو یہ تجویز بھی دیتی ہیں کہ وہ صبح اٹھنے کا ایک وقت رکھیں چاہے وہ گھر سے کام کر رہے ہیں یا دفتر سے۔
میکس کرسٹن ایک ہپنو تھراپسٹ اور سلیپ کوچ ہیں۔ ان کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران لوگوں میں کچھ بری عادتیں پیدا ہو گئیں ہیں جیسے کہ فون پر بہت زیادہ وقت ضائع کرنا جو کہ ان کی نیند کے ربط کو خراب کر رہا ہے۔
’لوگ اپنے کام کی سکرین سے اپنے تقریحی وقت میں دوسری سکرینوں پر جا رہے ہیں اور پھر سونے کے وقت بھی ان کے پاس ایک سکرین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بے وقتی کافی یا شراب بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘
برطانیہ میں ایسوسی ایشن فار ڈی سنٹرلائزڈ ایینرجی (اے ڈی ای) نے میکس کرسٹن کو اپنے ملازمین میں نیند کے مسائل کے حل کے لیے رکھا۔ اے ڈی ای میں آپریشنز کی سربراہ لیلی فرنچمن کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی کو نیند کے مسائل ہو رہے ہیں تو میں اس کی ضرور سنوں گی۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کچھ کام نہیں کر رہا ہے۔ چاہے وہ دفتری ہے یا ذاتی مسئلہ ہے، اس شخص کو سپورٹ چاہیے۔‘