اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔
عدالت نے اسی مقدمے میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی سات برس قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے اور القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔
یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا جو تین مرتبہ موخر کیے جانے کے بعد جمعے کو اڈیالہ جیل میں سنایا گیا۔
جب جج کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا تو عمران خان، بشریٰ بی بی اور تحریک انصاف کی قیادت کمرۂ عدالت میں موجود تھی۔
عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاونڈز یا القادر ٹرسٹ کیس اس 450 کینال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔
قومی احتساب بیورو کا الزام ہے کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک مبینہ خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔
اس کا الزام ہے کہ جو 190 ملین پاؤنڈز کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس سوسائٹی کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔
تاہم عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر ملزمان خود پر عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
’ناقابل تردید شواہد‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران پراسیکیوشن یعنی استغاثہ کی جانب سے جو گواہان پیش کیے گئے، ملزمان کے وکلا یعنی عمران خان اور بشری بی بی کی دفاعی ٹیم انھیں جھٹلا نہیں سکی۔
فیصلے کے مطابق ’استغاثہ کا مقدمہ بنیادی طور پر دستاویزی شواہد کے گرد بنا گیا تھا جسے ناقابل تردید شواہد کی مدد سے عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف کامیابی سے ٹھوس اور جامع انداز میں ثابت کیا گیا۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ ’چند گواہان کو طویل جرح کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کے باوجود ان کی ساکھ کو متاثر نہیں کیا جا سکا اور ان کے بیانات میں تسلسل اور ہم آہنگی دیکھی گئی۔‘
تاہم عدالت نے کہا کہ ’پراسیکیوشن کے شواہد میں چند تضادات موجود ہو سکتے ہیں جو ایسے وائٹ کالر جرم میں فطری ہوتے ہیں۔‘
عدالت کے مطابق ’متعدد مواقع ملنے کے باوجود وکیل دفاع پراسیکیوشن کے مقدمے میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہے۔‘
190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی سمیت 8 افراد کے خلاف 190 ملین برطانوی پاؤنڈ یا القادر ٹرسٹ کا ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں یکم دسمبر 2023 میں دائر کیا گیا تھا۔
آٹھ میں سے دو ملزمان یعنی عمران خان اور ان کی اہلیہ پر اس مقدمے میں فردِ جرم 27 فروری 2024 میں عائد کی گئی تھی اور دونوں نے صحتِ جرم سے انکار کیا تھا۔
نیب حکام کے مطابق احتساب عدالت کی جانب سے اس مقدمے میں پانچ ملزمان کو اشتہاری بھی قرار دیا گیا ہے جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر، سابق وزیر زلفی بخاری، نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے سربراہ ملک ریاض، اُن کے بیٹے اور بشری بی بی کی دوست فرح شہزادی شامل ہیں۔ عدالت نے اُن کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں اور ان کی پاکستان میں جائیدادیں قرق کرنے کا بھی حکم دے رکھا ہے۔
اس مقدمے کی احتساب عدالت میں سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو یعنی نیب کی جانب سے مجموعی طور پر 35 گواہان کو پیش کیا گیا تھا جن میں عمران خان کی کابینہ میں شامل دو وفاقی وزرا پرویز خٹک اور زبیدہ جلال بھی شامل تھیں۔
قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر پنجاب کے شہر جہلم میں واقع سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا تھا، نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہے تھے
یاد رہے کہ یہ وہی کیس ہے جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر احتساب عدالت کی جانب سے اس کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت مسترد ہوئی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے دس لاکھ روپے مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی تھی۔
عمران خان سمیت ملزمان پر کیا الزامات ہیں؟
سابق وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاونڈ یا القادر ٹرسٹ کیس اس 450 کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔
یہ معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب سنہ 2019 میں سابق وفاقی وزیر فیصل ووڈا سے منسوب ایک بیان میڈیا کی زینت بنا کہ کابینہ کے اجلاس میں ایک ایسے معاملے کی منظوری لی گئی ہے جس کے بارے میں کابینہ کے ارکان کو پہلے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور ایک بند لفافے میں برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی اور حکومت پاکستان کے درمیان طے پانے والے والے ایک معاہدے کے بارے میں اس وقت کے احتساب سے متعلق عمران حان کے مشیر شہزاد اکبر نے کابینہ کے ارکان کو زبانی طور پر آگاہ کیا تھا۔
فیصل ووڈا کے بقول اس معاملے پر اُس وقت وفاقی کابینہ میں موجود فواد چوہدری اور شیریں مزاری نے بھی سوالات اٹھائے تھے۔
