تحریریں

بالی وڈ کے امیر ستاروں شاہ رخ، سلمان خان اور امیتابھ بچن کے غریب پڑوسیوں کی کہانیاں

انڈیا کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں بالی وڈ کے ’بادشاہ‘ کہلانے والے ادکارکا شاہ رخ خان کے گھر ’منت‘ کے باہر مداحوں کا ہجوم شاہ رخ، شاہ رخ کے نعرے لگا رہا ہے۔ پولیس شائقین کو لاٹھیوں سے ڈرا کر واپس جانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ابھی چند منٹ پہلے شاہ رخ خان ’منت‘ کی بالکونی پر کھڑے تھے، تاکہ مداح اپنے پسندیدہ سٹار کی جھلک دیکھ سکیں۔

کبھی شاہ رخ کو اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر پوز دیتے ہوئے، کبھی فلائنگ کسز، کبھی سلیوٹ کرتے اور عام مداحوں کو خاص محسوس کراتے ہوئے دیکھا گیا۔

سڑک جام ہے۔ فون کے کیمرے آن ہیں۔ شائقین کا جوش و خروش ہے اور ان کا شور برپا ہے۔

چند منٹوں کے بعد شاہ رخ اپنے مداحوں کو الوداع کرکے ممبئی کے بینڈ سٹینڈ پر بنے اپنے سفید بنگلے کے اندر واپس ہونے لگتے ہیں۔

اب شاہ رخ کی پیٹھ مداحوں کی طرف ہے اور مداحوں کی پیٹھ ان کی طرف ہے، یہ کہانی صرف ان لوگوں کی ہے۔

ممبئی کے تقریباً ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی فنکار رہتا ہے۔

خواہ وہ امیتابھ بچن ہوں جن کے ایڈریس کی جگہ صرف ’امیتابھ بچن، جوہو‘ لکھا ہو تو بھی خط ان تک پہنچ جائے یا پھر سانتا کروز کی تنگ گلیوں میں 500-1000 روپے فی قسط کام کرنے والے جونیئر آرٹسٹ ہوں۔

اس کہانی میں ہم کچھ مشہور شخصیات کے گھروں کے ارد گرد کے ماحول اور پڑوسیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے، جن کے گھروں کا سب سے زیادہ چرچا ہے اور جن کے گھروں کو لوگ صرف باہر سے دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔

ان میں شاہ رخ خان، سلمان خان، امیتابھ بچن جیسے فنکار ہیں تو مکیش امبانی جیسے صنعت کار بھی ہیں۔

منت اور شاہ رخ خان کی پڑوسی

عید، سالگرہ یا پھر فلم کی ریلیز کے وقت یہ وہ مواقع ہیں جب شام چار بجے۔ کبھی کبھی رات میں بھی اچانک شاہ رخ منت کے باہر کھڑے مداحوں کو اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔

شاہ رخ کے گھر کے سامنے کا علاقہ گنیش نگر کہلاتا ہے۔ چکاچوند کے نیچے بسی یہ بستی اپنی زندگی کسی نہ کسی طرح اندھیرے میں گزارتی ہے۔

اس علاقے میں تقریباً 100 مکانات ہیں۔ یہاں کا ایک گھر اتنا ہی بڑا ہے جتنا فلم سٹار یا کسی امیر شخص کی گاڑی کی پارکنگ ہوتی ہے۔

گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ دو آدمی ایک ساتھ نہیں گزر سکتے۔

ان گلیوں میں رہنے والے کچھ لوگ شاہ رخ کا گھر دیکھنے آنے والے مداحوں کو کھانے پینے کی اشیاء بیچ کر روزی روٹی کماتے ہیں۔

ایک 10-12 سال کی لڑکی پاروتی منت کے گیٹ کے سامنے سمندر کی طرف مکئی (بھٹے) بیچ رہی ہے۔

پاروتی کا بھائی پریم قریب ہی وہیل چیئر پر بیٹھا ہے۔ پریم چل اور بول نہیں سکتا۔

جب سورج اندھیرے کو پیچھے چھوڑ کر ممبئی کے سامنے پھیلے بحیرہ عرب میں ڈوبتا ہے تو پریم وھیل چیئر پر بیٹھ کر پاروتی کے لیے اپنے موبائل فون کی ٹارچ سے روشنی کرتا ہے اور پاروتی بھٹے بیچتی ہے۔

پاروتی کا خاندان مشرقی ریاست جھارکھنڈ سے ممبئی آیا تھا اور وہ گنیش نگر میں 20-22 سال سے رہ رہا ہے۔

پاروتی قریبی سکول جاتی ہے اور واپسی کے بعد منت کے باہر آنے والے مداحوں کو بھٹے (چھلی) بیچنا شروع کردیتی ہے۔

پریم سے کچھ پوچھو تو وہ مسکراتے ہوئے آنکھوں اور اشاروں سے جواب دیتے ہیں۔ لیکن پریم وھیل چیئر تک کیسے پہنچے؟

پاروتی کی ماں نیرجا دیوی کہتی ہیں: ’دیوالی تھی، اس لیے میں گھر کو پینٹ کرنے کے لیے رنگ خریدنے گئی۔ دونوں بھائی آ رہے تھے۔ پیچھے سے ایک بڑی کار نے ٹکر ماری تو ایک کا ہاتھ کٹ گیا، دوسرے کی ٹانگ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ کمر سے بھی گیا۔ تین سال ہو گئے۔ اس وقت سے وہ وھیل چیئر پر بیٹھا ہے۔‘

اگر شاہ رخ خان آپ کی بات سن رہے ہوں تو آپ کیا کہیں گی؟ پاروتی کی ماں نے کہا کہ ’اگر تھوڑی سی مدد ہو جائے تو اچھا ہے۔ اب وہ اتنے بچوں کے ساتھ ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، کھانے پینے کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ اگر دکان لگاتے ہیں تو سب پریشان کرتے ہیں۔‘

جہاں شاہ رخ رہتے ہیں وہاں کئی دوسرے بڑے سٹار یا رئیس بھی رہتے ہیں۔

جب میں نے پاروتی سے پوچھا، کیا کبھی شاہ رخ کے گھر سے تہوار وغیرہ کے موقعے پر کچھ آتا ہے؟ پاروتی حیران نظروں سے دیکھتی ہیں۔

تاہم پاروتی کی والدہ منت کے مخالف سمت والے بنگلے کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہیں کہ ’جب حادثہ ہوا تو یہاں رہنے والے ایک صاحب نے بہت مدد کی۔‘

اس قطار میں پرینکا چوپڑا کا نیا مکان بھی ہے اور فائیو سٹار ہوٹل بھی۔

گنگا سنگھ 1986 سے اپنے شوہر کے ساتھ گنیش نگر میں رہ رہی ہیں۔ وہ وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ سے آئی ہیں۔

گنگا سنگھ نے کہا: ’یہ پہلے پارسیوں کا بنگلہ تھا۔ بالکل کھلا ہوا تھا۔ یہ ہیریٹیج تھا۔ پھر جب شاہ رخ نے اسے خرید لیا اور بنگلے کی مرمت ہو رہی تھی تو میں یہیں تھی۔ ایک بھائی بنگلہ ٹھیک کروا رہے تھے۔ ہمارا وڈا پاو اور رائس پلیٹ کا ہوٹل تھا، اس لیے تمام عملے کا کھانا ہماری جگہ سے ہی جاتا تھا۔‘

گنگا سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ’چیک ہر ماہ آتا تھا۔ چیک پر شاہ رخ کے دستخط تھے۔ میں نے اس پیسے سے یہ گھر بنایا ہے۔ پہلے پلاسٹک کی کھولی (کچے مکان) میں رہتے تھے۔ یہ گھر شاہ رخ کا تحفہ ہے۔ شاہ رخ نے اپنا بنگلہ بنایا، ہم نے بھی اپنا چھوٹا سا مکان بنا لیا۔‘

گنیش نگر میں رہنے والے ابراہیم کہتے ہیں: ’سامنے منت ہے، پھر آگے گلیکسی بھی ہے۔ لوگ 24 گھنٹے آتے رہتے ہیں۔ ہمارا گھر سمندر کی طرف کھلتا ہے۔ لیکن جب پانی بڑھتا ہے تو پانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سارے سامان کو ہٹانا پڑتا ہے۔ کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ جگہ اتنی کھلی ہے کہ یہاں رہنے والے کہیں اور نہیں رہ سکتے۔ یہاں رہتے ہوئے امیروں جیسا احساس ہوتا ہے۔ یہاں جو محسوس ہوتا ہے، وہ بڑی بڑی بلڈنگ والوں کو بھی محسوس نہیں ہوتا۔

شاہ رخ کے پڑوسی ہونے کی خوشی

شاہ رخ کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے رشتہ داروں کو پتا بتانے میں آسانی ہوتی ہوگی؟

