آپ کے خیال میں مِڈل ایج یعنی ادھیڑ عمری کیا ہے؟ چالیس سے 60 برس؟ پچاس سے 70 سال؟ ان کے درمیان میں کہیں؟ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت نہ ہو کہ لوگ اس سوال کا جو جواب دیتے ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ سوال ان سے عمر کے کس حصے میں پوچھا گیا تھا۔
جب سنہ 2018 میں پانچ لاکھ افراد نے ایک آن لائن سروے میں حصہ لیا تو جو شرکا 20 اور 30 برس کے پیٹے میں تھے ان کے نزدیک اوسط ادھیڑ عمر 40 سال تھی جبکہ بڑھاپہ 62 سال کی عمر میں شروع ہوتا تھا۔ اس کے برعکس جن شرکا کی عمریں 65 سال سے زیادہ تھیں ان کا خیال تھا کہ انسان 71 سال سے پہلے بوڑھا نہیں ہوتا۔
بات صاف ہے۔ کوئی بھی اپنے بارے میں یہ نہیں سوچنا چاہتا کہ اس کی عمر ڈھل رہی ہے، لہذا اگر آپ 40 کے ہیں تو آپ ایسے مضامین کو پسند کرتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ 40 برس اصل میں 30 برس ہے۔
اسی طرح جو لوگ 70 کے پیٹے میں ہیں وہ یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں کہ غذا اور تندرسی کے شعبے میں ترقی کے باعث انھوں نے کچھ دیر پہلے ہی تو ادھیڑ عمری کی دہلیز سے قدم باہر رکھا ہے۔
یہ بات بھی ہے کہ ہم لوگوں کے ایسے گروہ سے خود کو لا تعلق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں عام تاثر اچھا نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد کو کمزور، غیر فعال، بیمار اور حتیٰ کہ معاشرے پر بوجھ کہا جاتا ہے تو ہم خود کو بوڑھا کہلانا پسند نہیں کرتے۔
یقیناً بڑھاپا ایک حقیقت ہے اور بوڑھے افراد کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آنا چاہیے۔ تو کیا لوگ خود کو بوڑھا ماننے سے انکار کر کے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ در حقیقت ممکن ہے کہ یہ ایک معقول حکمت عملی ہو، ایک ایسا طرز عمل جو آپ کی زندگی میں شادمانی اور اطمینان پیدا کرے۔
سنہ 2003 میں محققین ہنّا کوپر اور سر مائکل مرموٹ نے ایک وسیع الجہتی تحقیق کی جس میں شرکا سے ایک مرتبہ پھر پوچھا گیا کہ بڑھاپا کب شروع ہوتا ہے؟
ظاہر ہے کہ مختلف جواب ملے مگر جب 6 سے 9 سال بعد ان لوگوں سے پھر رابطہ کیا گیا تو کوپر اور مرموٹ نے دریافت کیا کہ جو لوگ سمجھتے تھے کہ بڑھاپا جلدی شروع ہوتا ہے ان میں دل کا دورہ پڑنے، دل کی بیماریاں لاحق ہونے اور صحت کی عام خرابی کے خدشات زیادہ تھے۔
تو سوال یہ ہے کہ بڑھاپا شروع ہونے کے لیے آپ جس بھی عمر کا تعین کرتے ہیں اس کا آپ کی صحت پر اتنا زیادہ اثر کیسے پڑتا ہے؟
ایک خیال یہ ہے کہ بڑھاپا شروع ہونے کی عمر کے بارے میں سوال کسی شخص کے بارے میں آپ کی توقع سے زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ یہ سوال لوگوں کو اپنی جسمانی صحت کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دے اور اگر صحت اچھی نہ ہو یا زندگی گزارنے کا انداز اچھا نہ ہو، تو ممکن ہے انھیں محسوس ہو کہ بڑھاپا جلد آنے والا ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ بڑھاپا کم عمر سے شروع ہو جاتا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر علاج کروانا اور اپنی صحت کا خیال رکھنا چھوڑ دیں اور سوچیں کہ یہ تو ہونا ہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خیال کریں کہ بوڑھے لوگ کمزور ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر آہستہ چلنا شروع کر دیں، حالانکہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کی خاطر انھیں ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
ہو سکتا ہے کہ انھیں عمر کی وجہ سے چیزیں یاد نہ رہیں اس لیے وہ اپنی یادداشت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمر رسیدگی (بوڑھا ہونا کے عمل) کے بارے میں منفی خیالات کی وجہ سے جسم پرانی سوزش کا شکار ہو جائے جس کے نتیجے میں طویل المیاد عوارض لاحق ہو سکتے ہیں۔ لہذا بڑھاپے کے تصور کے مطابق زندگی گزارنے سے مکمن ہے کہ ان مسائل میں اضافہ ہی ہو جن کا انسان کو خوف رہتا ہے۔
یہ ہی بات یقیناً اس کے برعکس بھی سچ ہو سکتی ہے۔ وہ لوگ جو سوچتے ہیں کہ بڑھاپا دیر سے شروع ہوتا ہے اپنی صحت اور فِٹنس کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اور خود کو تندرست رکھنے کے لیے عملی اقدامات کرتے ہیں۔ وہ خود کو جوان سمجھتے ہیں اور ان کا طرزِ عمل بھی ویسا ہی ہوتا ہے جو مزاج میں اچھی تبدیلی لاتا ہے
صرف کوپر اور مرموٹ کی تحقیق ہی بڑھاپے سے متعلق مثبت سوچ کے فوائد کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ ییل سکول آف پبلک کی بیکا لیوی نے بھی اوہایو لانگیچیوڈنیل سٹڈی آف ایجنگ اینڈ ریٹائرمنٹ نامی تحقیق سے بعض قابل غور نتائج اخذ کیے ہیں۔ اوہایو سٹڈی کے دوران ایک ہزار ایسے افراد کے بارے میں معلومات یکجا کی گئیں جن کی عمریں کم سے کم 50 برس تھیں۔
انھوں نے دریافت کیا کہ عمر بڑھنے کے بارے میں جن شرکا کے خیالات مثبت تھے، وہ مذکورہ تحقیق میں حصہ لینے کے بعد اوسطاً 22.6 سال مزید زندہ رہے جبکہ وہ افراد جن کا رویہ بوڑھا ہو جانے کے بارے میں منفی تھا اوسطاً محض 15 سال زندہ رہے۔
اس بارے میں ایک نئی تحقیق جرمنی میں یونیورسٹی آف گریفسوالڈ سے وابستہ سوزین ورم نے کی ہے جو مسئلے کی بالکل صحیح نشاندہی میں مددگار ہو سکتی ہے اور ان کے اخذ کردہ نتائج ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے جو بڑھاپا شروع ہونے کے بارے میں زیادہ منفی سوچ کے حامل ہیں۔
ان کے جلدی مرنے کا خدشہ اوسطاً کسی دوسرے سے زیادہ نہیں مگر جو لوگ بڑھاپے کو مثبت انداز سے دیکھتے ہیں اور، مثال کے طور پر، سمجھتے ہیں کہ یہ نئی چیزیں سیکھنے اور کرنے کا وقت ہے، ان کی اوسط عمر لمبی ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ بڑھاپے کے جسمانی اثرات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی ذہنی طور پر ترقی کر سکتے ہیں۔