تحریریں

ڈرامہ ’بخت آور‘ میں اکیلے رہنے والی خواتین کی مشکلات: ’لڑکی اکیلی رہے یا کئی خواتین ایک ساتھ، لوگ طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں‘

اکیلے آدمی کو تو کرائے پر گھر دے دیتے ہیں لیکن عورت کو نہیں۔ کافی لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ اکیلے رہتے ہیں تو مردوں سے پہلے آپ کے بارے میں عورتیں باتیں بنائیں گی ۔مثلاً یہ اکیلے رہتی ہے، یہ صحیح نہیں، یہاں کون آ رہا ہے، کون جا رہا ہے۔۔۔‘

پاکستان کے پدرسری معاشرے میں خواتین کے لیے دیگر بہت سی مشکلات کے ساتھ اکیلے رہنا اور کرائے کے مکان کا حصول بھی خاصا مشکل ہے اور پاکستانی چینل ہم ٹی وی پر شروع ہونے والے ایک نئے ڈرامے میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

ہم ٹی وی کے ڈرامے ’بخت آور‘ کی کہانی بختاور نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جسے اداکارہ یمنیٰ زیدی نے ادا کیا ہے۔

بختاور کے والد جوئے کی بازی ہارنے کے بعد اُس کی بڑی بہن کی شادی ایک بڑی عمر کے شخص سے کرا دیتے ہیں اور پھر وہ خود گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ چھوٹا بھائی معذوری کی حالت میں بستر پر پڑے پڑے فوت ہو جاتا ہے جبکہ چچا جیسے قریبی رشتہ دار بختاور کی ماں سے مالی کفالت کے بدلے اپنے ذہنی معذور بیٹے کے لیے بختاور کا رشتہ مانگتے ہیں۔

اس صورتحال سے تنگ آ کر تعلیم حاصل کر کے اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی خواہاں بختاور ایک دوست کی مدد سے اپنی ماں کے ساتھ شہر بھاگ جاتی ہے۔

اس کے بعد بختاور کو پہلی بار اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا تو مردوں کی ہے جس میں مردوں کے بغیر دو عورتوں کا گزارہ مشکل ہے۔ نوکری اور سر چھپانے کے لیے کرائِے کے گھر کی تلاش کے دوران چند خوفناک واقعات بختاور کو مردانہ حُلیہ اپنانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

’لڑکی اکیلی رہے یا کئی عورتیں ایک ساتھ، لوگ طعنے دیتے ہیں‘

ڈرامہ سیریل ’بخت آور‘ کی مصنفہ نادیہ اختر کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی مختلف حقیقی کرداروں اور سچے واقعات پر مبنی ہے جس میں کچھ ذاتی زندگی اور کچھ دوستوں کے تجربات شامل ہیں جبکہ کچھ مواد میڈیا کلپس سے مستعار لیے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2018 میں ایک چینل بی بی سی پر ہی چلنے والا ایک کلپ لے کر آیا تھا جس میں فیصل آباد سے ایک غیر تعلیم یافتہ لڑکی اپنے والد کے انتقال کے بعد گھر میں کوئی مرد نہ ہونے کی وجہ سے لڑکا بن کر کھوکھا (دکان) چلا رہی تھی۔‘

نادیہ اختر نے اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا گھرانہ صرف عورتوں پر مشتمل ہے جو سب پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ اچھے شعبوں میں کام بھی کر رہی ہیں۔

وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمیں اگر اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بھی جا کر رہنا پڑتا تھا تو کچھ لوگ ہمیں کہتے تھے کہ اوہ اچھا آپ کے ساتھ کوئی نہیں؟ اکیلی ماں بہنیں ہیں! معاہدہ کس کے نام سے بنائیں کوئی مرد نہیں؟‘

کراچی کی 50 سالہ وکیلہ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ ان کے والدین بہت پہلے فوت ہو گئے۔ وہ اور اُن کی چھوٹی بہن کا واحد سہارا اُن کے بھائی تھے لیکن دس سال پہلے وہ بھی ایک موذی بیماری میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے چل بسے۔ جس کے بعد بھابھی نے بھی میکے کا رُخ کیا اور اب وکیلہ اپنی بہن سمیت بھائی کی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کی واحد کفیل ہیں۔