گنیش نگر کے زیادہ تر باشندے اس سے متفق نظر آتے ہیں اور اس کے بارے میں پوچھے جانے پر خوش ہو جاتے ہیں۔

پریم لتا گنیش نگر میں کھولی کے باہر بیٹھی کسی لڑکی کی بھنویں بنا رہی ہیں۔

پریم لتا نے کہا: ’میں سیٹھ (امیر) لوگوں کے کام کرتی ہوں۔ اس کے ساتھ میں نے میک اپ کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔ کوئی پوچھے تو اچھا لگتا ہے کہ شاہ رخ کے قریب ہی رہتے ہیں۔ ان کی تصویر بھی پسند ہے۔’

محمد ابراہیم نے کہا کہ ’مجھے فلموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن اگر مجھے ہی کرنا ہے تو میں شاہ رخ اور سلمان کو پسند کروں گا۔ وہ میرے پڑوسی ہیں، ہم ان کے پڑوسی ہیں۔ پڑوسی کا فرض۔‘

سلمان خان کو اکثر بینڈ سٹینڈ پر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ کیا پڑوسیوں کی شاہ رخ خان سے بھی ملاقات ہوتی ہے؟

ابراہیم نے کہا: طمیری چچی ووٹنگ کے وقت شاہ رخ اور ابراہم سے ملی تھیں۔ آنٹی نے ابراہم کو جبرام کہہ دیا تھا تو شاہ رخ نے ابراہم سے کہا کہ بیٹا آنٹی کو بتا دو کہ میرا نام ابراہم ہے جبرام نہیں۔’

ایک پرانی کہاوت ہے کہ مصیبت کے وقت پڑوسی ہی پڑوسی کے کام آتے ہیں، کیا بینڈ سٹینڈ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟

گنگا کہتی ہیں: ’سیٹھ لوگوں نے دو سال تک کورونا کے دور میں بہت مدد کی۔ شاہ رخ، سلمان خود آکر تو نہیں دیتے۔ اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے ہوں گے۔ ممکن ہے یہ لوگ بھی خاموشی سے بھیجتے ہوں۔‘

سلمان خان کا گھر گلیکسی

شاہ رخ کے گھر سے نکلتے ہی، کچھ دور چلنے کے بعد راستے میں سلمان کا گھر ملتا ہے۔

سلمان خان کا گھر باہر سے اتنا سادہ لگتا ہے کہ کئی بار وہاں آنے والے مداحوں کو یقین نہیں آتا کہ سلمان خان اسی گیلیکسی میں رہتے ہیں۔

ایسے موقعوں پر سلمان خان کا ایک ڈائیلاگ بہت مناسب لگتا ہے ’میرے بارے میں اتنا مت سوچو، میں دل میں آتا ہوں، سمجھ میں نہیں آتا۔‘

سلمان خان کے گھر کے سامنے کچھ کچے پکے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں۔

اس علاقے میں سامنے کی طرف تقریباً 10-12 گھر ہیں۔ یہاں رہنے والے کیتھولک ہیں۔ گھروں کے باہر کراس (صلیبیں) لگی ہیں۔ قریب ہی سینٹ اینڈریوز چرچ ہے۔

ایک بزرگ خاتون اپنے گھر کی بالکونی میں نظر آتی ہیں۔

روزی کی عمر تقریباً 80 سال ہے۔ وہ اپنے گھر کی پہلی منزل کی بالکونی میں بیٹھی ہیں۔ اس بالکونی سے سلمان کے گھر کی کھڑکی نظر آتی ہے۔

روزی کہتی ہیں: ’جب سلمان چھوٹے تھے تو گھر بھی آتے تھے۔ اب وہ بڑا ہیرو بن گیا ہے تو کب سے نہیں آیا۔ یہ گلیکسی ہاؤس بہت بعد میں بنایا گیا۔ ہم اس سے پہلے سے یہاں ہیں۔ گلیکسی بلڈنگ بھی ہمارے سامنے ہی بنی ہے۔ پہلے سلمان کے والدین ملتے رہتے تھے

سلمان خان کے پڑوسی ہونے کی خوشی

کیا سلمان کے گھر کے قریب رہنا پڑوسیوں کی زندگی کو مختلف بناتا ہے؟

بچوں کو فٹبال کی کوچنگ دینے والے سیبی اپنے کوچنگ والے لباس میں ملے۔

سیبی کہنے لگے کہ ’میں یہاں اپنی خالہ کے گھر رہتا ہوں۔ لوگ اتنے ہوتے ہیں کہ بہت پریشانی ہوتی ہے۔ سالگرہ اور عید پر گھر سے باہر نکلنے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔‘

لیکن جب آپ کو کسی کو بتانا ہو کہ آپ کہاں رہتے ہیں تو آپ کیا کہتے ہیں؟

سیبی نے کہا: ’کبھی سلمان سائیکل وغیرہ پر جاتے ہیں، تو نظر آتے ہیں۔ پہلے سلمان چھوٹے تھے، یہاں کے لوگوں سے ملتے جلتے تھے۔ اب وہ بڑے اسٹار بن گئے ہیں اس لیے ملنا جلنا نہیں ہوتا۔ کسی کو بتاتا ہوں کہ کہاں رہتے ہیں تو عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ وہ سلمان کے گھر کے سامنے رہتے ہیں۔‘

سیبی کے پسندیدہ اداکار عامر خان ہیں۔

سیبی بتاتے ہیں: ’اگر علاقے میں کسی کو ضرورت پڑتی ہے تو وہ مدد مانگنے جاتے ہیں۔ سلمان کا فاؤنڈیشن بھی ہے۔ تو لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔‘

وہ خود کو سلمان کی پڑوسن کہتی ہیں یا کچھ اور؟

روزی اس سوال کا جواب میں کہتی ہیں: ’بتاتے ہیں کہ چرچ کے قریب رہتے ہیں۔ سلمان لوگ تو بعد میں یہاں رہنے آئے ہیں۔‘

سینٹ اینڈریوز چرچ کے قریب رہنے والے یہ کیتھولک اجنبیوں کو دیکھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کسی کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

یہ سوچ کر وہی پرانا سوال کیا پوچھا کہ کیا یہ سلمان کا گھر ہے؟

سلمان کے گھر کے سامنے ناریل پانی بیچنے والے شخص نے کہا کہ ’اکھا دن لوگ کھالی ایک سوال ہی پوچھتا ہے (سارا دن لوگ صرف ایک ہی سوال پوچھتے ہیں)۔

امیتابھ بچن کا گھر اور باہر کا ماحول

پڑوسیوں کے معاملے میں امیتابھ بچن تنہا نظر آتے ہیں۔ امیتابھ کے جوہو بنگلے ’جلسہ‘ کے ساتھ ایک بینک ہے۔ جلسہ کی دیواروں پر پینٹنگز ہیں۔

بنگلے کے سامنے پانی سے بھرا گھڑا رکھا ہے، جس میں پرستار آکر پانی پیتے ہیں اور ویڈیو کالز میں لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ امیتابھ کے گھر کا پانی پی رہے ہیں۔

امیتابھ کے بنگلے کے باہر موجد بھیڑ بھی ’روایت، وقار، نظم و ضبط‘ میں نظر آتی ہے۔

جغرافیائی اور دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے سلمان، شاہ رخ کے گھر کے باہر جو ہجوم کے چہرے پر چہچہاہٹ نظر آتی ہے، وہ امیتابھ کے گھر کے باہر کم دکھائی دیتی ہے۔

جوہو میں امیتابھ کے دو اور بنگلے جنک (خالق) اور پرتیکشا (انتظار) ہیں۔

سب سے زیادہ ہجوم جلسہ کا مقدر ہے جہاں اتوار کی شام امیتابھ مداحوں کے سامنے آتے ہیں۔ سلام کرتے ہیں مل کر لوٹ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جلسہ کے باہر گاڑیاں آ کر رکتی ہیں۔ لوگ سیکورٹی گارڈز سے سوال پوچھتے ہیں، ان سے تصویریں کھنچواتے ہیں اور مٹکے کا پانی پی کر پیاس بجھاتے ہیں۔

امیتابھ کے گھر کے باہر کچھ سیکورٹی گارڈز سے بات کی۔

مسکراتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ‘لوگ آتے ہیں اور پوچھتے ہیں- امیتابھ صاحب کہاں سوتے ہیں، وہ جو سامنے کمرہ نظر آتا ہے وہاں سوتے ہیں۔ کیا کبھی بالکونی پر آتے ہیں؟ اگر میں اونچی آواز میں بولوں تو کیا آواز امیتابھ جی تک پہنچے گی؟ سارا دن بس یہی سوال۔’

یہ بھی پڑھیں