تحریریں

سوشل میڈیا ٹرینڈ ‘لہور دا پاوا’ کے ‘اختر لاوا’ کون ہیں، سوشل میڈیا پر کیسے آئے؟

پاکستان میں سوشل میڈیا پر میمز بنانے کا رجحان نا صرف دلچسپ رہا ہے بلکہ اس کی وجہ سے ان میمز کا موضوع بننے والے کرداروں کی زندگیاں بھی بدلتی رہی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ‘پاوری ہو رہی ہے’ کے رجحان سے مقبول ہونے والی دنا نیر ان دنوں شوبز میں کام کر رہی ہیں۔

اسی طرح ان دنوں پاکستان کے میمز بنانے والوں کے ہاتھ ایک نیا موضوع آیا ہے۔ ‘لاہور دا پاوا’ کے نام سے ہیش ٹیگ گذشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس کا مرکز پاکستان کے شہر لاہور کے ایک رہائشی ہیں جن کا نام اختر لاوا ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے سے ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آتی رہی ہیں جن میں وہ اپنے مخصوص جذباتی انداز میں اپنا تعارف کرواتے نظر آتے ہیں۔ وہ مکا گھما کر پنجابی زبان میں یہ لائن بولتے ہیں، ‘لہور دا پاوا، اختر لاوا۔’

سوشل میڈیا نے اب ان کے اس مخصوص انداز اور اس لائن کو رجحان کی شکل دے دی ہے۔ ان کی ویڈیوز کو محض دو دن کے اندر ہی بے شمار میمز میں استعمال کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

زیادہ تر محض مزاح کے تصور کو سامنے رکھتے بنائے گئے ہیں۔ جیسا کہ سپائیڈرمین فلم کے ایک سین کو لے لیجیے۔ اس میں اچھلتے کودتے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے سپائیڈرمین کو جب فلم کی ہیروئین میری جین روک کر پوچھتی ہیں کہ ‘ کون ہو تم؟’

سپائیڈرمین جواب دیتا ہے، ‘لہور دا پاوا، اختر لاوا۔’ اور انتہا اس وقت ہوتی ہے جب اختر لاوا کی روح ہالی ووڈ کی چند آل ٹائم گریٹس فلموں میں شمار ہونے والی گلیڈیئیٹر کے ہیرو رسل کرو میں داخل ہوتی ہے۔

یہ فلم کا وہ سین ہے جہاں کہانی کلائیمیکس کی طرف جاتی ہے۔ رسل کرو یعنی میکسیمس کا گلیڈیئیٹر بننے کے بعد پہلی بار اپنے دشمن اور روم کے شہنشاہ کوموڈس سے سامنا ہوتا ہے۔ میکسیمس کوموڈس کو چیلنج کرتا ہے اور مڑ کر جانے لگتا ہے۔

کوموڈس جاتے ہوئے گلیڈیئیٹر کو آواز دے کر کہتا ہے ‘او غلام، رکو اور ہیلمٹ اتار کر اپنی شناخت کرواو۔’ رسل کرو سلو موشن میں ہیلمٹ اتار کر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور کوموڈس کو جواب دیتے ہیں، ‘لہور دا پاوا، اختر لاوا۔’

بعض میمز میں مزاح کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کی چند پرانی تقاریر پر مبنی ایک ویڈیو کولاج پر بھی اختر لاوا کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ تصویر شہباز شریف کی ہے اور لائینیں اختر لاوا کی۔

شہباز شریف جذباتی انداز میں مائیک گراتے ہیں تو پیچھے ‘لہور دا پاوا، اختر لاوا’ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اختر لاوا ہیں کون ہیں اور ان کی یہ لائن کیسے وجود میں آئی، بی بی سی نے اختر لاوا سے رابطہ کر کے جاننے کی کوشش کی۔

اختر لاوا لہور دا پاوا کیسے اور کب بنے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور کے علاقے گلشن راوی کے رہائشی اختر لاوا نے بتایا کہ ‘لاہور دا پاوا’ کا خیال پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا تھا جب سنہ 2000 میں پہلی مرتبہ انھوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے کونسلر کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

‘میرے مخالف کا انتخابی نشان منجی یعنی چارپائی تھا اور اس وقت میری الیکشن مہم کے دوران بچوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ٹٹ گئی منجی رہ گیا پاوا، اختر لاوا، اختر لاوا۔’

اختر لاوا وہ الیکشن جیت گئے۔ وہ کچھ ہی عرصہ قبل بحرین میں کام کرنے کے بعد واپس پاکستان آئے تھے۔ انھیں سیاست اور سوشل ورک کا شوق تھا لیکن ان کے قریبی دوستوں نے انھیں الیکشن نہ لڑنے کا مشورہ دیا تھا۔

‘وہ کہتے تھے میں ہار جاؤں گا۔ میں نے کہا تم اس کی فکر نہ کرو بس انتظامات کرو۔ ہماری لاوا برادری اس علاقے میں کافی آباد ہے۔ میں انگریزی اور عربی میں تقریر بڑی اچھی کرتا تھا مزاحیہ سی۔ لوگ ہنس ہنس کے پاگل ہو جاتے تھے۔ بس اس طرح میں جیت گیا۔’

اس کے بعد وہ دو الیکشن مزید بھی لڑے اور جیت گئے۔ اختر لاوا کہتے ہیں انھیں لوگوں کی مدد کر کے اچھا لگتا ہے اس لیے وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔

لہور دا پاوا سوشل میڈیا تک کیسے پہنچا؟

‘ٹٹ گئی منجی تے رہ گیا پاوا’ میں سے پاوا انتخابات کے بعد بھی اختر لاوا کے ساتھ رہا۔ کچھ عرصہ قبل یہ ان کی پہچان بن گیا۔