وکیلہ کے والدین نے ورثے میں ایک چھوٹا سا گھر چھوڑا جس کا ایک حصہ کرائے پر چڑھا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’کبھی کبھی کرایہ لینے میں بہت پریشانی ہوتی ہے۔ لوگوں کو اپنی بات سمجھانے میں بھی مشکل پیش آتی ہے کیونکہ جو مرد مرد سے بات کرتا ہے اُس کی بات ہی الگ ہوتی ہے لیکن ہم کافی بولڈ ہو کر بات کرتے ہیں تو وہ سُن اور مان لیتے ہیں۔‘

تو حد یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ہمیں ملکیت سمجھنے لگتے ہیں۔‘

نادیہ نے ایک اور قصہ بیان کیا کہ ’ہم نے ریستوران میں ویٹر یا ریسیپشن پر کام کرنے والی لڑکیوں سے بھی بات چیت کی۔ ایک نےمجھے بتایا کہ وہ ڈائیوو ہوسٹس تھی اور اب فائیو سٹار ہوٹل میں کام کر رہی ہے لیکن کوئی فرق نہیں۔ یہاں زیادہ پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں اور کارڈ دے جاتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ اکثر ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ ہم اچھے بیک گراؤنڈ کی نہیں یا یہ کام اچھا نہیں۔‘

حُلیے کی تبدیلی اور مزاج میں سختی’

نادیہ اختر کے خیال میں مردوں کے معاشرے میں جینے کے لیے عورتوں کو اپنا رویہ، مزاج اور حُلیہ سب تبدیل کرنا پڑ جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’عورت زندگی میں جتنی سختیاں جھیلتی ہے، جتنی تکلیفیں اُس کو اٹھانی پڑتی ہیں، وہ اُتنا ہی بولڈ ہوتی جاتی ہے۔ نزاکت، دھیما انداز اور حُلیہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ آپ چاہنے لگتے ہیں کہ آپ خوبصورت نہ لگیں اور لوگ آپ کو نہ دیکھیں!’

وکیلہ نے انتہائی سادہ سے انداز میں کہا کہ ’ہم نے تو بس زندگی کاٹی ہے۔ اپنے اندر شوخ وچنچل پن ختم کرنا پڑا۔ جب آپ پر ذمہ داریاں ہوں تو بننا سنورنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی نظر عجیب ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مجھے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں شروع سے چادر لیتی تھی۔ پھر میں نے عبایا پہننا شروع کر دیا۔‘

صدف کہتی ہیں کہ ’آپ کو دِکھانا پڑتا ہے کہ آپ سخت مزاج ہیں، مضبوط اور اپنی بات پر ڈٹ جانے والی ہیں۔ خالی دِکھانا ہی نہیں پڑتا بلکہ آپ کو سخت بن جانا پڑتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے آپ بالکل ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔ آپ اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی کیا سوچتا ہے۔‘

’معاشرے کے اِن رویوں کو کیسے تبدیل کیا جائے‘

ایم ڈی پروڈکشن ہاؤس کی سربراہ اور پروڈیوسر مومنہ درید کے بارے میں اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ خواتین کے بااختیار بننے کے سفر میں آنے والی مشکلات اور ان کی جدوجہد جیسی کہانیوں پر اکثر رسک لینے کو تیار رہتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال ڈرامہ سیریل ’بخت آور‘ ہے۔

اسی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ڈرامہ نگار نادیہ اختر نے کہا کہ ’ہمارا کام ہے کہ ہم ہر مسئلے کو تھوڑا تھوڑا ہائی لائٹ کرتے رہیں۔ دیکھیں ہم ساس کا ظلم بھی تو دِکھا رہے ہیں ناں! پہلے اس پر بات نہیں ہوتی تھی اور ساس کی ہر بات ماننے کو اچھا سمجھا جاتا تھا۔‘

صدف اور وکیلہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ آپ کی مالی پوزیشن بہتر ہو تو بہت سے کام آسان ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں