نیویارک سٹی کو دیکھنے کے لیے سیّاح عموماً سینٹرل پارک یا ٹائم سکوائر جاتے ہیں، لیکن اس شہر کی روح کو محسوس کرنے اور اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ اس شہر کا آغاز کیسے ہوا، جیکسن ہائیٹس سے بہتر کوئی علاقہ نہیں ہے۔
نیویارک شہر منتقل ہونے کے چند ماہ بعد میں نے بورو آف کوئینز (کوئینز کی تحصیل) سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ’آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟‘ میں ذہنی طور پر تیار ہو گیا کہ اب مجھے اس سفر کے دوران ایک ایسے شخص سے گپ شپ کرنی ہے جو اس علاقے سے کوئی تعلق رکھتی ہیں، ’ٹھیک ہے، یہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔‘
’میں آدھا کولمبین اور آدھا انڈین ہوں۔‘
اُس نے مجھے روکتے ہوئے کہا ’اوہ، تو تم جیکسن ہائیٹس سے ہو؟‘
میں وہاں سے تعلق نہیں رکھتا، تاہم مجھے اس کا یہ کہنا عجیب نہیں لگا کیونکہ یہ کوئی ایک بُرا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے جلد ہی جان لیا کہ جیکسن ہائیٹس، کوئینز کے شمال مغربی کونے کا ایک محلہ ہے جو مختلف نسلوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی وجہ سے دنیا کی سب سے زیادہ متنوع جگہوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے ایک حصے میں، لٹل کولمبیا کہلانے والا ایک علاقہ ہے جو اسے سیدھا لٹل انڈیا کہلانے والے علاقے سے ملاتا ہے، اس لیے اس خاتون کا میرے بارے میں ایک پڑھے لکھے افراد جیسا اندازہ تھا، اور یہ شہر کے اس حصے کی ثقافت کا ایک ابتدائی تعارف بھی تھا۔
درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے، تاہم جیکسن ہائیٹس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کم از کم 160 زبانیں بولنے والے تقریباً 180,000 افراد رہتے ہیں۔
شوہر کو ’سینڈوچ تھیراپی‘ چلانے میں مدد دیتی ہے، جو اسی محلے کے ماحول سے متاثر ہو کر اسرائیلی۔جارجیائی کھانوں کو تیار کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔‘
شہر کے ڈی این اے کو محسوس کرنے کے لیے جیکسن ہائیٹس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے
زیپوری شہر کے مختلف حصوں میں رہ چکی ہے، لیکن جیکسن ہائیٹس میں وہ پہلی نظر میں ہی اپنے ہونے والے شوہر کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہاں ہماری اتنی قریبی کمیونٹی ہے جو تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم یہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب میں یہاں سیاحوں کو دیکھتی ہوں تو عام طور پر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پہلے نیویارک جا چکے ہوتے ہیں اور انھوں نے سیاحت کی ہوتی ہے، لیکن اب وہ (اس شہر کی اصل حقیقت کو) دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
اس طرح سوچنے والی وہ واحد شخص نہیں ہیں جن سے میں ملا اور جو جیکسن ہائیٹس کی کثیر الثقافتی پر فخر کرتی ہیں۔ آسکر زمورا فلورس، جو کوئینز کالج کے ایک گریجویٹ طالب علم ہیں اور جیکسن ہائیٹس میں ہی پلے بڑھے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جیکسن ہائیٹس کے بارے میں مجھے جو چیز پسند ہے وہ یہ ہے کہ یہاں ہر ایک سڑک کی اپنی شناخت ہے۔ یہاں ایسی سڑکیں یا گلیاں ہیں جو خوبصورت فن تعمیر کے ساتھ واقعی آرام دہ بھی ہیں، اور پھر آپ روزویلٹ ایوینیو تک پہنچ جاتے ہیں، جو صرف چند بلاکس کے فاصلے پر ہے، اور اِن سڑکوں اور گلیوں میں اتنی زیادہ گہما گہمی ہوتی ہے اور بعض اوقات ہجوم سے اتنے بھرے ہوتے ہیں کہ آپ چل بھی نہیں سکتے۔‘
میری ملاقات ’سیبا سیبا‘ میں زمورا فلورس سے ہوئی۔ ، ’سیبا سیبا‘ اس علاقے کے چند درجن کولمبین ریستورانوں اور بیکریوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں یہاں بچپن میں رہا کرتا تھا تو میں مینہٹن منقتل ہو جانے کے بارے میں بھی سوچا کرتا تھا۔
’لیکن جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی، مجھے جس چیز کی ضرورت تھی وہ یہاں موجود تھی۔‘
ڈائیورسٹی پلازہ سے مشرق کی طرف ہجوم کے ساتھ چلیں تو جیکسن ہائیٹس۔روزویلٹ ایونیو کے سب وے کے داخلی راستے کے قریب پیدل چلنے والوں کے علاقے ہیں، اور لِٹل انڈیا (کسی حد تک یہ ایک غلط نام ہے کیونکہ یہ تِبتّیوں، نیپالیوں، بنگلہ دیشیوں، پاکستانیوں اور دیگر گروہوں کی مساوی تعداد پر مشتمل علاقہ ہے) آگے جا کر یہ لٹل کولمبیا (ایکواڈور، پیرو، ارجنٹائن اور یوراگوئے کے تارکین وطن پر مشتمل علاقہ) میں بدل جاتا ہے۔ اور پھر یہ کوئینز کی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے سرگرم علاقے میں گُھل مِل جاتا ہے، جو کوئینز کا سب سے پرانا ہم جنس پرست بار، ’فرینڈز ٹیورن‘ کے ارد گرد کا علاقہ ہے۔‘
زمورا فلورس نے کہا کہ ’شہر کے دوسرے حصوں میں ہم جنس پرستوں کے بارز کے برعکس، یہاں ہر رات لاطینی رات ہوتی ہے۔‘بارٹولینی نے جواب میں کہا: ’بالکل نہیں ۔ یہی ایک وجہ ہے کہ میں اسے پسند کرتی ہوں۔ آج صبح میں برنچ کے لیے ایک لبنانی ریستوراں میں گئی۔ میری گلی کے کونے پر بنگلہ دیشی کھانے کی رہڑیاں ہیں، چند قدم کے فاصلے پر تبتی موموس۔۔۔ اور یہ سب بہت اچھا ہے کیونکہ اصل میں ان ممالک کے لوگ ان کھانے کی چیزوں کو اُنہی ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے بنا رہے ہیں۔‘
ایک پیشہ ور باورچی (شیف) ایسنائیڈر ارویلو کے لیے، جیکسن ہائیٹس کھانے فروخت کرنے والی رہڑیوں اور ریستورانوں پر مشتمل گھومنے پھرنے کا ایک مرکز ہے جہاں ان کی نظر میں کھانے پکانے کی گہما گہمی شہر کی نِسبتاً خاموش سڑکوں یا گلیوں سے زیادہ نظر آئے گی۔ وہ 34 سال پہلے، اپنی والدہ کی رہڑی میں ان کا ساتھ دینے کے لیے، کولمبیا سے جیکسن ہائیٹس منتقل ہوئے تھے۔ ان کی والدہ نے اس محلے میں ارپا لیڈی کے طور پر شہرت حاصل کی تھی، انھوں نے اپنے کاروبار کو بغیر لائسنس کے فوڈ سٹینڈ کو اینٹوں اور سیمنٹ وغیرہ کی مدد سے پہلے پکا کیا پھر اسے ریستوراں میں تبدیل کردیا۔
ارویلو نے کہا کہ یہاں کھانوں کے لیے آنے والے سیاحوں کے ’دوروں کے ساتھ میرا مقصد زبانوں، ثقافتوں اور مذاہب کے تنوع کو مختلف کھانوں کے ذریعے پیش کرنا ہے۔ چہل قدمی ایک مشغلہ بن جاتی ہے کہ ہم ایک دن میں کتنے ممالک کی ثقافت کو دیکھ لیتے ہیں۔‘
روزویلٹ ایونیو کے نیچے چہل قدمی کے دوران میں نے ایک درجن مختلف ممالک کی نمائندگی والے سٹالوں کو دیکھا۔ کسی بھی سمت میں تھوڑی دور چلیں، اور آپ کو درجنوں مزید چیزیں ملیں گی۔ ارویلو نے کہا ’جب لوگ کہتے ہیں کہ نیویارک دنیا کا دارالحکومت ہے، تو وہ نیویارک کے اس حصے کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔‘
حقیقت یہ ہے کہ میں جیکسن ہائیٹس کے تین مختلف رہائشیوں سے کھانے کی سفارشات کے لیے پوچھ سکتا ہوں اور تین مختلف کھانے کھا سکتا ہوں۔ یہ بات یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان گلیوں میں کتنی اقسام کے کھانے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر میکسیکن کھانے کے لیے زمورا فلورس نے مجھے 83 ویں سٹریٹ پر جوگویلیا کا بتایا، لیکن ارویلو نے مجھے کورونا زدہ علاقے سے ملحقہ علاقے لا ایسپیگا میں جانے کا مشورہ دیا۔ بارٹولینی کو ساؤتھ انڈین کھانوں کے لیے سمُدرا پسند ہے، جبکہ ارویلو کو بنگلہ دیشی سنیکس کے لیے فیوسکا ہاؤس پسند ہے۔
جب کولمبیا کے کھانے کی بات آتی ہے تو اپنے خاندانی کاروبار کے علاوہ، ارویلو ’مسٹر کینگریجو‘ نامی ریستوراں کی بہت تعریف کرتے ہیں خاص طور پر اس کے بحرالکاہل کے ممالک کے پکوانوں کی۔
اس کے باوجود یہ علاقہ صرف اپنے کھانوں کے ثقافتی تنوع کی وجہ سے محض نیویارک شہر کا ایک نمونہ نہیں ہے، بلکہ یہ نیویارک کے تیزی سے تبدیل ہونے والے طرزِ زندگی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسے شہر میں جس نے خود کو تاریخی طور پر دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک عالمی محلے کے نمونے کے طور پر پیش کیا ہے، بڑھتے ہوئے کرائے کا دباؤ نیویارک کے کردار کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ دسمبر 2022 میں، اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی طرف سے پہلی بار اس شہر کو دنیا کا سب سے مہنگا شہر قرار دیا گیا، اور تیزی سے بہتر ترقیاتی اور آبادیاتی تبدیلی کی وجہ سے کچھ لوگوں کو یہ خوف لاحق ہو گیا ہے کہ یہ ’دنیا کی سب سے بڑی ’گیٹِڈ کمیونٹی‘ (بند گیٹوں کے اندر رہنے والی کمیونیٹی)‘ بن رہی ہے، اس لیے جیکسن ہائیٹس جیسے علاقے کو حالیہ دنوں میں آنے والے تارکین وطن کی وجہ سے خدشہ ہے کہ یہ اپنا منفرد کثیرالثقافتی کردار کھو بیٹھے گا۔
بارٹولینی نے ایک نئی ’سستی‘ ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ کی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی آپ باہر قدم رکھتے ہیں تو آپ اس محلے کے ناقابل یقین تنوع کو محسوس کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اب اسے کھونے کے کی وجہ سے بہت فکر مند ہیں۔‘