زندگی کا مطلب ایک ایسا راز ہے جسے سمجھنے کی کوشش ہر دور میں ہر معاشرہ کرتا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں ایسی حیران کن تعمیرات ہوئی ہیں جن کے ذریعے لوگوں نے اپنے خداؤں کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جبکہ کچھ میں فطرت کی عظمت کا اعتراف کیا گیا ہے اور مقدس جنگلات، مقدس پہاڑوں اور مقدس چٹانوں میں معنی خیز تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انگلینڈ میں سٹون ہینج سے لے کر میکسیکو کے چیچن ایتزا کے ہرم نما تک قدیم تہذیبیں ان دنوں کا حساب رکھتیں جب دن یا رات طویل ترین (انقلابِ شمس) ہوں یا برابر (اعتدالِ شب و روز) ہوں۔ ان تعمیرات کا استعمال اپنے پرکھوں کی روحوں سے ملنے یا ان کی عبادت کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا۔
ان تمام باتوں میں جو بات مشترک ہے وہ ان لوگوں کی زندگی، موت اور کائنات کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش ہے۔
کینیڈین فوٹوگرافر کرس رینیئر کی تازہ ترین کتاب سیکریڈ: اِن سرچ آف میننگ معنی کی اسی تلاش کا احاطہ کرتی ہے۔
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے فیلو کرس رینیئر نے گذشتہ 40 برس روایتی ثقافتوں پر کام کرتے ہوئے گزارے ہیں۔
’میں نے 80 کی دہائی میں ایک سفری ایڈوینچر فوٹوگرافر کے طور پر کام شروع کیا تھا اور ’مقدس‘ کی تلاش میں کئی روحانی جگہوں اور مقدس سائٹس پر گیا۔‘
’اس کی وجہ میری خواہش تھی کہ میں روز مرّہ کی زندگی سے آگے بڑھ کر زندگی کے جوہر کو حاصل کروں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو انسانیت کے آغاز سے اب تک ہر معاشرے اور ہر انسان نے خود سے پوچھا ہے۔‘
رینیئر کا خیال ہے کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا بھر کی ثقافتیں کائنات کو کس طرح دیکھتے ہیں۔
’کئی روایتی ثقافتوں اور مقدس مقامات پر اب جدت کا سونامی سب کچھ بہا لے جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے ان کے مطابق کئی ثقافتوں میں اب مذہبی عقائد، لوک کہانیوں اور توہمات کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔ ’مقدس‘ چیزیں اب واضح طور پر دباؤ میں ہیں مگر انٹرنیٹ سے زبردست کنکشن کے ساتھ ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ اب بھی دنیا میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ ہم نہیں بھول سکتے کہ اب بھی دنیا میں مقدس مقامات اور مقدس علاقے ہیں۔ مقدس چیز کسی دریا میں کشتی رانی، کسی باغ میں چہل قدمی بھی ہو سکتی ہے، کہ ویرانے کی آواز سنی جا سکے۔‘
روس میں وہیل کی ہڈیوں کے کمرے
سائبیریا کے بحیرہ بیرنگ کے ایک چھوٹے سے اور دور دراز جزیرے ایتیگران پر عظیم الجثہ وہیلز کی پسلیاں اور ریڑھ کی ہڈیاں ترتیب سے رکھی گئی ہیں۔ یہ 550 میٹر طویل راستہ جو سمندر کے بالکل پاس ہی واقع ہے، ایک پراسرار اور کچھ حد تک پریشان کن نظارہ پیش کرتا ہے۔
’میں روسی آرکٹک خطے میں شمال مشرقی سائبیریا میں ایک نیشنل جیوگرافک مہم جو جہاز پر تھا اور ہم نے یہاں یوپک لوگوں کے وہیل کی ہڈیوں سے بنایا گیا یہ راستہ دیکھا جو ممکنہ طور پر 2000 برس پرانا ہے۔‘
