سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے کم کیلوری والے چاول بنانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ پہلے چاولوں کو ناریل کے تیل کے ساتھ ابالیں اور اس کے بعد کھانے سے پہلے انھیں آدھا دن فریج میں رکھیں۔
سری لنکا کے سائنسدانوں کے مطابق اس طرح کرنے سے چاولوں میں تقریباً 60 فیصد کیلوریز کم ہو جاتی ہیں۔
انھوں نے امیریکن کیمیکل سوسائٹی کو بتایا کہ کس طرح یہ طریقہ چاولوں میں موجود نشاستے کے ہضم کیے جانے کی صلاحیت کو کم کرتا ہے اور اس طرح جسم کو کم توانائی ملتی ہے۔
تاہم برطانیہ میں غذا کے ماہرین کہتے ہیں کہ وزن کم کرنے کا کوئی فوری طریقہ نہیں ہے۔
چاولوں جیسی نشاستے والی غذا جسے کاربوہائیڈریٹس کہا جاتا ہے توانائی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
جب ہم اسے کھاتے ہیں تو ہمارا جسم اسے عام شکر میں بدل دیتا ہے۔
جو بچتا ہے اسے جسم سٹور کر لیتا ہے اور جب بھی گلوکوز کی ضرورت پڑتی ہے اسے اس میں تبدیل کر دیتا ہے۔
لیکن خون میں گردش کرتا بہت زیادہ گلوکوز آخر کار چربی بن جاتا ہے۔
برطانیہ میں تحقیق کاروں نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ پاسٹا کو پکانے اور پھر ٹھنڈا کرنے سے کم گلوکوز پیدا ہوتا ہے۔
اور سری لنکا کے سائنسدان کہتے ہیں کہ یہی اصول چاولوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
انھوں نے چاولوں کی 38 قسموں پر تحقیق کی تاکہ نشاستے کے خلاف سب سے زیادہ مدافعت کرنے والی قسم ڈھونڈی جا سکے۔
اس قسم کا نشاستہ جسم کے ان انزائمز کے خلاف زیادہ مدافعت رکھتا جو آنتوں میں نشاستہ دار غذا یا کاربوہائیڈریٹس کو توڑتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ جسم میں کم جذب ہوتا ہے۔
اور تحقیق کاروں کے مطابق اس کا سب سے اچھا طریقہ چاولوں میں ایک چمچہ ناریل کا تیل ڈال کر انھیں 40 منٹ آہستہ آہستہ ابالنا اور اس کے بعد اسے ٹھنڈا کر کے فرج میں 12 گھنٹے رکھنا ہے۔
تحقیق کار سدھیر جیمز کہتے ہیں کہ چاولوں کو دوبارہ گرم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اب ٹیم اس بات پر تحقیق کر رہی ہے کہ چاولوں کی کون سی قسم اس کے لیے بہتر ہے اور کیا عام پکانے کے تیل بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
برٹش نیوٹریشن فاؤنڈیشن کی سارہ کوو کہتی ہیں کہ مدافعت کرنے والے نشاستے کے کئی فائدے ہو سکتے ہیں، اس سے ہاضمے کا عمل بہتر رہتا ہے، آنت کی صحت بہتر ہوتی ہے اور یہ خون میں شوگر کی سطح بھی مناسب رکھتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے چاولوں کو کھانے سے صحت پر کیا اثر پڑتا ہے اس پر ابھی اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