تحریریں

چائے کے دس دلفریب اور پرلطف حقائق: دھویں سے بھرے کاروان، موت کے بعد کا سامان اور انقلابی پیالی۔۔۔

آرام سے بیٹھ جائیں۔ یہ وقت ہے ایک گرم گرم چائے کی پیالی کا اور دنیا کے اس مقبول مشروب کے متعلق چند دلچسپ حقائق جاننے کا۔

پتوں سے بنے اس مہک دار مشروب کے متعلق پوری دنیا میں گذشتہ تقریباً تین دہائیوں سے زیادہ عرصے ترجیحات شاید بدلتی رہی ہوں لیکن اس کی دلکشی ہمیشہ ہی قائم رہی ہے۔

اونٹوں کے کاروانوں سے لے کر سیاسی انقلابوں تک چائے ہمیشہ انسانوں کا ایک باقاعدہ ساتھی رہی ہے۔ ہاں، ان کو بھی نہ بھولیں جن کی میتوں کے ساتھ بھی چائے اور دیگر ضروری اشیا ’اگلے جہان‘ کے لیے دفن کی جاتی تھیں۔

لیکن یہاں چائے کے متعلق دس حیرت انگیز حقائق بیان کیے جارہے ہیں جو چائے کے بہت ہی زیادہ رسیا بھی شاید نہ جانتے ہوں۔

1۔ چین میں 200 سال قبلِ مسیح میں چائے کے پہلے استعمال کے شواہد

چین کے علاقے شیان میں ہینگ ینگ لنگ کے مقبرے میں چائے کے پتوں جیسا سفوف اور ٹیرا کوٹا کے بت ملے ہیں

مرکزی چین کے ینگ لنگ کے قدیم مقبرے میں خشک پتوں جیسی اشیا ملی ہیں۔

پتوں میں کیفین اور تھیانین کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ در حقیقت چائے ہی تھی جو کہ مرنے والے کے ساتھ دفن کر دی گئی تھی تاکہ وہ اسے موت کے بعد کی دنیا میں استعمال کر سکے۔

اس دریافت کے بعد پہلی مرتبہ چائے کے استعمال کی تاریخ مزید 200 سال پیچھے چلی جاتی ہے۔

2۔ چائے کی ساری قسمیں ایک ہی پودے کی نوع سے نکلی ہیں

ملیشیا میں کیمرون ہائی لینڈز چائے کی کاشت کی بہترین جگہوں میں سے ایک ہے

دنیا کی تمام چائے کا جدِ امجد ’کیمیلا سینینسِس‘ کا پودا ہے۔

اس سدا بہار جھاڑی یا چھوٹے درخت کے پتے اور کلیاں چائے بنانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔

مختلف قسم کی چائے کی وجہ اس کے مختلف کاشتکار، اگنے کے حالات اور پیداوار کا عمل ہے۔

3۔ ایک مذہبی مشروب

جاپان کی چائے کی تقریب پوری دنیا میں مشہور ہے

جاپان میں چائے چھٹی عیسویں کے آس پاس چین سے واپس آنے والے جاپانی مذہبی پیشوا اور سفارتکار لائے تھے اور دیکھتے دیکھتے یہ مذہبی برادری کا پسندیدہ مشروب بن گیا۔ اور کئی صدیوں تک سبز چائے اونچے طبقے کا خاص مشروب رہا۔

چین کے بودھ بھکشوؤں نے 15ویں صدی میں چائے کی تقریب متعارف کرائی لیکن جاپانیوں نے اسے اپنی ایک باقاعدہ رسم بنا دیا جو کہ بعد میں ایک نیم مذہبی اور سماجی روایت بن گئی۔

4۔ روسی کارواں

صدی کے اوائل تک اونٹوں کے کاررواں ایشیا سے چائے لے کر جاتے تھے۔ رشیئن کارواں چائے کا نام اسی سے لیا گیا ہے

روس میں زیادہ تر چائے چین سے آنے والے اونٹوں کے کارواں لاتے تھے۔

یہ اونٹوں کے کارواں مہینوں سفر کرتے اور چائے لے کر برِ اعظم کے دوسری طرف پہنچتے۔

راتوں کو ان کے کیمپوں کے باہر آگ لگانے سے پیدا ہونے والا دھواں آہستہ آہستہ چائے میں جذب ہوتا رہتا اور جب یہ ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ پہنچتے تو چائے کے پتوں میں دھویں کا ذائقہ آ جاتا جو اس چائے کی خاصیت تھا اور اسی لیے اسے آج بھی ہم رشیئن کارواں چائے کہتے ہیں۔

