مٹی کے چولہے کے سامنے بیٹھی عورت نے اپنی ساڑھی کے کنارے سے چولہے میں آگ کو بھڑکایا اور باجرے کی روٹی کو توے پر پلٹ دیا۔
اس نے اس کے اوپر گھی کا ایک چمچ لگا ایک شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ باجرے کی روٹی کو میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ اسی پلیٹ میں چنوں سے بنا ہوا سالن بھی تھا۔
میں موسم سرما کے وسط میں وسطی انڈیا کے ناگپور شہر کے قریب ایک جنگل میں تھا اور باجرے کا تھوڑا سا میٹھا ذائقہ مجھے اندر سے گرما رہا تھا۔
باجرا اناج کا ایک گروپ ہے جو کم زرخیز اور ایسی زمینوں میں اگایا جا سکتا ہے جہاں فصلوں کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے
باجرا ایک ایسا اناج ہے جو کئی طرح سے کھایا جاتا ہے۔ اسے دلیہ اور چاول کے متبادل بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی روٹی بھی بنائی جاتی ہے۔
کسی زمانے میں روایتی انڈین کھانوں میں باجرے کا اہم کردار تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب باجرے کی قدر میں کمی ہو گئی تھی لیکن اور اب یہ انڈیا سمیت دنیا بھر میں آہستہ آہستہ واپس آ رہا ہے۔
باجرے کی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے اقوام متحدہ نے 2023 کو باجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے۔
دسمبر 2022 میں ایک تقریب میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کیو ڈونگیو نے باجرے کی غذائیت اور چھوٹے کسانوں کو بااختیار بنانے، غذائی تحفظ کے مسائل سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے حصول میں باحرے کے منفرد کردار کے بارے میں بات کی تھی۔
اگرچہ یہ گلوبل نارتھ کے زیادہ تر افراد کے لیے خبر ہو سکتی ہے لیکن باجرا کئی صدیوں سے انڈیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں بنیادی غذا رہا ہے جو کم از کم پانچ ہزار سال پہلے چین سے آیا تھا۔
انڈیا کے مختلف علاقوں میں باجرے کی نو اقسام کاشت کی جاتی ہیں جیسے جوار، انگلی باجرا، چھوٹا باجرا، کوڈو باجرا، فاکس ٹیل باجرا اور بارن یارڈ باجرا۔ یہ رنگ، سائز اور بناوٹ میں مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کی تقریباً ایک ہی طرح کی غذائیت ہوتی ہے اور ان سب کے کئی انڈین زبانوں میں مقامی نام ہیں، جو خطوں میں ان کی تاریخی مقبولیت کی تصدیق کرتے ہیں۔
انڈیا میں سنہ 1960 کی دہائی میں سبز انقلاب لانے کی کوششوں میں باجرے کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ انڈیا میں غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے گندم اور چاول کی فصلوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
باجرے کو سرکاری طور پر ’کھردرا اناج‘ قرار دیے جانے سے باجرے کی شہرت کو نقصان پہنچا اور چاول اور گندم کے مقابلے میں اس کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔
باجرے کو دیہاتیوں اور غریبوں کی خوراک کے طور پر دیکھا جانے لگا جسے دیہی پکوان جیسے راگی مڈی اور جوار روٹی کو سستے اور پیٹ کو بھرنے والے کھانے کے طور پر کھاتے تھے۔
تاہم دیہاتیوں کے لیے باجرے کا رتبہ رزق سے کہیں زیادہ تھا۔ مثال کے طور پر ان کا ماننا تھا کہ باجرا راب (ایک پتلا دلیہ) کھانے سے سردی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
باجرے کو کھانے والے ایسی باتیں کرتے ہیں کہ کس طرح ناشتے میں صرف دو راگی کھانے سے پورا دن توانائی فراہم کرتی ہے۔
