تحریریں

کچرا بابا – تحریر : کرشن چند

کچرا بابا

جب وہ ہسپتال سے باہر نکلا تو اس کی ٹانگیں کان رہی تھیں اور اس کا سارا جسم بھیگی ہوئی روئی کا بنا معلوم ہوتا تھا اور اس کا جی چلنے کو نہیں چاہتا تھا وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ جانے کو چاہتا تھا۔ قاعدے سے اسے ابھی تک ایک ماہ اور ہسپتال میں رہنا چاہئیے تھا مگر ہسپتال والوں نے اس کی چھٹی کر دی تھی، ساڑہے چار ماہ تک وہ ہسپتال کے پرائیوٹ وارڈ میں رہا تھا اور ڈیڑھ ماہ تک جنرل وارڈ میں اس اثناء میں اس کا گردہ نکال دیا گیا تھا اور اس کی آنتوں کا ایک حصہ کاٹ کے آنتوں کے فعل کو درست کیا گیا تھا، ابھی تک اس کے  کلیجے کا فعل راست نہیں ہوا تھا اسے ہسپتال سے نکل جانا پڑا، کیونکہ دوسرے لوگ انتظار کر رہے تھے، جن کی حالت اس سے بھی ابتر تھی۔  

ڈاکٹر نے اس سے کے ہاتھ میں ایک لمبا سے نسخا دے دیا اور کہا یہ ٹانک پیو اور مقوی غذا کھاؤ، بالکل تندرست ہو جاؤ گے، اب ہسپتال میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔  

مگر مجھ سے چلا نہیں جاتا، ڈاکٹر صاحب؟ اس نے کمزور آواز میں احتجاج کیا،

 گھر جاؤ چند دن بیوی خدمت کرے گی بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے،

 بہت ہی دھیرے دھیرے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے فٹ پاتھ پر چلتے اس نے سوچا گھر؟ میرا گھر کہاں ہے ؟ چند ماہ پہلے ایک گھر ضرور تھا، ایک بیوی بھی تھی،جس کے ایک بچہ ہونے والا تھا، وہ دونوں اس آنے والے بچے کے  تصور سے کس قدر خوش تھے، ہو گی دنیا میں زیادہ آبادی، مگر وہ تو ان دونوں کا پہلا بچہ تھا۔  دلاری نے اپنے بچے کے لئے بڑے خوبصورت کپڑے سئیے تھے اور ہسپتال میں  لا کر اسے دکھائے تھے اور ان کپڑوں کی نرم سطح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے بچے کو بانہوں میں لے کر اسے پیار کر رہا ہوں ، مگر پھر اگلے چند مہینوں میں بہت کچھ لٹ گیا، جب اس کے گرد کا پہلا آپریشن ہوا تو دلاری نے اپنے زیور بیچ دئیے کہ ایسے ہی موقعوں کے لئے  ہوتے ہیں ، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیور عورت کے جسن کی افزائش کے لئے  ہوتے ہیں ، وہ تو کسی دوسرے درد کا مداوا ہوتے ہیں ، شوہر کا آپریشن، بچے  کی تعلیم، لڑکی کی شادی، یہ بینک ایسے ہی موقعوں کے لئے کھلتا ہے اور خالی کر دیا جاتا ہے، عورت تو اس زیور کی تحویل دار ہوتی ہے اور زندگی میں مشکل سے پانچ چھ بار اسے اس زیور کو پہننے کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔گردے کے دوسرے آپریشن سے پہلے دلاری کا بچہ ضائع ہو گیا، وہ تو ہو تو ہی دلاری کو دن رات جو کڑی مشقت کرنا پڑ رہی تھی، اس میں یہ خطرہ سب سے پہلے موجود تھا، ایسے لگتا جیسے دلاری کا یہ چھریرا سنہرا بدن اس قدر کڑی مشقت کے لئے نہیں بنایا گیا، اس لئے وہ دانا فرزانہ بچہ ہی میں سے کہیں  لٹک گیا تھا، ناسازگار ماحول دیکھ کر اور ماں باپ کی پتلی حالت بھان کر اس نے خود ہی پیدا ہونے سے انکار کر دیا، بعض بچے ایسے ہی عقلمند ہوتے ہیں ، دلاری کئی دنوں تک ہسپتال نہیں آ سکی، اور جب اس نے آ کے خبر دی تو وہ کس قدر رویا تھا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ آگے چل کر اسے اس سے کہیں زیادہ رونا پڑے گا، تو وہ اس حادثے پر رونے کے بجائے خوشی کا اظہار کرتا۔  گردے کے دوسرے آپریشن کے بعد اس کی نوکری جاتی رہی، طویل علالت میں یہی ہوتا ہے، کوئی کہاں تک انتظار کر سکتا ہے، بیماری انسان کا اپنا ذاتی معاملہ ہے،اس لئے اگر وہ چاہتا کہ اس کی نوکری قائم رہے تو اسے زیادہ دیر تک بیمار نہ پڑنا چاہئیے، انسان مشین کی طرح ہے، اگر ایک مشین طویل عرصے کے لئے بگڑی رہتی ہے تو اسے اٹھا کے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے  اور اس کی جگہ نئی مشین آ جاتی ہے کیونکہ کام رک نہیں سکتا، بزنس بند نہیں  ہو سکتا اور وقت تھم نہیں سکتا، اس لئے جس سے معلوم ہو کہ اس کی نوکری بھی جاتی رہی ہے تو اسے شدید دھچکا سا لگا، جسیے اس کا دوسرا گردہ بھی نکال لیا گیا، اس دھچکے سے اس کے آنسو بھی خشک ہو گئے، اصلی اور بڑی‫مصیبت میں آنسو نہیں آتے، اس نے محسوس کیا صرف دل کے اندر ایک خلا محسوس ہوتا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے کھسکتی معلوم ہوتی اور رگوں  میں خون کے بجائے خوف دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔  وہ کوئی انسان نہیں ہے ایک گھسا پٹہ راستہ ہے۔  دیر تک وہ چلتا رہا، ہانپتا رہا اور چلتا رہا، اندازے سے ایک موہوم سمت کی طرف چلتا رہا، جدھر کبھی اس کا گھر تھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اب ا س کا کوئی گھر نہیں ہے، مگر وہ جانتے ہوئے بھی ادھر ہی چلتا رہا، گھر جانے کی عادت سے مجبور ہو کر مگر دھوپ بہت تیز تھی، اس کے سارے جسم میں  چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں ، اور وہ کسی مسافر سے راستہ ہی پوچھ کے،معلوم کر لے یہ شہر کا کونسا حصہ ہے، ہولے ہولے اس کے کانوں میں  ٹراموں اور بسوں کا شور بڑھنے لگا، نگاہوں میں دیواریں ٹیڑھی ہونے لگیں ، عمارتیں گرنے لگیں ، بجلی کے کھمبے گڈ مڈ کرنے لگے، پھر اس کی آنکھوں  تلے اندھیرا اور قدموں تلے بھونچال سا آیا اور وہ یکا یک زمین پر گر پڑا۔  جب ہوش میں آیا تو رات ہو چکی تھی، ایک نیم خنک سا اندھیرا چاروں طرف چھایا ہوا تھا، اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ جس جگہ پر گرا تھا اب تک وہیں پڑا ہے، یہ فٹ پاتھ ایک ایسا تھا جس کے عقب میں دو طرفہ دو دیواریں  تھی دوسری شمال سے مغرب کو، اور وہ دونوں دیوروں کے اتصال پر لیٹا ہوا تھا، یہ دونوں دیواریں کوئی چار فٹ کے قریب بلند تھیں ، یہاں پر امرود اور جامن کے پیڑ تھے اور ان پیڑوں کے پیچھے کیا تھا وہ اسے اس وقت تک نہیں نظر نہیں آیا تھا،دوسری طرف مغربی دیوار کے سامنے پچیس تیس فٹ کا فاصلہ چھوڑ کر ایک پرانی عمارت کا عقب تھا، سہ منزلہ عمارت تھی اور منزل میں پیچھے کی طرف صرف ایک کھڑکی تھی جو چہ بڑے عقبی پائ تھے، عقبی پائ اور مغربی دیوار کے بیچ میں پچیس تیس فٹ چوڑی ایک اندھی گلی بن گئی تھی، جس کے تین طرف دیوار تھی اور چوتھی طرف سڑک تھی، کہنیوں پر زور دے کر ذرا سا اوپر اٹھا کر اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، سڑک بالکل خالی تھی، سامنے کی دکانیں بند تھیں اور فٹ پاتھ کے اندھے  سالوں میں کہیں کہیں بجلی کے کمزور بلب جھلملا رہے تھی، چند لمحوں کے  لئے اسے یہ ٹھنڈی تاریکی بہت بھلی معلوم ہوئی چند لمحوں کے لئے اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے سوچا شاید وہ کسی مہربان سمندر کے پانیوں میں ڈوب رہا ہے۔  مگر اس احساس سے وہ اپنے آپ کو صرف چند لمحوں تک دہو دے کیونکہ اب اس نے محسوس کر لیا کہ اس پر شدید بھوک طاری ہو چکی ہے، چند لمحوں کی خوشگوار خنکی کے بعد اس نے محسوس کر لیا کہ وہ شدید طور پر بھوکا ہے، جس سے کی آنتوں کے فعل کو بیدار کر کے اس کے ساتھ کسی طرح کی بھلائی نہیں کی، اس کے معدے کے اندر عجیب اینٹھن سی ہو رہی تھی اور آنتیں اندر ‫ہی اندر تڑپ تڑپ کر روٹی کا سوال کر رہی تھیں اور اس وقت اس کے نتھنے  کسی شہری انسان کے نتھنوں کی طرح نہیں کسی جنگلی جانور کے نتھنوں کی طرح کام کر رہے تھے، عجیب عجیب سی بوئیں اس کی ناک میں آ رہی تھیںبوؤں کی ایک سمفنی تھی جو اس کے احساس پر پھیلی ہوئی تھی اور حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ اس سمفنی کے ایک ایک سر کا الگ الگ وجود پہچان سکتا تھا، یہ جامن کی خوشبو ہے، یہ امرود کی، یہ رات کی رانی کے پھولوں  کی، یہ تیل میں تلی ہوئی پوریوں کی، یہ پیاز اور لہسن میں بگھارے ہوئے  آلوؤں کی، یہ مولی کی، یہ ٹماٹر کی، یہ کسی سڑے گلے پھل کی، یہ پیشاب کی، یہ پانی میں بھیگی ہوئی مٹی کی جو غالباً  بانسوں میں کے جھنڈ سے آ رہی ہے۔  وہ ہر بو کی نوعیت، شدت، سمت اور فاصلے تک کا اندازہ کر سکتا ہے، یکایک اسے یہ احساس بھی ہوا اور وہ اس بات پر چونکا بھی کہ کس طرح سے بھوک نے اس منفی قوتوں کو بیدار کر دیا۔ مگر اس امر پر زیادہ غور کئے بغیر اس نے اس طرف گھسٹنا شروع کر دیا، جدھر سے اسے تیل میں تلی ہوئی پوریوں  اور لہسن سے بگھارے ہوئے آلوؤں کی بو آئی تھی، وہ دھیرے دھیرے اندھی گلی کے اندر گھسٹنے لگا، کیونکہ وہ اپنے جسم میں چلنے کی سکت بالکل نہیں  پاتا تھا، پھر اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی دھوبی اس کی آنتوں کو پکڑ کر مروڑ رہا ہے، پھر اس کے نتھنے میں پوریوں اور آلو کی اشتہا انگیز بو آئی اور وہ بے قرار ہو کر ادھ مندھی آنکھوں سے اپنے تقریباً بے جان سے جسم کو ادھر گھسیٹنے کی کوشش کرتا،جدھر سے آلو، پوری کی بو آ رہی تھی، کچھ عرصے  کے بعد جب وہ اس جگہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ مغربی دیوار اور اس کے  سامنے کی پچھواڑے کے پائیوں کے درمیان پچیس تیس فٹ کے فاصلے میں  مستطیل نما کچرے کا ایک بہت بڑا کھلا آہنی ٹب رکھا ہے۔  