یہ پارسل ایک سادہ سے گتے کے ڈبے میں لندن کے وسط میں ایک مائننگ ایجنسی ’ایس نیومن اینڈ کمپنی‘ کو بھیجا گیا تھا اور اس کا وزن فقط ایک پاؤنڈ (تقریباً 500 گرام) تھا۔
اگرچہ دکھنے میں یہ بہت عام سا پارسل تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل بھی کوئی عام پارسل نہیں تھا۔
یہ اپریل 1905 کا واقعہ ہے جب جنوبی افریقہ میں پریمیئر مائن کے مینیجر زیر زمین معمول کا معائنہ کر رہے تھے جب انھوں نے اپنے سر کے اوپر کھردری دیوار میں منعکس ہوتی روشنی کی جھلک دیکھی۔ انھیں لگا کہ یہ شیشے کا ایک بڑا ٹکڑا ہے جسے اُن کے ساتھیوں نے مذاق کے طور پر وہاں گاڑھ دیا ہو گا۔
انھوں نے جیب سے چاقو نکلا، اور تھوڑا سا ہی کھودنے کے بعد چاقو ٹوٹ گیا۔ آخر کار اس پتھر کو کامیابی سے نکال لیا گیا لیکن بعد میں اس کے ایک حقیقی ہیرا ہونے کا انکشاف ہوا۔
یہ ایک بہت بڑا 3106 قیراط کا ہیرا تھا۔۔۔ تقریباً ایک مٹھی کے سائز کے برابر۔ یہ نہ صرف بہت بڑا تھا بلکہ غیر معمولی طور پر شفاف بھی تھا۔
بعد میں اس ہیرے کا نام ’کلینن‘ پڑا جو دریافت ہونے والا دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا ہیرا ہے۔ ایک بار جب اسے پالش کر کے کئی اور پتھروں میں جوڑا گیا تو یہ کہکشاں میں ستارے کی طرح چمکنے لگا۔ اسی لیے اس پتھر ’کلینن اول‘ کو ’افریقہ کے عظیم ستارے‘ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
دریافت کے لگ بھگ 120 سال بعد بھی اس بڑے ہیرے کو بھلایا نہیں جا سکا۔ ملکہ الزبتھ دوم کے جنازے کے دوران، کلینن سے تراش کر بنائے گئے کئی ہیروں کو ان کے تابوت پر رکھا گیا اور انھیں صرف تب ہٹایا گیا جب ملکہ کو شاہی والٹ میں اُتارا جا رہا تھا یعنی ان کی تدفین ہو رہی تھی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج یہ دیو ہیکل جواہرات شاہی جواہرات کا حصہ ہیں جنھیں عام طور پر ٹاور آف لندن میں رکھا جاتا ہے اور ریاستی تقریبات کے لیے باہر لایا جاتا ہے۔ کلینن اول اب برطانوی بادشاہ کے عصا میں جڑا ہے، جب کہ اس سے تراش کر بنایا گیا کلینن دوم شاہی تاج میں جڑا ہے۔
تاہم اس کھردرے ہیرے نے تاریخ میں اپنی جگہ تو بعد میں بنائی اس سے قبل اسے بیچنے کی ضرورت تھی جس کے لیے لندن کو منتخب کیا گیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ بنا کہ آپ اتنے قیمتی پتھر کو چوروں اور لٹیروں سے بچاتے ہوئے کس طرح 7,926 میل (12,755 کلومیٹر) دور مقام تک منتقل کریں گے؟
چڑھائے، اور آلے سے نیچے جھانکا۔ اس کے نیچے ایک اخروٹ کی جسامت کا ہیرا تھا جس کی قیمت تقریباً ایک چھوٹے ملک کے برابر تھی۔ یہ 124 قیراط کا ہیرا ایک حیرت انگیز چمک لیے ہوئے تھا۔
اس مقام تک پہنچنے کے لیے سمتھ نے پہلے ہی کئی قسم کی سکیورٹی کلیئر کی تھی۔ آئیرس سکین اور شناخت کی جانچ، اس کے بعد بند دروازوں، محفوظ لفٹوں اور پراسرار محدود راہداریوں سے گزرنے کے بعد وہ اس کمرے تک پہنچے جہاں وہ کام کر رہے تھے۔ جس وقت وہ کام کر رہے ہوتے ہیں، وہاں چوکس سکیورٹی گارڈز اس کمرے میں لگے ویڈیو کیمروں سے یہاں کی لائیو ویڈیو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
سمتھ جو جی آئی اے کے ایک سینیئر ریسرچ سائنسدان ہیں، ہمارے سیارے کے اندرونی حصے سے آنے والے ہیرے کے اس علاقے کا حصہ بننے اور کیمیائی تبدیلیوں کی جانچ کر رہے تھے جو یہ ظاہر کر سکتی ہیں کہ کرسٹل کیسے اور کن حالات میں بنتا ہے۔
لیکن زیادہ قیمت والے ہیروں پر کام کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ عام طور پر محققین کے لیے سب سے بڑے نمونوں تک رسائی ناممکن ہے۔ یہ ہیرے بعض اوقات ممکنہ گاہکوں سے ملنے کے لیے پوری دنیا کا سفر کرتے ہیں مگر افسوس کبھی سائنسدان سے ملنے نہیں آتے۔
یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں معدنیات پر تحقیق کرنے والی پروفیسر مایا کوپیلووا کہتی ہیں کہ ’کسی بھی ہیرے کے نمونے حاصل کرنا مشکل ہے اور وہ جن ہیروں کے ساتھ کام کرتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کو شاید پھینک دیا جاتا۔‘
سمتھ جو جی آئی اے کے ایک سینیئر ریسرچ سائنسدان ہیں، ہمارے سیارے کے اندرونی حصے سے آنے والے ہیرے کے اس علاقے کا حصہ بننے اور کیمیائی تبدیلیوں کی جانچ کر رہے تھے جو یہ ظاہر کر سکتی ہیں کہ کرسٹل کیسے اور کن حالات میں بنتا ہے۔
لیکن زیادہ قیمت والے ہیروں پر کام کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ عام طور پر محققین کے لیے سب سے بڑے نمونوں تک رسائی ناممکن ہے۔ یہ ہیرے بعض اوقات ممکنہ گاہکوں سے ملنے کے لیے پوری دنیا کا سفر کرتے ہیں مگر افسوس کبھی سائنسدان سے ملنے نہیں آتے۔