جس عورت نے مجھے باجرے کی روٹی کھلائی ہے ایسی عورتوں نے دیہی انڈیا میں باجرے پر مبنی کھانے کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اس خوراک کے بارے میں آگاہی اگلی نسلوں کو منتقل کر رہی ہیں۔
اب دیہاتیوں کے علاوہ شہروں میں بھی باجرے کی تعریف ہونے لگی ہے۔
منو چندر وینچرز کے شیف اور بانی منو چندر، جو برسوں سے باجرا کاشت کر رہے ہیں، افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جدیدیت اور بڑھتی ہوئی سہولتوں کے ساتھ، ہم روایتی چیزوں کو بھول گئے ہیں اور ہماری دادی کی طرف سے پکائی جانے والی چیزوں کو بھول گئے ہیں۔
’یہ دیکھتے ہوئے کہ ہم انڈینز میں زیابیطس کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ہماری غذا میں باجرا شامل کرنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن [انھیں] چاول اور گیہوں کی قربان گاہ پر قربان کیا گیا ہے۔‘
ممبئی سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت امیتا گادرے کے مطابق ’باجرا نہ صرف قدرتی طور پر گلوٹین سے پاک ہوتا ہے بلکہ ان میں پروسیسڈ گیہوں اور چاول کے مقابلے آئرن اور کیلشیم کی سطح بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔
وہ فائبر سے بھی بھرپور ہوتے ہیں جو انھیں بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے یا انسولین کی مذاحمت کا انتظام کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے ایک اچھا انتخاب بناتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک سو گرام راگی اناج میں 344 گرام کیلشیم ہوتا ہے جبکہ چاول میں صرف 33 گرام اور گندم میں 30 گرام کیلشیم ہوتا ہے۔
اور پھر باجرا اگانے کے زرعی فوائد بھی ہیں۔ پونے میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں کیمسٹری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں دی ملٹ پروجیکٹ کی بانی امرتا حاجرہ نے وضاحت کی کہ باجرا سخت فصل ہے جسے زیادہ پانی یا کھاد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور اسے خشک حالات میں اگایا جا سکتا ہے۔
’وہ زمینیں جو کسی اور چیز کو اگانے میں استعمال نہیں ہو سکتیں ان پر اب بھی باجرا اگ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس فصل کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے اور انھیں بڑی فصلوں کے موسموں کے درمیان اگایا جا سکتا ہے اور وہ مٹی کو اپنے مائیکرو نیوٹرینٹس کے سیٹ سے بھی مالا مال کرتے ہیں۔‘
اس کو دیکھتے ہوئے پچھلی دہائی میں انڈین حکومت نے باجرے کی فصل اگانے کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی، جس کی شروعات باجرے کو ’کھردرا اناج‘ کہنے کے بجائے ’غذائی اجزا‘ کے طور پر کرنے سے ہوئی ہے۔
عالمی سطح پر باجرے کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر سفارتی زور دیا گیا، جس کا مقصد انڈیا کو باجرے کی پیداوار کا ایک بڑا مرکز بنانا تھا۔
باجرا اب آہستہ آہستہ انڈین غذاؤں میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔ امیر صارفین سے لے کر جو تندرستی کی تلاش میں جدید کھانوں کی طرف دیکھتے ہیں، متوسط طبقے کی مائیں غذائیت سے بھرپور باجرے کو خاندانی کھانوں میں شامل کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔
مشہور ریستوران بھی دوسری اجناس سے ملا کر باجرے کی کھپت کو فروغ دے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، ممبئی کی مشہور ’بمبئی کینٹین‘ کے مینیو میں اکثر باجرے کے پکوان جیسے جو اور جوار سلاد، اور سبزی حلیم کے ساتھ کوڈو، پروسو اور فوکس ٹیل باجرا (عام طور پر گوشت، گیہوں اور دال کے ساتھ بنایا جانے والا لذیذ دلیہ) شامل ہوتا ہے۔