5۔ جب چین کی اجارہ داری ٹوٹی

17 ویں صدی میں جب چین اور برطانوی راج کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات ٹوٹے تو برطانیہ نے چائے کے لیے اور منڈیوں کی تلاش شروع کر دی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو کہ عالمی تجارت کو کنٹرول کرتی تھی، سکاٹ لینڈ کے ماہرِ نباتات رابرٹ فورچون کی خدمات حاصل کیں جو کہ پوری دنیا سے نایاب پودے اکٹھے کر کے اشرافیہ کو فروخت کیا کرتے تھے۔

ان کو کہا گیا کہ وہ چین میں خفیہ طور پر جائیں اور چائے کے پودے انڈیا سمگل کریں تاکہ وہاں ایک متوازی صنعت قائم کی جا سکے۔

حیرت انگیز طور پر وہ 20 ہزار چائے کے پودے چین سے انڈیا کے علاقے دارجلنگ سمگل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ ان پودوں کی تو وہاں پہلے ہی بہتات ہے۔

لیکن یہ پھر بھی کہنا غلط نہ ہو گا کہ انڈیا کو چائے کا گھر بنانے میں رابرٹ فورچون کی سرگرمیوں کا بڑا عمل دخل تھا۔

6۔ چائے میں دودھ

انڈیا میں اگنے والے چائے کا پودا کیمیلیا سینینسِس آسامیکا کی ہی ایک ذیلی نسل ہے۔

آسام چائے کا ذائقہ سبز کی بجائے کالی چائے کی شکل میں زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ آکسیڈیشن یا عملِ تکسید سے پتے کالے ہو جاتے ہیں جو اس کا پھولوں جیسا ذائقہ ختم کر کے اسے گاڑھا، تیز اور ’جو‘ جیسا بنا دیتے ہیں۔

عموماً پہلے انگلش بریک فاسٹ چائے جس میں آسام کی چائے ہوتی تھی بہت تیز ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اس میں دودھ ڈالنے کی ضرورت پیش آئی۔

آج کل برطانیہ میں انگلش بریک فاسٹ چائے میں دودھ ڈالا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ یورپ کے دوسرے حصوں میں چائے میں دودھ ڈالنے کا رواج نہیں ہے۔

یہ اس لیے بھی ہے کہ نیدرلینڈز میں چائے انڈونیشیا کے علاقے جاوا سے آتی تھی جو تیز نہیں تھی اور اس میں دودھ ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور یہی پھر یورپ، سپین اور جرمنی میں مقبول ہوئی۔

7۔ ٹوسٹ پر چائے

کچھ لوگ پہلے اپنے ٹوسٹ پر چائے رکھ کر کھاتے تھے۔

جب پہلی مرتبہ 1657 میں چائے لندن لائی گئی تو لوگ اس بات پر پریشان تھے کہ اس کو پینے کا بہترین طریقہ کون سا ہے۔

یہ ایک مہنگی چیز تھی جو ہر کوئی نہیں خرید سکتا تھا اور دیکھتے ہی یہ نفاست کی علامت بن گئی۔

لیکن ہر کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ لوگ انھیں بھگو دیتے اور پھر اسے کھاتے یا مکھن لگے ٹوسٹ پر اسے رکھ کر کھاتے۔

8۔ چائے کی کافی پر فتح

روایتی طور پر ترکی دنیا کی سب سے بڑی چائے کی منڈیوں میں سے ایک ہے۔

زیادہ تر ترکی کی کالی چائے رز علاقے کے زرخیرز ڈھلوانوں سے آتی ہے جو بحیرۂ اسود کی مشرقی ساحل پر واقع ہے۔

اگرچہ ٹرکش کافی پوری دنیا میں مشہور ہے، لیکن ترکی میں سب سے زیادہ مقبول مشروب چائے ہی ہے۔

9۔ انقلاب میں چائے کا

مہاوک انڈینز کے بھیس میں بوسٹن کے قوم پرست برطانیہ کے چائے کے کارگو پر حملہ کرتے ہوئے

سنہ 1773 میں امریکہ کے بوسٹن شہر کے رہائشی برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی دور کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

اسی دوران بوسٹن ٹی پارٹی وجود میں آئی جس نے برطانوی حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے چائے پر ٹیکس کے خلاف احتجاج کیا۔

رات کے اندھیرے میں قوم پرستوں نے بوسٹن کی بندرگاہ پر کھڑے تین برطانوی جہازوں پر حملہ کیا اور ان میں موجود چائے کے 342 کنٹینر سمندر میں پھینک دیے۔

اس احتجاج نے امریکی آزادی کی جنگ کو ایک قدم اور نزدیک کر دیا۔

10۔ اپنی چائے پہچانیں

اور یہ بھی کہ جب آپ مختلف قسم کی چائے پیتے ہیں تو آپ اس کی خوشبو، ذائقے اور شکل پر توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ چائے کو شڑپ سے یا آواز نکال کر پینے سے اس کے ذائقہ کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔

تو ہو جائے ایک پیالی!

یہ بھی پڑھیں