اس بھیڑ میں برقع اوڑھ کر سارا دن کھڑے رہنا میری مجبوری ہے، مجھے چار بچوں اور بوڑھی ماں کے لیے آٹا لے جانا ہے اور آج چوتھا روز ہے میں خالی ہاتھ گھر واپس چلی جاتی ہوں۔ ‘
یہ الفاظ ہیں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی سمیرا (فرضی نام) کے، جن کا کہنا تھا کہ حالیہ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے اور گھر میں اکثر فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے۔
اس طرح کی ہزاروں خواتین اس رمضان میں مفت آٹے کے حصول کے لیے صوبے کے مختلف پوانٹس پر سارا دن انتظار کرتی ہیں۔ ہاتھوں میں شناختی کارڈ لیے یہ خواتین امید رکھتی ہیں کہ شاید آج انھیں آٹے کا تھیلہ مفت مل جائے گا۔
یہ خواتین ان مردوں کے ہجوم میں ایک کونے پر کھڑی رہتی ہیں کیونکہ آٹا تقسیم ہوتے ہوئے اکثر نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔۔
مفت آٹا تقسیم کرنے والے مقامات پر آٹے کی لوٹ کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شہروں پشاور ڈیرہ اسماعیل خان اور اورکزئی میں لوگ آٹے سے لدے ہوئے ٹرکوں سے سے تھیلے زبردستی اٹھا کر لے گئے۔
پشاور کے علاقے ہزار خوانی میں تو لوگ اتنے مشتعل نظر آئے کہ وہ آٹے کا تھیلہ لانے والے ٹرک پر چڑھ گئے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی آٹے کے حصول کے لیے کھڑے افراد کی اموات اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اکثر جگہوں پر بھگدڑ اور دیواریں گرنے سے خواتین اور بزرگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
اس تحریر میں ہم نے خیبر پختونخوا میں قائم آٹا مراکز پر آنے والے چند شہریوں سے بات کر کے انھیں درپیش مشکالات جاننے کی کوشش کی ہے۔
چار روز سے یہاں آ رہی ہوں لیکن اب تک آٹا نہیں ملا‘
پشاور میں حیات آباد کے سپورٹس کمپلیکس، ہزار خوانی، اشرف روڈ اور دیگر مقامات پر آٹا پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں لیکن اس آٹے کی تقسیم کا کوئی بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے بد انتظامی کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے۔
پشاور کی اشرف روڈ پر ایک مقام پر بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ یہ لوگ سحری کے بعد یہاں پہنچ گئے تھے ان میں بڑی تعداد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین شامل تھیں۔ ایک شخص لوگوں سے شناختی کارڈ جمع کر رہا تھا اور سب لوگ اس پر ایسے چڑھ دوڑے جیسے اسے روند دیں گے۔
ہر مرد اور خاتون کی کوشش تھی کہ اس سے شناختی کارڈ لے لیا جائے لیکن آٹا ڈیلر شناختی کارڈ دیکھتا، کسی کو واپس کر دیتا اور کسی سے لے لیتا تھا۔
ان ہی خواتین میں سمیرا بھی ماجود تھیں، جو مایوس ہو کر ایک طرف کھڑی ہو گئیں کیونکہ ان سے شناختی کارڈ نہیں لیا گیا۔ سمیرا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ چار روز سے یہاں آ رہی ہے لیکن اب تک آٹا نہیں ملا۔
وہ کہتی ہیں ’آپ بتائیں مجھے گھر میں کام کرنے کے آٹھ سے دس ہزار روپے ملتے ہیں، میرے چاروں بچے پڑھ رہے ہیں اور بوڑھی والدہ بیمار ہیں تو میں کیسے بجلی اور گیس کے بل دوں۔ تین ماہ سے گھر کا کرایہ نہیں دے سکی، اس مہینے مالک مکان گھر خالی کرنے کا نوٹس دینے کی دھمکی دے گیا، ایسے میں یہاں مفت آٹا حاصل کرنا میرے بچوں کی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ کم سے کم بچوں کو روٹی تو کھلا سکوں گی۔‘
’برقع اوڑھ کر نکلتی ہوں تو لوگ باتیں کرتے ہیں کہ دیکھو گھر سے باہر جا رہی ہے، کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتی ہوں تو سب کہتے ہیں کوئی کام کیوں نہیں کرتی۔ کام کرتی ہوں تو پھر لوگ باتیں کرتے ہیں۔ اب مجبوراً یہاں مفت آٹے کی لائن میں سارا دن انتظار کرتی ہوں۔‘
وہاں موجود ایک بزرگ خاتون نے کہا کہ وہ جہاں کام کرتی ہیں، وہاں سے چھٹی لے کر بچوں کے ساتھ آئی ہیں لیکن آٹا نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ مفت آٹے کی آڑ میں مارکیٹ میں دستیاب آٹے کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے، جہاں 20 کلو آٹے کا تھیلہ 2800 روپے سے 3000 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
رکشہ چلاؤں یا آٹے کے لیے قطاروں میں انتظار کروں‘
گل زمان رکشہ ڈرائیور ہیں۔ ان کے آٹھ بچے ہیں اور گھر میں آٹا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات انتہائی مشکل ہیں۔ اشرف روڈ پر وہ ان ہزاروں لوگوں کی طرح اس انتظار میں تھے کہ آج شاید انھیں آٹا مل جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آٹا نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں ہم ٹوٹا چاول کھانے پر مجبور ہیں، پانچ روز سے یہاں آ رہا ہوں کہ شاید آج آٹا مل جائے۔‘
’صبح گھر سے نکلتا ہوں تو بیوی بچے کہتے ہیں کہ آٹا ضرور لے آنا، مارکیٹ سے مہنگا آٹا خرید نہیں سکتے، اس مفت آٹے کی آس ہوتی ہے لیکن وہ بھی نہیں مل رہا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں بیوی سے کہتا ہوں تم آٹے کا کہتی ہو، میں رکشہ چلاؤں یا آٹے کے لیے قطاروں میں انتظار کروں، اگر رکشہ نہیں چلاتا تو مزدوری نہیں ہوتی اور اگر رکشہ چلاتا ہوں تو آٹا نہیں ملتا۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ آٹا ڈیلرز اپنے جاننے والوں کو آٹا دے دیتے ہیں یا ملوں سے ہی اس میں بد انتظامی کی جاتی ہے، جس وجہ سے غریبوں کو آٹا نہیں مل پاتا۔
انھوں نے تجویز دی کہ حکومت آٹا سستا کر دے تو سب خرید سکیں گے اور یہ ذلت بھی برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