رینیئر بتاتے ہیں کہ ان میں سے کئی سائٹس پر قریب ہی نوادرات بھی پائے گئے۔ آرکیالوجی کا نظریہ یہ ہے کہ لوگ ان جگہوں پر اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ وہ وہیل کی ہڈیاں کھڑی کرتے اور ان پر برفانی ریچھ یا کسی مشک بیل کی کھال ڈال کر ان کا کمرہ بنا لیتے۔ اس کے اندر یہ مقدس اجلاس منعقد کیا کرتے۔ اب صرف وہیل کی ہڈیاں باقی رہ گئی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح کی مقدس سائٹس پر ایک روح کا احساس ہوتا ہے، جہاں دیومالائی جانوروں اور زمینی ارواح کی عبادت کی جاستی ہے۔ میں ایسی معنی خیز جگہ پر اس طرح کی کوئی تقریب منعقد ہونے کا تصور کر سکتا ہوں۔‘
جہاں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا خیال ہے کہ وہیل بون ایلی اور وہیل کی ہڈیوں کے دیگر آثارِ قدیمہ (روس کے جزیرہ نما چکوٹکا میں ایسی کئی جگہیں ہیں) مزارات اور مقدس تقریبات کی جگہوں کے طور پر بنائے گئے تھے، وہیں کچھ مقامی لوگوں کا آج خیال ہے کہ یہ جگہیں ممکنہ طور پر وہیل کا گوشت کاٹنے اور محفوظ رکھنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔
یعنی ایک شخص کی مقدس جگہ دوسرے کا مذبح خانہ ہو سکتی ہے۔
سعودی عرب میں پتھر کا شہر
حجرہ انباطی (نباتیئن) لوگوں کا دوسرا شہر تھا جو اس سے قبل یہاں سے 500 کلومیٹر دور شمال مغرب میں آج کے اردن میں پیٹرا یا البترا نامی معروف دارالحکومت بھی بسا چکے تھے۔ سعودی عرب کے العلیٰ خطے میں واقع پتھر کا یہ قدیم شہر (جسے مسلمان الحجر یا مدائنِ صالح بھی کہتے ہیں) پہلی صدی قبلِ مسیح تک پرانا ہے۔
یہ سعودی عرب کی وہ پہلی سائٹ ہے جو یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہاں 100 سے زیادہ انتہائی محفوظ مقبرے ہیں جن کے بیرونی حصوں پر پتھروں میں دیدہ زیب نقاشی کی گئی ہے۔
رینیئر بتاتے ہیں کہ ’پیٹرا کی طرح یہ جگہیں بھی بادشاہوں، ملکاؤں اور معزز افراد کے مدفن ہیں۔ یہ پورا علاقہ ایک قدیم کاروانی راستہ تھا۔ عرب تجارتی بحری جہاز جزیرہ نما سعودی عرب کے انتہائی مشرقی حصے پر لنگرانداز ہوتے، اور وہاں سے اونٹوں پر اس علاقے سے گزرتے، پیٹرا جاتے اور وہاں سے مقدس سرزمین میں داخل ہو جاتے۔ یہ لوگ بہت دولت مند رہے ہوں گے۔‘
رینیئر مزید کہتے ہیں ’یہ علاقے بہت غیر معمولی ہے کیونکہ یہ صحرا میں بالکل ہموار سطح ہے اور پھر یہاں کچھ بڑی چٹانیں ہیں جن میں اُنھوں نے اپنے مدفن بنا رکھے ہیں۔ ان میں دروازے بھی ہیں۔ جسموں کو پتھر کے مقبروں میں رکھا جاتا۔ ہم نہیں جانتے کہ کیا ان لوگوں کو خزانوں کے ساتھ دفن کیا گیا ہے یا نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔‘
سیاح حجرہ کا دورہ کر سکتے ہیں اور حجاز ریلوے کا بھی تجربہ کر سکتے ہیں جو کبھی دمشق سے مسلمان زائرین کو مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں تک لایا کرتی تھی۔ یا پھر وہ گرم ہوا کے غبارے میں بھی بیٹھ کر اس مقدس مقام کو اوپر سے دیکھ سکتے ہیں۔
رینیئر کہتے ہیں کہ ’اس علاقے میں دریافتوں کے لیے کھدائی کی جا رہی ہے۔ ابھی صحرائے عرب کی گہرائیوں میں واقع اس مقدس مقام کے وسیع تر سیاق و سباق کو سمجھنے کا آغاز ہی ہو رہا ہے
امریکہ میں ایناسازی لوگوں کے دستخط
امریکہ کے جنوب مغربی خطے بالخصوص یوٹاہ، نیو میکسیکو، ایریزونا اور کولوراڈو میں پتھروں کا قدیم آرٹ جا بجا پایا جاتا ہے۔ پیٹروگلفس کہلانے والے یہ نقوش سب سے زیادہ فریمونٹ اور ایناسازی لوگوں نے بنائے تھے جن میں اکثر اوقات انسانی شبیہ، جانور، شکاری ہتھیار اور ہاتھوں کے نقش نظر آتے ہیں۔ ان سائٹس کو امریکہ کے اوّلین قبائل اب بھی مقدس مانتے ہیں اور انھیں اپنے ماضی و ثقافتی ورثے سے ایک معنی خیز تعلق سمجھتے ہیں۔
رینیئر کہتے ہیں: ’نیو میکسیکیو کے شہر سینٹا فے میں رہتے ہوئے مجھے ہمیشہ اولین اقوام کے لوگوں میں بہت کشش محسوس ہوتی تھی۔ یہ تصویر یوٹاہ میں لی گئی تھی۔ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ 4000 سال قدیم ہیں مگر یہ بہترین حالت میں ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک قدیم شخص اپنے ہاتھ رنگے اور پتھر پر نشان ثبت کر دے۔ ہاتھوں کے یہ نقوش گزرے زمانوں کی ایک طاقتور بازگشت ہیں۔ میں تصوّر کرتا ہوں کہ شکاریوں کا ایک گروہ سائے میں بیٹھا ہو اور کہے ’ہم یہاں اپنا دستخط کیوں نہیں کر دیتے۔ میرے نزدیک یہ ایسا کہنے کے مترادف ہو گا کہ ’ہم یہاں ہیں۔‘
سیاح امریکہ کے بیئرز ایئرز نیشنل مونیومینٹ میں ایناسازی لوگوں کی ایک قدیم آبادی اور اناج ذخیرہ کرنے کی جگہ فالن روف کھنڈرات میں دیگر ہاتھوں کے نقوش بھی دیکھ سکتے ہیں جبکہ یوٹاہ کے قصبے بلف میں سینڈ آئیلینڈ پیٹروگلفس پینل میں مختلف صدیوں میں پتھروں پر بنائے گئے نقوش ہیں۔ ان میں کوکوپیلی بھی شامل ہے جو بانسری بجانے والا اور انسانی تولید کا دیوتا ہے۔
منگولیا کے ہرن ستون
رینیئر کہتے ہیں کہ ’منگولیا شاندار تاریخ والا ایک حیران کن ملک ہیں۔ شمالی منگولیا میں قدیم مدفن جابجا پائے جاتے ہیں۔ آپ گھاس کے میدان سے گزر رہے ہوں گے اور اچانک آپ کو پتھروں کا ڈھیر نظر آئے گا جس کے اندر کسی انتہائی معزز جنگجو کی قبر ہو گی۔ انہی پتھروں کے اندر آپ کو تلواروں، جواہرات کے ڈبوں سمیت اس جنگجو کی اپنی زندگی میں جمع کردہ کئی نادر اشیا ملیں گی۔‘
قریب ہی آپ کو ’ڈیئر سٹونز‘ کہلانے والے قدیم ستون نظر آئیں گے جو عام طور پر گرینائٹ کے ہوتے ہیں۔ رینیئر بتاتے ہیں کہ ’مدفن کے قریب ہی آپ کو ایک ہی چٹان کا بنا ہوا ایسا ستون نظر آئے گا جس پر دیومالائی ہرن بنا ہوا ہو گا جو جنگجو کے نیزے اور تیر لے کر بلند ہو رہا ہے۔ جب جنگجو (موت کے بعد) کسی جنت کی جانب پرواز کر رہا ہو تو ہرن اس کے ہتھیار ساتھ لے کر اس کے پیچھے جاتا ہے۔ تانبے کے دور میں بنائے گئے یہ ستون شمالی منگولیا میں اوشیگین اووور سائٹ پر ہیں جہاں یہ تصویر بھی لی گئی تھی۔ یہ ستون 13 ویں سے لے کر نوویں صدی قبلِ مسیح کے ہیں۔‘
اوشیگین اووور سائٹ پر تقریباً 30 ایسے ستون اور کئی پیٹروگلفس، پتھر کے مجسمے اور چٹانوں میں بنائے گئے مدفن ہیں۔ اس کے علاوہ خوئد تامیر وادی میں تانبے کے دور کی ایک اور سائٹ ہے جہاں ایسے 100 ہرن ستون ہیں۔
اس کے علاوہ ارخانگئی صوبے میں جرگالانتین آم نامی ایک جگہ کو ’ہرن ستونوں کی وادی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں ایسے کئی ستون آس پاس موجود ہیں۔
رینیئر کہتے ہیں کہ ’منگولیائی افراد کا اپنے ماضی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ہرن ستون منگولیائی ثقافت میں نہایت مقدس اور اہم تصور کیے جاتے ہیں۔‘