یاد رہے کہ کیبنٹ ڈویژن کے رولز کے مطابق وفاقی کابینہ میں کوئی بھی معاملہ زیر بحث لانے سے سات روز قبل اسے سرکولیٹ کرنا ہوتا ہے اور نیب حکام کی جانب سے اس ضمن میں جو احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا اس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ وہ کیا جلدی تھی کہ اس معاملے کو سات دن پہلے کا بینہ ممبران کو سرکولیٹ نہیں کیا گیا؟
قومی احتساب بیورو کا الزام ہے کہ ’یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک مبینہ خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے جس کے تحت نجی ہاوسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس سو سائٹی کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔ پھر اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ مبینہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔‘
عمران خان اور دیگر ملزمان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
اس یونیورسٹی کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس مبینہ خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔
نیب کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں چھ نومبر 2019 کو برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ ڈیڈ سائن کی جبکہ رقم کی پہلی قسط 29 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آ چکی تھی جبکہ وفاقی کابینہ سے اس ڈیڈ کی منظوری تین دسمبر 2019 کو لی گئی اور وفاقی کابینہ کو یہ تک نہیں بتایا گیا تھا کہ پہلی قسط پاکستان پہنچ چکی ہے۔
نیب حکام کے مطابق پاکستان کے ایسٹ ریکوری یونٹ، جس کی سربراہی شہزاد اکبر کر رہے تھے اور نیشنل کرائم ایجنسی کے درمیان بات چیت 2018 سے جاری تھی اور معاملات پر مبینہ طور پر پردہ ڈالنے کے لیے بعد میں کابینہ سے منظوری لی گئی۔
نیب حکام کے مطابق ملک کا کوئی قانون یہ نہیں کہتا کہ نیشنل کرائم ایجنسی اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے درمیان سائن ہونے والی ڈیڈ کو پبلک نہیں کیا جائے گا۔
عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف دائر اس ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے یہ پیسے وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منگوائے گئے۔
اس ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم عمران خان نے بطور وزیراعظم فیور دی جس کے بدلے میں ڈونیشن (عطیہ) ملا۔
انھوں نے کہا کہ ’نیب آرڈیننس کے تحت اگر معاملہ پبلک افس ہولڈر کے پاس زیر التوا ہو تو اس شخص سے کوئی بھی چیز لینا رشوت کے زمرے میں آتا ہے۔‘
اس ریفرنس میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ بشری بی بی کی دوست ملزمہ فرح شہزادی کے نام پر بھی 240 کنال اراضی ٹرانسفر ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس مقدمے کے ایک اور ملزم زلفی بخاری کے نام پر بھی جب زمین ٹرانسفر ہوئی تو اس وقت بھی ٹرسٹ کا وجود تک نہیں تھا۔
تحریک انصاف کا موقف کیا ہے؟
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور اس کیس میں پیش ہونے والی وکلا اس ریفرنس کو ‘سیاسی مقدمہ’ قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ملک کے قانون میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ جس رقم سے متعلق ریفرنس بنایا گیا وہ عمران خان کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی بلکہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود ہے اور حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ یہ رقم وہاں سے سرکاری خزانے میں جمع کرواسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کو جو رقم موصول ہوئی وہ 190 ملین پاونڈ نہیں بلکہ 171 ملین پاؤنڈ تھی۔
اس مقدمے سے قبل عمران خان کے خلاف ایک درجن سے زائد مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسلام آباد میں درج ہونے والے فوجداری کے چھ سے زیادہ مقدمات میں انھیں بری کیا گیا ہے جبکہ سائفر اور عدت کے دوران نکاح کے مقدمے میں بھی سابق وزیر اعظم کی بریت ہو چکی ہے۔
الیکشن کمیشن کے انتخابی گوشواروں میں حقائق چھپانے کے علاوہ توشہ خانہ ون کے مقدمے میں بھی عمران خان کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مقدمات میں عمران خان کی ضمانتیں بعد از گرفتاری تو منظور کر کے ان کی سزائیں تو معطل کر رکھی ہیں لیکن ان مقدمات میں عمران خان کا جرم ابھی تک ختم نہیں کیا۔
’پیسہ بزنس ٹائیکون کا اور ٹرسٹی میاں بیوی‘
دوسری طرف وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے 190 ملین پاؤنڈز کیس کو ’میگا کرپشن سکینڈل‘ قرار دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ ’یہ کیسا ٹرسٹ ہے جس کا پیسہ بزنس ٹائیکون (ملک ریاض) کا اور ٹرسٹی میاں بیوی بن رہے ہیں۔‘
جمعرات کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی طرف سے ملنے والی یہ رقم ’پاکستان اور پاکستان کے عوام کی امانت تھی۔۔۔ جیسے ہی یہ پیسہ (پاکستان) آیا تو وہاں سے ملی بھگت اور کرپشن کی کہانی شروع ہوئی۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ یہ رقم ’اسی پراپرٹی ٹائیکون سے 190 ملین پائونڈ کے عوض آئی۔۔۔ یہ کیسا ٹرسٹ ہے جس کا پیسہ بزنس ٹائیکون کا اور ٹرسٹی میاں بیوی بن رہے ہیں۔‘
وہ پوچھتے ہیں کہ ’کابینہ سے بند لفافہ منظور کروا کر پاکستانی قوم کو اتنا بڑا ٹیکہ لگانے کا آپ کے پاس کیا جواز تھا؟‘