‘میں نے یہ نعرہ خود سے بنایا نہیں ہے، بس یہ بن گیا اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب میں جذباتی ہو جاتا ہوں یا جب میں غصے میں ہوتا ہوں۔’ تو اس وقت وہ اپنے مخصوص انداز میں مکا بنا کر گھماتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں، لہور دا پاوا، اختر لاوا۔’

لگ بھگ چھ ماہ قبل ان کے دوستوں نے انھیں مشورہ دیا کہ یہ سٹائل لے کر وہ اگر موبائل ایپ ٹک ٹاک پر جائیں تو مقبول ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اختر لاوا نے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔

‘لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا اور کچھ ہی مہینوں میں میرے ایک ملین سے زیادہ فالورز ہو گئے تھے۔ اس کے بعد میرا وہ والا اکاؤنٹ بلاک ہو گیا، مجھے غصہ تو بہت آیا تھا لیکن اب کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔ میں نے پھر دوسرا اکاؤنٹ بنا لیا، اس پر بھی لوگوں نے بہت پسند کیا۔’

یوں اختر لاوا باقاعدہ طور پر لہور دا پاوا بن گئے۔ اور اب میمز کے ذریعے وہ اپنے محدود حلقے سے نکل کر دنیا بھر میں پہنچ چکے ہیں۔

‘شہرت کو بھرپور طریقے سے انجوائے کر رہا ہوں’

ادھیڑ عمر، طویل قامت اختر لاوا ایک عوامی شخصیت ہیں۔ وہ اپنی خوش گپیوں کے لیے اپنے حلقہ احباب میں مقبول ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے میمز وائرل ہونے کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا ان کے ہاں تانتا بندھا ہے۔

انھیں انٹرویوز کے لیے انتی زیادہ کالز موصول ہر رہی ہیں کہ انھیں ایک کوآرڈینیٹر رکھنا پڑا۔ ‘میں اب آپ کو کیا بتاوں، اللہ نے بہت عزت دی ہے۔ اس وقت بھی کوئی چالیس کے قریب لوگ میرا انٹرویو کرنے کے لیے کھڑے ہیں۔ کل سے کئی ٹی وی پروگرامز میں جا چکا ہوں۔’

اختر لاوہ کہتے ہیں وہ بحرین میں محنت مزدوری کرتے تھے جب انھیں وہاں ایک بڑی کاروباری شخصیت شیخ کے پاس نوکری کرنے کا موقع ملا۔ وہیں سے انھوں نے جمع پونجی لی اور سنہ 2000 میں واپس پاکستان آ گئے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اختر لاوا سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں سامنے آئے۔ کچھ عرصہ قبل ان کی بظاہر پولیس کی تحویل سے ایک ویڈیو سامنے آئی تھی۔ یہی ویڈیو ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے۔

‘جو جیل کی سختی کاٹی، اس ہی کے بدلے آج مجھے یہ عزت مل رہی ہے’

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اس ویڈیو کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اختر لاوا نے بتایا کہ اس وقت کا واقعہ ہے جب توہین رسالت کے معاملے پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے فرانس کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔

’میں بھی ایک جگہ سے گزر رہا تھا، مجھے لوگوں نے بتایا کہ اس طرح فرانس نے توہین کی ہے تو میں بھی ان کے ساتھ احتجاج میں شریک ہو گیا اور میں نے نعرے لگائے۔ وہاں کیمرہ لگا ہوا تھا تو میری ویڈیو آ گئی۔ اگلے دن پولیس آئی اور مجھے اٹھا کر لے گئی۔‘

اختر لاوا کے مطابق پولیس نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا جس میں ان سے کہا کہ وہ مذہبی جماعت پر پابندی عائد کرنے کی بات کریں اور پولیس کی تعریف کریں۔

’اس کے بعد انھوں نے مجھے جیل بھی بھیج دیا۔ میں ڈیڑھ ماہ تک جیل میں رہا اور پھر باہر آ گیا۔‘

لاہور پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ اختر لاوا کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کے الزام میں پولیس کو مطلوب ہیں۔

اختر لاوا کو ٹک ٹاک پر اپنے فالوورز کھونے کا دکھ تھا لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ ‘میں نے بڑے بڑے ٹک ٹاکرز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے

مستقبل میں بھی بس لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں’

اختر لاوا کہتے ہیں کہ وہ خود بھی وہ میمز دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں جن میں ان کی ویڈیوز استعمال کی جا رہی ہیں۔ انھیں اچھا لگ رہا ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کی تفریح کا سبب بن رہے ہیں۔

‘میری کوشش رہتی ہے کہ میں لوگوں کو ہنساتا رہوں اور ان کی خوشی کا سبب بنوں۔ میں لوگوں کی ہر ممکن مدد کرتا ہوں۔ میں نے بیوہ خواتین کو گھروں کے قبضے بھی چھڑوا کر دیے ہوئے ہیں۔’

اختر لاوا شہرت پانے کے بعد سیاست میں مزید آگے جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کے خیال میں وہ وہی کام اچھی طرح کر سکتے ہیں جو وہ پہلے ہی سے کر رہے ہیں۔

‘میں بڑی سیاست میں جاؤں گا تو میں بھی کرپشن کروں گا اور یہ میں نے نہیں کرنا۔ اس لیے میں ادھر ہی ٹھیک ہوں اور میں چاہتا ہوں کے اسی طرح لوگوں کی مدد کرتا رہوں۔’

تاہم یہ آئندہ کے سوال ہیں۔ اس وقت وہ اس مقبولیت کا لطف لے رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے انھیں مل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں