یہ 72 ہزار سال قبل از مسیح کی بات ہے جب انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا پر واقع توبا نامی آتش فشاں اُبل پڑا تھا۔ اسے پچھلے ایک لاکھ برس کے دوران پیش آنے والا دنیا کا سب سے بڑا واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں برِاعظم ایشیا کا وسیع علاقہ گرد کی تین سے دس سینٹی میٹر موٹی تہہ میں چھپ گیا تھا۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس سے دنیا آتش فشانی سرما یا وولکینِک وِنٹر میں چلی گئی جو کئی دہائیوں تک جاری رہا اور انسانی نسل تقریباً ختم ہو گئی۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ واقعہ 50 ہزار سے ایک لاکھ برس کے درمیان پیش آیا تھا۔ اس وقت زمین پر مجموعی انسانی آبادی محض 10 ہزار افراد تک محدود تھی۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں۔ ان کے مطابق دنیا کی اتنی کم آبادی کا سبب توبا آتش فشاں کا پھٹنا تھا۔ یہ ایک انتہائی متنازع نظریہ ہے مگر اس میں شک نہیں کہ آج انسانوں کی اتنی بڑی آبادی کے آباؤ اجداد کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔
آج ہزاروں برس بعد دنیا کے ہر گوشے میں انسان پہنچ چکا ہے۔ حتیٰ کہ سنہ 2018 میں سائنسدانوں کو سمندر کی 10,898 میٹر گہرائی میں پلاسٹک بیگ ملا تھا جبکہ حال ہی میں ایورسٹ کی چوٹی پر بھی انسان کے بنائے ہوئے کچھ کیمیائی مادے ملے ہیں۔ انسانی سرگرمی کے اثر سے نہ خشکی بچی ہے اور نہ ہی تری۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 15 نومبر 2022 کو زمین پر ایک ہی وقت میں زندہ انسانوں کی تعداد آٹھ ارب ہو جائے گی، جو توبا آفت کے وقت انسانی آبادی سے 800,000 گنا زیادہ ہو گی۔
آبادی میں بے تحاشا اضافے کے بارے میں رائے تقسیم ہے۔ بعض ماہرین اسے کامیابی قرار دیتے ہیں۔ سنہ 2018 میں ٹیکنالوجی کی دنیا کے ارب پتی جیف بیزوس نے پیشگوئی کی تھی کہ مستقبل میں انسانوں کی تعداد ایک ٹریلین (دس کھرب) ہو جائے گی اور وہ پورے نظام شمسی میں پھیل چکے ہوں گے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ اس کے لیے ابھی سے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف برطانوی براڈکاسٹر اور قدرتی ماحول کے مؤرخ سر ڈیوِڈ ایٹنبرا انسانی آبادی میں بے پناہ اضافے کو ’زمین کے لیے طاعون‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں آج انسان کو درپیش ہر ماحولیاتی مسئلے کے پیچھے اسی اضافے کا ہاتھ ہے، چاہے وہ آب و ہوا میں تبدیلی ہو، حیاتی تنوع کی بربادی ہو، یا پانی، زمین اور دیگر قدرتی وسائل کے حصول کے لیے جھگڑے ہوں۔
سنہ 1994 میں جب دنیا کی مجموعی آبادی ساڑھ پانچ ارب تھی، امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم سٹینفرڈ یونیورسٹی نے حساب لگایا تھا کہ دنیا میں انسانوں کی مثالی آبادی ڈیڑھ سے دو ارب کے درمیان ہونی چاہیے۔
تو کیا زمین پر انسانی آبادی حد سے تجاوز کر چکی ہے اور زمین پر انسانی تسلط کے کیا اثرات ہوں گے؟ زمین پر مثالی انسانی آبادی کتنی ہونی چاہیے؟ ان سوال کا کوئی ایک متفقہ جواب موجود نہیں مگر وقت بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔
ایک قدیم تشویش
سنہ 1980 میں بغداد یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم کو مرکزی عراق میں سِپّر کے مقام سے مٹی کی بنی ہوئی ساڑھے تین ہزار برس پرانی 400 تختیاں ملیں۔ یہ بابل کا قدیم زمانہ تھا۔
ان میں سے چار تختیاں خاص تھیں۔ ان پر قدیم عراقی تمدن سے متعلق ایک کہانی کے، جو عراق کے مختلف علاقوں میں الگ الگ دوسری ایسی ہی تختیوں پر تحریر تھی، گمشدہ حصے کندہ تھے۔
ایتھنز کی بڑھی ہوئی آبادی کے بارے افلاطون نے لکھا تھا کہ ’جو کچھ بھی بچا ہے وہ ایک بیمار جسم کے ڈھانچے کی طرح ہے، شہر میں زرخیز زمین ختم ہو گئی ہے اور صرف بنجر زمین کا ڈھانچا باقی ہے۔‘
وہ ریاست کی جانب سے آبادی کو سختی سے کنٹرول کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک مثالی شہر کی آبادی 5040 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اضافی آبادی کے لیے نئی بستیاں بسانے کے حق میں تھے اور ساتھ ہی قدرتی وسائل (کھانے پینے اور رہن سہن) میں اعتدال برتنے کے حامی تھے
افلاطون نے 375 قبل از مسیح میں لکھی جانے والے کتاب میں دو خیالی شہروں کا ذکر کیا۔ ایک صحت مند جبکہ دوسرا بیمار ہے۔ بیمار شہر کے لوگ عیش عشرت سے رہتے ہیں اور وسائل ضائع کرتے ہیں اور جب اپنے وسائل ختم ہو جاتے ہیں تو دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں جنگیں ہوتی ہیں۔ اس شہر کی لالچی آبادی کو زندہ رہنے کے لیے اضافی وسائل کی ضرورت ہے۔
افلاطون نے ایک ایسی بحث چھیڑ دی تھی جو اب بھی جاری ہے: کیا انسانی آبادی ایک مسئلہ ہے یا پھر وہ وسائل مسئلہ ہیں، جنھیں انسان استعمال کرتے ہیں۔
اس کے تقریباً 500 برس بعد رومی شہر کارتھیج میں ٹرٹولین نے 200 بعد از مسیح میں لکھا کہ انسان پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اب لوگ زمین پر بوجھ بن گئے ہیں اور اب فطرت انھیں نہیں پال سکتی۔ اس وقت دنیا کی مجموعی آبادی کا تخمینہ 190 سے 256 ملین لگایا گیا۔
اگلے 1500 برس میں دنیا کی آبادی تین گنا ہو گئی اور سنہ 1798 میں انگریز مذہبی پیشوا ٹامس مالتھس نے اپنے مضمون ’این ایسے آن دا پرنسپلز آف پاپولیشن‘ میں لکھا کہ تمام انسانوں کو خوراک کی ضرورت ہے اور وہ جنسی تعلق کو پسند کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بالآخر دنیا کی آبادی زمین پر موجود وسائل سے کہیں زیادہ ہو جائے گی۔
ان کی اس بات کا لوگوں نے فوری اثر لیا اور کئی دہائیوں تلک اس پر گرما گرم بحثیں ہوتی رہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ دوسروں کا خیال یہ تھا کہ آبادی کو کنٹرول کرنا غیر اخلاقی ہے لہذا وسائل میں اضافے پر توجہ دینی چاہیے۔ مالتھس کا نظریہ شائع ہونے کے وقت زمین پر 800 ملین نفوس تھے۔
تاہم آبادی میں بے تحاشا اضافے کی جانب زیادہ توجہ سنہ 1968 میں شائع ہونے والی کتاب ’دا پاپولیشن بم‘ یعنی آبادی کا بم نے دلائی۔ یہ کتاب سٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پال ایلرلِچ اور ان کی بیوی این ایلرلِچ نے دلی کی ایک کچی آبادی سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔
انھیں اپنے ہوٹل جانے کے لیے شہر کی ایک کچی آبادی میں سے گزرنا پڑا جہاں انھوں نے گلیوں میں بے تحاشا انسانی سرگرمی دیکھی۔ انھیں لگا کہ دنیا میں فاقہ کشی آنے والی ہے جس کا زیادہ شکار غریب ممالک ہوں گے جبکہ امریکہ جیسے ملک میں ماحول تباہ ہو جائے گا۔
متنازع مستقبل
آج کل انسانی آبادی کو گھٹانے یا بڑھانے کے لیے مقرر کیے جانے والے ہر طرح کے اہداف اور کوٹے سے متعلق پالیسیوں پر کڑی تنقید ہوتی ہے مگر اس کے برعکس یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ آبادی پر رضاکارانہ طریقوں سے قابو پایا جا سکتا ہے، جیسا کہ ان لوگوں کو مانع حمل مصنوعات کی فراہمی جو اس وقت بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
بعض ماہرین کے خیال میں اس کا حل آبادی پر قابو پانے یا وسائل بڑھانے میں نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور استعمال میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غریب ملکوں کے مقابلے میں امیر ممالک میں جہاں شرح پیدائش تو کم ہے مگر وسائل کا فی کس مصرف کہیں زیادہ ہے۔
کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ غریب ملکوں میں آبادی کم کرنے کے پیچھے نسلی تعصب پایا جاتا ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک زیادہ گنجان آباد ہیں۔
بعض ماہرین کے نزدیک آبادی کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے خیال میں آبادی تو ہر حال میں بڑھے گی مگر پھر اس میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی اور ہر کسی کو وہ کچھ مل جائے گا جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اندازے مختلف ہیں مگر توقع ہے کہ انسانی آبادی 2070 اور 2080 کے درمیان اپنے عددی عروج کو پا لے گی اور اس وقت زمین پر موجود انسانوں کی تعداد 9.4 سے 10.4 ارب کے درمیان ہو گی۔ اگر ہم 10.4 ارب تک ہو جائیں تو اقوام متحدہ کہتا ہے کہ اس مقام پر انسانوں کی یہ تعداد دو عشروں تک کے لیے رُک جائے گی مگر اس کے بعد اس میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔
ماحولیاتی چیلنج
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور زراعت کے مطابق زمین کی 38 فیصد یا پانچ ارب ہیکٹر سطح انسانوں یا ان کے جانوروں کے لیے خوراک یا دوسری مصنوعات (ایندھن) وغیرہ کے لیے زیر استعمال ہے۔
اور اگرچہ ہمارے اجداد دیوہیکل جنگلی جانوروں کے ساتھ زمین پر رہتے تھے مگر آج ان سب کے مقابلے میں زمین پر ہمارا قبضہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق زمین پر بلحاظ وزن انسانوں کا حصہ 32 فیصد ہے جبکہ باقی ریڑھ کی ہڈی رکھنے والی (فقاریہ) جنگلی حیات محض ایک فیصد، باقی مویشیوں اور پالتوں جانوروں پر مشمل ہے۔