یہ ٹب کوئی پندرہ فٹ چوڑا ہو گا اور تیس فٹ لمبا اور اس میں طرح طرح کا کوڑا کرکٹ بھرا ہے گلے سٹرے پھلوں کے چھلکوں اور ڈبل روٹیوں کے غلیظ ٹکڑے اور چائے کی پتیاں اور ایک پرانی جیکٹ اور بچوں کے گندے پوتڑے  اور انڈے کے چھلکے اور اخبار کے ٹکڑ اور رسالوں کے پھٹے اوراق اور روٹی کے ٹکڑے اور لوہے کی لونیاں اور پلاسٹک کے ٹوٹے ہوئے کھلونے اور مٹر کے چھلکے اور پودینے کے پتے اور کیلے کی پتّل پر چند ادھ کھائی پوریاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آلو کی بھاجی، پوریوں اور آلو کی بھاجی کو دیکھ کر گویا اس کی آنتیں ابل پڑیں ، اس نے چند لمحوں کے لئے اپنے بے قرار ہاتھ روک لئے، مگر دوسری بدبوؤں کے مقابلے میں اس کے نتھنوں میں اگلے چند ثانیوں تک پوری اور بھاجی کو دیکھ کی اشتہار آمیز خوشبو اسی طرح تیز تر ہو گئی جیسے کسی سمفنی میں یکایک کوئی خاص سر ایک دم اونچے ہو جاتے ہیں  اور یکا یک تہذیب کی آخری دیواریں ڈھے گئیں اور اس کے کانپتے ہوئے بے  قرار ہاتھوں نے کیلے کے اس پتل کو دبوچ لیا اور وہ اک وحشیانہ گرسنگی سے  متاثر ہو کر ان پوریاں پر ٹوٹ پڑا۔  ایرانی رسٹوران والے اس کی عادت کو پہچان گئے تھے، اور اکثر عمارت کی عقبی کھڑکیوں سے اب کوڑے کے علاوہ خوردہ نوش کی دوسری چیزیں بھی پھینکی جاتیں ، صحیح و سالم پوریاں اور بہت سی بھاجی اور گوشت کے ٹکڑے اور ادھ چوسے  آم اور چٹنی اور کباب کے ٹکڑے اور کھیر میں لتھڑے ہوئے پتل، ناؤ نوش کی ہر نعمت کچرا بابا کو اس ٹب میں سے مل جاتی ہیں ، کبھی کبھی کوئی پھٹا ہوا پاجامہ، کوئی ادھڑی ہوئی نیکر، کوئی تار تار شکستہ قمیض پلاسٹک کا گلاس، یہ کچرے کا ٹب کیا تھا، اس کے لئے ایک کھلا بازار تھا، جہاں وہ دن دہاڑے  سب کی آنکھوں کے سامنے مڑ گشت کیا کرتا تھا، جس دکان سے جو سودا چاہتا مفت لیتا تھا، وہ اس بازار کا اس نعمت غیر مترقبہ کا واجد مالک تھا، شروع شروع میں چند گرسنہ بلیوں اور خارش زدہ کتوں نے شدید مزاحمت کی تھی، مگر اس نے مار مار کر سب کو باہر نکال دیا، اور اب اس کچرے کے ٹب کا واجد مالک تھا اور اس کے جق کو سب نے تسلیم کر لیا تھا، مہینے میں  ایک بار میونسپلٹی والے آتے ہیں ، اور اس ٹب کو خالی کر کے چلے جاتے تھے  اور کچرا بابا ان سے کسی طرح کی مزاحمت نہیں کرتا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ دوسرے دن ٹب پھر اسی طرح بھرنا شروع ہو جائے گا اور اس کو اعتقاد تھا کہ اس دنیا سے نیکی ختم ہو سکتی ہے لیکن غلاظت ختم نہیں ہو سکتی رفاقت ختم ہو سکتی ہے، لیکن غلاظت اور گندگی کبھی ختم نہیں ہو سکتی، ساری دنیا سے منہ توڑ کر اس نے جینے کا آخری طریقہ سیکہ لیا تھا۔  مگر یہ بات نہیں ہے کہ اسے باہر کی دنیا کی خبر نہ تھی، جب شہر میں چینی مہنگی ہو جاتی تو مہینوں کچرے کے ٹب میں مٹھائی کے ٹکڑے کی صورت نظر نہیں آتی، جب گندم مہنگی ہو جاتی تو ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا تک نہ ملتا، جب سگریٹ مہنگے ہو تو تو سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑے اتنے چھوٹے  ملتے کہ انہیں سلگا کر پیا بھی نہیں جا سکتا۔  جب بھینگوں نے ہڑتال کی تھی تو مہینے تک اس کے ٹب کی کسی نے صفائی نہیں کی تھی،اور کسی روز اس کو ٹب میں اتنا گوشت نہیں ملتا تھا، جتنا بقر عید کے روز اور دیوالی کے دن تو ٹب کے مختلف کونوں سے مٹھائی کے بہت سے  ٹکڑے مل جاتے تھے۔ کسی طرحانہ رہا، وہ اس زندگی میں  نیا نیا آیا تھا اور بلک بلک کر اپنی بھوک کا اعلان کر رہا تھا، ابھی اسے معلوم نہ تھا کہ غریبی کیا ہوتی ہے، مامتا کس طرح بزدل ہو جاتی ہے، زندگی کسیے ‫حرام بن جاتی ہے، وہ کس طرح ملیے پیکٹ اور غلیظ بنا کچرے کے ٹب میں  ڈال دی جاتی ہے، ابھی اسے یہ سب کچھ معلوم نہ تھا ابھی وہ صرف بھوکا تھا اور رو رو کر اپنے پیٹ پر ہاتھ مار رہا تھا۔  کچرا باب کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیسے اس بچے کو  کرائے اس کے پاس کچھ نہ تھا، نہ دودھ نہ چسنی، اسے تو کوئی لوری بھی یاد نہیں تھی، وہ بے قرار ہو کر بچے کو گود میں لے کر دیکھنے لگا اور تھپتھپانے لگا اور گہری نیند سے رات کے اندھیرے میں چاروں طرف دیکھنے لگا، کہ اس وقت بچے کے لئے دودھ کہاں سے مل سکتا ہے، لیکن جب ا سکی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو اس نے جلدی سے کچرے کے ٹب سے آم کی ایک گٹھلی نکالی اور اس کا دوسرا سرا بچے کے منہ میں دے دیا۔  ادھ کھائے ہوئے آم کا میٹھا میٹھا رس جب بچے کے منہ میں جانے لگا تو وہ روتا روتا  ہو گیا اور  ہوتے ہوتے کچرا بابا کی بانہوں میں سو گیا، آم کی گٹھلی کھسک کر زمین پر جا گری اور اب بچہ اس کی بانہوں میں بے خبر سو رہا تھا، آم کا پیلا پیلا رس ابھی تک اس کے نازک لبوں پر تھا اور اس کے  ننھے سے ہاتھ نے کچرا بابا کا انگوٹھا بڑے زور سے پکڑ رکھا تھا۔  ایک لمحے کے لئے کچرا بابا کے دل میں خیال آیا کہ وہ بچے کو یہیں پھینک کر کہیں بھاگ جائے، دھیرے سے کچرا باب نے اس بچے کے ہاتھ سے اپنے  انگوٹھے کو چھڑانے کی کوشش کی،مگر بچے کی گرفت بڑی مضبوط تھی اور کچرا بابا کا ایسے محسوس ہوا جیسے زندگی نے اسے پھر سے پکڑ لیا ہے، اور دھیرے دھیرے جھٹکوں سے اسے اپنے پاس بلا رہی ہے، یکایک اسے  دلاری کی یاد آ جاتی ہے، اور وہ بچہ جو اس کی کوکھ میں کہیں ضائع ہو گیا تھا اور یکا یک کچرا بابا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، آج سمندر کے پانیوں میں اتنے  قطرے نہ تھے جتنے آنسو اس کی آنکھوں میں تھے، گزشتہ پچیس برسوں میں  جتنی میل اور غلاظت اس کی روح پر جم چکی ہے وہ اس طوفان کے ایک ہی ریلے میں صاف ہو گئی۔  رات بھر کچرا بابا اس نوزائیدہ بچے کو اپنی گود میں لئے بے چین اور بے  قرار ہو کرفت پاتھ پر ٹہلتا رہا اور جب صبح ہوئی اور سورج نکلا تو لوگوں  نے دیکھا کہ کچرا بابا آج کچے کے ٹب کے پاس نہیں ہے، بلکہ سڑک پار نئی تعمیر ہونے والی عمات کے نیچے کھڑا ہو کر اینٹیں ڈھو رہا ہے اور اس عمارت کے قریب گل مہر کے ایک پیٹ کی چھاؤں میں ایک پھولدار کپڑے میں  لپتا اک ننھا بچہ منہ میں دودھ کی چسنی لئے مسکرا رہا ہے۔  

یہ بھی پڑھیں