مکہ یا مدینہ میں اسلام کی آمد سے قبل بھی روزہ رکھنے کا رواج تھا لیکن اس کے قواعد و ضوابط ویسے نہیں تھے جو اسلام کی جانب سے دیے گئے۔
اگرچہ پیغمبر اسلام روزے رکھتے تھے لیکن اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر 30 دن روزے رکھنا لازم نہیں تھا۔
روزے اسلام میں سنہ دو ہجری یعنی پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوسرے سال فرض قرار دیے گئے جس کے بعد سے پوری دنیا میں مسلمان روزہ رکھتے آ رہے ہیں۔
مسلمانوں کے علاوہ روزے کی طرح پورا دن فاقہ کرنے کا مذہبی عمل یہودیوں اور دیگر کئی مذہبی گروہوں میں بھی موجود ہے لیکن روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور باقی چار بالترتیب توحید، نماز، زکوٰۃ اور حج ہیں۔
سوال یہ ہے کہ روزہ کب اور کیسے اسلام کا بنیادی رکن بنا؟
جس سال روزے فرض کیے گئے اس سے دو سال قبل یعنی سنہ 622 عیسوی میں پیغمبر اسلام نے صحابہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی اور ہجرت کے برس سے اسلامی سال کی گنتی شروع ہوئی۔
اسلامی ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ دو ہجری میں رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے کو لازم قرار دینے کی آیات نازل ہوئی تھیں۔
روزے کی روایت پہلے سے موجود تھی
ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تعلیم کے پروفیسر ڈاکٹر شمس العالم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا قرآن کی جس آیت میں روزہ فرض کیا گیا اس میں ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ایسے ہی لازم ہے جیسے کے ماضی کی قوموں پر فرض تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کا مطلب واضح ہے کہ اسلام سے قبل بھی مختلف مذاہب اور اقوام میں روزہ رکھنے کی روایت موجود تھی تاہم اس کی شکل مختلف تھی جیسے کہ یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اب بھی روزہ رکھتے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل مکہ اور مدینہ میں لوگ مخصوص تاریخوں پر روزہ رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی لوگ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے جبکہ کچھ ہر قمری ماہ کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو بھی روزے رکھے جاتے تھے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ اور ثقافت کے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمان میاجی نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’دوسرے انبیا پر بھی روزہ فرض تھا لیکن یہ مدت ایک ماہ تک کی نہیں تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پیغمبر اسلام نے بھی مکہ میں قیام کے دوران ہر قمری مہینے میں تین دن روزے رکھے۔ یہ سال میں 36 دن بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کی روایت پہلے سے موجود تھی۔‘
انھوں نے اسلامی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت آدم کے زمانے میں مہینے میں تین دن روزے رکھے جاتے تھے جبکہ حضرت موسیٰ نے ابتدا میں 30 دن تک کوہِ طور پر روزے رکھے تھے۔ بعد میں مزید دس دن کا اضافہ کرتے ہوئے انھوں نے لگاتار 40 روزے رکھے۔
اسلامک فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو صالح پٹواری نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’پہلے انبیا پر 30 دن کا روزہ رکھنا فرض نہیں تھا۔ کچھ انبیا پر عاشورہ کا روزہ فرض تھا جبکہ کچھ پر ہر قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ فرض تھا۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں کہ پیغمبر اسلام مکہ میں قیام کے دوران روزہ رکھتے تھے۔
مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ مدینہ والے عاشورہ یعنی محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے پوچھا کہ تم روزہ کیوں رکھتے ہو؟ ان لوگوں کا جواب تھا کہ اس دن خدا نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے چنگل سے آزاد کیا۔ اس لیے ہم روزہ رکھتے ہیں۔
حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا لیکن 30 دن کے روزے صرف پیغمبر اسلام کے دور میں فرض کیے گئے تھے۔
ڈاکٹر محمد ابو صالح پٹواری بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو بطور نفل روزہ رکھتے تھے۔
ڈاکٹر پٹواری کہتے ہیں کہ ’پیغمبر اسلام نے یہ روزے نفل کے طور پر رکھے تھے یعنی اپنی مرضی سے۔ دوسرے ہجری سال سے پہلے فرض کے طور پر کوئی روزہ نہیں رکھا تھا۔‘
دو سنہ ہجری یا 624 عیسوی میں قرآن کی آیت کے ذریعے مسلمانوں پر روزے فرض کیے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ کسی خاص واقعہ یا حالات کی وجہ سے فرض نہیں کیا گیا بلکہ اسے مذہب کے بنیادی رکن کے طور پر نافذ کیا گیا۔
ڈاکٹر پٹواری کے مطابق اسلام کی آمد کے بعد جب تک پیغمبرِ اسلام مکہ میں رہے، وحی میں عقیدے، ایمان، توحید جیسے موضوعات کو اہمیت دی گئی جبکہ ہجرت کے بعد مدینے میں نازل ہونے والی سورتوں میں مذہب کے قواعد بتائے گئے اور روزہ ان میں سے ایک تھا۔
روزے میں تبدیلی
اسلامک فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو صالح پٹواری کا کہنا ہے کہ ‘ابتدائی دنوں میں روزے کو بتدریج قابل برداشت بنایا گیا تھا، اگر کوئی شخص تمام فرض روزے نہیں رکھ پاتا تو وہ اس کا کفارہ ادا کر سکتا تھا یعنی ہر ترک کیے جانے والے روزے کے بدلے وہ غریب اور مستحق افراد کو ایک خاص رقم یا خوراک دے سکتا تھا۔