اس کے قریب ہی واقع ’نون‘ باجرے کے ٹورٹیلا اور ڈوسا کی ایک رینج پیش کرتا ہے جبکہ سوم جوار پیٹا اور راگی پین کیکس پیش کرتا ہے۔
بنگلور میں گو نیٹیو دیہی باجرا کھچڑی (عام طور پر چاول اور دال سے بنایا جانے والا دلیہ) اور راگی پیزا پیش کرتا ہے۔
چندرا کے مطابق ’باجرا کو صحیح معنوں میں وسیع البنیاد بنانے کے لیے انھیں روایتی ترکیبوں اور کھانا پکانے کے طریقوں کو برقرار رکھنے کے بجائے ایسی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے جو آج کی نسل کے لیے زیادہ قابل قبول ہو۔
ٹاٹا سولفل اور سلورپ فارمز جیسی باجرا کمپنیاں یہ کام سنیکس اور تیار شدہ کھانوں جیسے چپس، چکلی (عام طور پر پسے ہوئے چاول اور دال سے بنی ایک لذیذ تلی ہوئی ناشتہ) نوڈلز، پین کیک مکس اور ناشتے کے اناج کی شکل میں کر رہی ہیں۔
ٹاٹا سول فل کے منیجنگ ڈائریکٹر پرشانت پرمیشورن کا کہنا ہے کہ اس برانڈ کو بنانے کی ترغیب ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل امریکہ میں رہتے ہوئے کینوا کھانے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی سے ملی تھی۔ ’میں نے سوچا، ہمارے انڈین باجرے کیوں نہیں؟‘
یہ سب اس چیز میں اضافہ کر رہا ہے جسے گادرے ’پلیٹ پر تنوع‘ کہتے ہیں کیوںکہ وہ چاول اور گیہوں جیسی دیگر غذائی اجناس کے ساتھ باجرے کو متوازن اور متنوع غذا کے لیے اہم سمجھتی ہیں۔
’دوسرے ماہرین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ فوڈ رائٹر اور غذائی ماہر نندیتا ایر کے مطابق ’باجرا انڈیا میں حیاتیاتی تنوع کی بڑی کہانی کا حصہ ہے۔۔۔ اضافی فائبر کے ساتھ جو خون میں شکر کی سطح میں تیزی سے اضافے کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے باجرا کھانے سے ہمیں ہمارے کھانے میں زیادہ متنوع ذائقے اور ساخت بھی ملتی ہے۔‘
یہاں تک کہ ملک بھر میں چھوٹے شراب خانوں اور گیسٹروپب (جہاں کھانا اور شراب مہیا کی جاتی ہے) کے ذریعے باجرے سے بنی بیئر بھی پیش کی جاتی ہے جو باجرے کے سنیکس کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
پونے شہر میں واقع اپنی فیکٹری گریٹ اسٹیٹ ایل ورکس میں نکول بھونسلے کا مقصد ہے کہ ’ہمیشہ باجرا کی ایک بیئر ڈالیں اور ہر تین مہینے میں ایک نئی بیئر تیار کریں۔‘
فی الحال پائپ لائن میں ایک نیا جوار پلسنر ہے ’میں چاہتا تھا کہ میری بیئر ہر طرح سے مقامی ہو اور باجرا ہمارے وژن میں فٹ بیٹھتا ہے کیوںکہ ان کی کھیتی مہاراشٹر (جس ریاست میں پونے واقع ہے) میں کی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر باجرے کی بیئر گلوٹین سے پاک ہونے کے بارے میں ہیں لیکن ہمارے لیے یہ کسانوں کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں ہے۔‘
پرمیشورن باجرے کی اہمیت کا خلاصہ کرتے ہیں کہ ’باجرا نہ صرف صارفین کے لیے بلکہ کسانوں اور ماحول کے لیے بھی اچھا ہے۔ (باجرا کو گلے لگانا) باشعور صارفین کو یہ کہنے کے قابل بناتا ہے ’یہ آب و ہوا کی تبدیلی میں حصہ ڈالنے کا میرا طریقہ ہے۔‘ لہٰذا، یہ ایک ’سپر فوڈ‘ سے زیادہ ہے، یہ ایک سمارٹ کھانا ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ انڈیا پہلے ہی باجرا پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور باجرا کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، اس سال باجرے پر عالمی توجہ یقینی طور پر انڈین کسانوں کے لیے حوصلہ افزائی کے طور پر آئے گی۔