تحریریں

عائشہ الباعونیہ: آٹھ سال کی عمر میں قرآن حفظ کرنے والی سیرت نگار جنھیں ’اپنے وقت کے عجائبات میں سے ایک‘ قرار دیا گیا

محبت ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

اور ایسی روشنی ہے جس میں اندھیرا نہیں

محبت ایک راز ہے جسے پانا مشکل

اور ایک ایسا نکتہ ہے جس کی وضاحت

یہ خدا کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے

یہ مفہوم ہے چند اشعار کا جو 15ویں صدی میں ملک شام میں بسنے والی عائشہ الباعونیہ نے لکھے۔

عائشہ الباعونیہ، جنھیں ایک سوانح نگار نے ’اپنے وقت کے عجائبات میں سے ایک‘ قرار دیا ، دمشق میں سنہ 1456 میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد یوسف علما، شاعروں اور فقہا کے لیے مشہور ’الباعونیہ خاندان‘ کے رکن اور دمشق میں قاضی (جج) تھے۔

فلسطینی مؤرخ ولید خالدی کا ماننا ہے کہ عائشہ میں ’ان کے خاندان کی ادبی صلاحیتیں اور صوفی رجحانات پورے طور سے ظاہر ہوئے۔‘

آٹھ سال کی عمرمیں حفظِ قرآن

عائشہ اور ان کے بھائیوں کو قرآن، حدیث، فقہ اور شاعری کی ابتدائی تعلیم اُن کے والد نے دی۔

عائشہ کی سوانح عمری لکھنے والے مذہبیات کے استاد ایمل ہومرین نے لکھا ہے کہ وہ (عائشہ) آٹھ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر چکی تھیں۔

اس سوانح عمری میں عائشہ کی روحانیت میں پیغمبر اسلام کی شخصیت کے کردار پر بھی زور دیا گیا اور ابن العربی، البصیری اور ابن الفرید جیسی شخصیات کے اثر کا بھی جائزہ لیا گیا۔

ہومرین لکھتے ہیں کہ مملوک دور (1250 سے 1517 تک مصر اور شام پر حکمراں مملوک خاندان) میں عربی، علم و فضل اور ادب کو فروغ ملا اور پوری مسلم دنیا سے علما اور طلبا قاہرہ اور دمشق کی طرف راغب ہوئے۔ اس سے سفر، تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ۔ مصنفہ اور شاعرہ عائشہ الباعونیہ نے بھی ایک عورت کے طور پر، مذہبی علم و فضل اور ادب کے دائرے میں داخل ہونے کے لیے متعدد سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں عبور کیں۔

’کسی بھی خاتون کے مقابلے میں سب سے زیادہ لکھا‘

ہومرین کی انگریزی زبان میں لکھی اس سوانح عمری کے مطابق عائشہ نے ممکنہ طور پر 20ویں صدی سے پہلے کی کسی بھی دوسری خاتون کے مقابلے میں عربی میں سب سے زیادہ لکھا۔

’ایک صوفی ماہر اور ایک عرب شاعر کے طور پر ان کی تحریریں کسی بھی معیار سے اپنے وقت کے حساب سے غیر معمولی تھیں۔ قرون وسطیٰ کے اسلام میں بہت سی خواتین قابل احترام سکالرز اور اساتذہ تھیں لیکن وہ شاذ و نادر ہی اپنی تخلیقات تشکیل کرتی تھیں۔ عائشہ الباعونیہ نے بیس سے زیادہ کتابیں اور غالباً 20ویں صدی سے قبل کسی بھی دوسری مسلم خاتون سے زیادہ عربی نثر اور شاعری لکھی۔‘

ہومرین نے عائشہ کی دو کتابوں کا عربی سے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کے مطابق عائشہ کا کلام ڈھونڈنا ’بھوسے میں سے سوئی تلاش‘ کرنے کے برابر تھا۔

دو سال پہلے انتقال پا جانے والے ہومرین نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھیں عائشہ کے مخطوطات (ہاتھ سے لکھے مسودے) کیسے ملے۔

’ایک دفعہ جب میں مصر گیا، میں مملوک دور کی شاعری پر کام کر رہا تھا۔ میں ہر طرح کے شاعروں کی تلاش میں تھا لیکن میری کوشش کا ایک حصہ خواتین شاعرات کی کھوج تھا۔ قاہرہ کے دار الکتب میں میں صرف عنوانات کی فہرست دیکھ رہا تھا۔ پھر میں نے ایک بزرگ کو ایک دیوار پر چڑھتے دیکھا۔‘

’میں نے پاس جا کر ان سے پوچھا کہ جناب، یہ کیا ہے؟‘

انھوں نے کہا ’یہ 1920 کی دہائی کا کارڈ کیٹلاگ ہے۔‘

میں نے کہا ’آپ عنوان کے لحاظ سے کیٹلاگ استعمال نہیں کرتے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’ہاں، میں اسے بھی استعمال کرتا ہوں لیکن یہ کبھی کبھی بہتر ہوتا ہے، یہ مصنف کے لحاظ سے ہے۔‘

میں نے مسکرا کر کہا ’بہت شکریہ‘۔

’تھوڑی ہی دیر کی میری تلاش عائشہ کے مخطوطات کی طرف لے گئی۔‘

’میں نے پڑھنا شروع کیا اور مجھے پتا چلا کہ یہ صوفی کلام ہے۔ میں نے سوچا، یہ بہت اچھا ہے اور پھر مجھے ان ہی کی لکھی رہنما کتاب یا گائیڈ بک ملی اور میں نے سوچا، ’گڈ لارڈ، مجھے ان کے صوفیانہ نظریات کو پڑھنے اور ان کی شاعری سے موازنہ کرنے کی صلاحیت مل گئی۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’عائشہ اسلام کی ان چند خواتین صوفیا میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید دور سے پہلے اپنے لیے لکھا اور کہا۔ اس سے ہمیں عورت کے معاشرے، اسلامی تصوف اور عمومی طور پر اسلام کے بارے میں عورت کے نقطہ نظر سے کچھ اہم زاویے ملتے ہیں۔‘

ہومرین کے مطابق وہ فارسی کے عظیم شاعر جلال الدین رومی کی طرح ہمیشہ پُرامید، ہمیشہ خدا کی رحمت پر یقین ر کھتی تھیں

حمت پر یقین ر کھتی تھیں۔

کتاب

،تصویر کا ذریعہBOOK COVER/ THE PRICIPLES OF SUFISM

اسلامی قانون کی تعلیم اور فتوے

عائشہ کی شادی دمشق کے ایک علمی خاندان سے تعلق رکھنے والے احمد بن محمد ابن نقیب الاشرف سے ہوئی جن کا سلسلہ نسب، عائشہ کے اپنے مطابق، حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ اپنے بیٹے عبدا لوہاب کے ساتھ چار سال قاہرہ میں رہیں۔ قاہرہ اور دمشق کے راستے میں ڈاکوؤں نے عائشہ کی تحریروں سمیت ان کا سامان چرا لیا تھا۔

قاہرہ میں فکری حلقوں میں داخل ہوئیں اور فقہ یا اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی اور انھیں قانون پڑھانے اور فتوے (قانونی رائے) جاری کرنے کا لائسنس دیا گیا۔

ڈیون سٹیورٹ کہتے ہیں کہ ’وہ ایک فقیہہ کے طور پر بہت مشہور ہوئیں۔‘

عائشہ کو خدا کی وحدانیت اور روحانیت کے حصول میں محبت اور عقیدت کی اہمیت کے بارے میں اپنی تعلیمات کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ اس وقت کی صوفی روایت میں ایک نمایاں شخصیت تھیں اور اسلامی تصوف کی ترقی میں ان کا اہم کردار تھا

اسلامی دنیا کے آکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا‘ میں کارل ڈبلیو ارنسٹ لکھتے ہیں کہ ’عائشہ تصوف کی تاریخ کی اہم ترین خواتین شخصیات میں سے ایک ہیں۔‘

’اسلامی تصوف: ایک مختصر تاریخ‘ میں الیگزینڈر کنیش کہتے ہیں کہ ’عائشہ الباعونیہ کی محبت اور عقیدت کی اہمیت کے بارے میں تعلیمات نے بعد کے صوفی فکر کی تشکیل میں خاص طور پر اثر ڈالا۔‘

ولید خالدی کہتے ہیں کہ عائشہ کو ’آزادی فکر وراثت میں ملی جو ہم عصر مردوں کے ساتھ مساوی شرائط پر ان کے فکری رابطوں میں نظر آتی ہے۔‘

تحریریں

عائشہ کا کام علم و عرفان سے لے کر روحانی رہنمائی، خواتین کی روحانیت اور تصوف تک کے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔

ہومرین نے عائشہ الباعونیہ کو ’اسلامی روحانیت اور صوفیانہ فکر کی ترقی میں ایک مرکزی شخصیت‘ قرار دیا ہے، جن کی تحریروں میں صوفی الہٰیات، اسلامی قانون، اسلامی تاریخ اور عربی گرامر کے ساتھ ساتھ صوفیانہ شاعری اور نثر سمیت متعدد موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ان کی کتاب ’الاسرار المکنونہ فی شرح اسماء اللہ الحسنہ‘ (اللہ کے ناموں کی تشریح میں صوفیانہ راز) کو اسلامی تصوف میں کلاسک سمجھا جاتا ہے۔ اپنی کتاب میں وہ اللہ کے ناموں اور ان کے روحانی معانی پر بحث کرتی اور صوفی طریقوں اور عقائد کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہیں۔

ایک اور کتاب میں وہ کہتی ہیں کہ صوفیانہ مراحل تو بے شمار ہیں مگر ان سب کی بنیاد اللہ کی قربت کے چار بنیادی اصولوں پر ہے: توبہ، اخلاص ، ذکر اور محبت۔

جان رینارڈ کی ’تصوف کی تاریخی لغت‘ کے مطابق ’عائشہ الباعونیہ کی کتاب صوفی ادب میں ایک کلاسک اور روحانی علم کے متلاشیوں کے لیے تحریک کا ذریعہ ہے۔ خدا کی وحدانیت، محبت اور عقیدت کی اہمیت پر ان کی تعلیمات صوفی فکر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔‘

اسلام کی صوفیانہ جہات‘ میں این میری شمل لکھتی ہیں کہ ان کی کتاب کا اسلامی تصوف میں ایک اہم حصہ ہے، خاص طور پر مذہبی تجربے کی اندرونی جہتوں پر زور دینے میں۔ ان کی تعلیمات نے اسلامی الہٰیات کے لیے زیادہ جذباتی اور روحانی نقطہ نظر کو تشکیل دینے میں مدد کی۔

ماہرین کے مطابق ان کی شاعری میں اکثر محبت اور عقیدت کے گہرے احساس کے ساتھ ساتھ خدا کی وحدانیت پر گہری توجہ دی گئی ہے۔

الیگزینڈر کنیش کا کہنا ہے کہ عائشہ الباعونیہ کی شاعری ’خدا کے ساتھ قربت کی ان کی پرجوش خواہش کا اظہار ہے۔‘

پہلی خاتون سیرت نگار

عائشہ کی کتب کے تعارف سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کو پیغمبر اسلام سے بڑ ی محبت اور عقید ت تھی۔

محمد زبیر اور ڈاکٹر محمد ادریس لودھی کی تحقیق ہے کہ خواتین میں سے اس موضوع پر لکھنے والی پہلی اور شاید اکیلی خاتون عائشہ الباعونیہ ہیں۔

عائشہ نے پیغمبر اسلام سے اپنی دینی اور شعوری محبت کا نظم میں اس طور سے اظہار کیا کہ بڑے بڑے پختہ کار مرد شاعر بھی ایسا نہ کر سکے۔

ان کے نعتیہ الفاظ یہ ہیں:

’اللہ کے نبی کی تعریف روحوں کو تازگی بخشتی ہے

شک، پریشانیوں اور غم سے نجات دیتی ہے‘

اسی تحقیقی مقالے میں ذکر ہے کہ ’ہر مقام پر اشعار درج کرنے سے پہلے یہ لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ان اشعار کو نظم کرنے کی توفیق بخشی ہے۔ اپنے وقت کی قادر الکلام شاعرہونے کے باوجود ان کی یہ انکساری دراصل ان کے آئینہ دل کی صفائی کی دلیل ہے۔‘

 

یہ بھی پڑھیں