پہنچنے سے پہلے دانت کی تکلیف دور ہو جاتی ہے۔
گاؤں کے بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ اسی نوے سال پہلے ایک مقامی شخص بیل گاڑی پر سامان لے جا رہا تھا۔ جب وہ بابا کے مزار کے قریب پہنچا تو بیل کا پاؤں ٹوٹ گیا اور سامان زمین پر آ رہا۔ اس شخص کو بابا نے خواب میں کہا کہ یہ بیل میرے مزار پر صدقہ کر دو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور جس جگہ بیل کا پاؤں ٹوٹا تھا وہاں پر ایک تختہ سے نکل آیا جس میں کیلیں ٹھونکی ہوئی تھی۔
کے مزار پر عرس مناتے ہیں اور عقیدت مند دور دراز علاقوں سےعرس میں شرکت کرتے ہیں۔
میں گزشتہ پچیس سال سے سید امیر غازی بابا کے مزار پر صفائی کا کام کرتا ہوں۔ میں گورنر ہاؤس میں مالی تھا۔ ریٹائر ہونے کے بعد ساری زندگی غازی بابا کے مزار کے لیے وقف کر دی۔
مجھے بچپن سے ہی مزاروں پر جانے کا شوق تھا۔ قریبی علاقوں میں جس مزار پر عرس ہوتا، میں وہاں پہنچ جاتا اور کئی دنوں تک مزار پر رہتا۔ غازی بابا کا مزار چونکہ میرے گھر کے قریب تھا اس لیے میں یہیں آیا کرتا تھا۔
میرے دو بچے ہیں اور میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہوں۔ دن کا بیشتر حصہ مزار پر گزارتا ہوں اور رات کو گھر جاتا ہوں۔
میری ایک ہی آرزو ہے کہ جس چیز کے لیے محنت کر رہا ہوں وہ حاصل ہو جائے۔ میں تو ایک ملنگ آدمی ہوں اور اسی حال میں رہنا چاہتا ہوں۔