تحریریں

دا لیجنڈ آف مولا جٹ: ’سواد آ گیا سوہنیا‘

سلطان راہی کی فلم ’مولا جٹ‘ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی فلموں میں سے ایک ہے۔ چاہے آپ نے مولا جٹ دیکھی ہے یا نہیں، اس فلم کے کردار اور ڈائیلاگ 40 سال گزرنے کے باوجود بھی آپ کے ذہن کے کسی نہ کسی کونے میں بسے ہوں گے۔

اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آپ نے ’نوا آیا اے سوہنیا‘ کہا یا کسی کو کہتے ہوئے سنا ضرور ہو گا۔

شائقین کے ذہنوں پر ایسا نقش چھوڑ جانے والی فلمیں اکا دکا ہی بنتی ہیں۔ توپھر ایسی فلم کو نئے اداکاروں کے ساتھ دوبارہ بنانے کا سوچنا یا تو بہادری ہے یا سراسر بے وقوفی۔

مجھے حال ہی میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ دیکھنے کا موقع ملا، جسے دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ فلم بے وقوفی کے زمرے میں تو ہرگز نہیں آتی۔

جب میں فلم دیکھ کر باہر آیا تو سنیما ہال کے عملے نے بتایا کہ ان کے خیال میں نئی والی ’مولا جٹ‘ انگریزی اور انڈین فلموں کی ٹکر کی ہے۔

موجودہ دور میں لوگ عام طور پر صرف ’پیسہ وصول‘ فلمیں دیکھنے ہی سنیما جاتے ہیں اور کم از کم میری زندگی میں ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘سے زیادہ پیسہ وصول پاکستانی فلم نہیں بنی۔کہانی کے اعتبار سے مولا جٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی۔ یہ فلم اب بھی جٹوں اور نتوں کی دشمنی کی کہانی ہے۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف مولا جٹ کی لڑائی کا قصہ ہے۔

ہاں البتہ ڈھائی گھنٹے کی اس فلم میں کہانی سنانے کا طریقہ نیا اور دور پرانا ہے۔ شروع سے ہی اس میں ہالی وڈ کی کچھ ماڈرن کلاسک فلموں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

کبھی مولا جٹ میں اپنے ماں باپ کو بچپن میں کھو دینے والا ’بیٹ مین‘ نظر آتا ہے تو کبھی اس کے ’گلیڈیئٹر‘ ہونے کا شک پڑتا ہے لیکن اس سب کہ باوجود ناصر ادیب کے تخلیق کیے گئے کرداروں کا کمال یہ ہے کہ وہ فلم کے کسی حصے میں اپنی انفرادیت نہیں کھوتے۔

ناصر ادیب کے قلم سے لکھے گئے ڈائیلاگز کے اندر بھی اتنی ہی جان ہے کہ وہ خون میں ولولہ پیدا کر دیتے ہیں۔

اس لیے یہ فلم شروع سے آخر تک مولا جٹ اور نوری نت کی ہی داستان ہے۔ جن کی جوڑی دنیا کے کسی بھی ہیرو اور ولن کی مشہور جوڑی سے کم نہیں اور ہدایتکار بلال لاشاری کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس لیے انھوں نے ان کرداروں کے ساتھ بالکل بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا اور بڑے تحمل سے ان کی پسند ناپسند، خوبیوں اور خامیوں کو دکھایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے آدھے گھنٹے میں مولا جٹ کے بمشکل ایک یا دو ڈائیلاگ ہیں جبکہ نوری نت کے نام کی انوکھی دہشت ہے۔

یہاں تک کہ فلم کے انٹرمشن سے پہلے ان دونوں کرداروں کی ملاقات تک نہیں ہوتی اور اس لیے آخر تک دیکھنے والوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے کیونکہ انھیں ان دونوں کے ٹاکرے کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔

ویسے تو عام طور پر اس طرح کی ایکشن فلموں میں ثانوی کرداروں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ’دا لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کے سکرین پلے میں ہر کردار کی کہانی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے فلم میں سطحی پن کی خامی بالکل بھی نہیں۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ: ’دن میں تین، چار گنڈاسے ٹوٹنا عام بات تھی، ایک دن میں آٹھ بھی ٹوٹے‘

’پنجابی زبان کی ادائیگی کی خامی نظر انداز کرنا مشکل ہے‘

لیکن جس خامی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے وہ اس فلم کی ملاوٹ زدہ پنجابی ہے۔ پنجاب کی دھرتی اپنی لوک کہانیوں کے لیے مشہور ہے اور پرانی مولا جٹ کی کامیابی کے بعد سے سلطان راہی کو بھی پنجاب کا لوک ہیرو تصور کیا جا تا تھا۔

ایسے میں مولا جٹ کے قصے کو ماڈرن انداز میں سناتے ہوئے پنجابی زبان، تلفظ اور وزن کا خیال رکھنا بہت ضروری تھا۔

بلال لاشاری کی مولا جٹ ہے تو پنجابی زبان میں لیکن اس میں سے پنجاب کی دھرتی کی خوشبو سونگھنے کے لیے تھوڑے لمبے سانس کھینچنے پڑتے ہیں۔

دو مہینے پہلے جب ’دا لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کا ٹریلر آیا تھا تو بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر فلم کے مرکزی کردار نبھانے والے اداکاروں کے پنجابی لہجوں کے بارے میں خدشے کا اظہار کیا۔

فواد خان نے خود ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مولا جٹ کا کردار نبھانے سے پہلے انھیں پنجابی بولنے کی بالکل بھی عادت نہیں تھی۔

مکھو اور دارو کے کردار کرنے والی ماہرہ خان اور حمیمہ ملک کو بھی اسی مشکل کا سامنا تھا لیکن مختلف لہجوں اور زبانوں کو اپنانا شاید اداکاری کا اہم حصہ ہے۔ اداکاری کے اس چیلنج میں سب سے بڑی ناکامی کا سامنا ماہرہ خان کو کرنا پڑا جن کے بعض سنجیدہ ڈائیلاگز پر بھی سنیما حال میں بے ساختہ ہنسی سننے کو ملی۔

شاید اس ہنسی سے بچنے کے لیے فلم میں مولا جٹ، بولتا کم اور گنڈاسہ زیادہ چلاتا ہے اور اس میں ان کی محنت واقعی نظر آئی

یہ بھی پڑھیں