ہر سال کروڑوں مسلمان سحری سے لے کر سورج ڈھلنے تک روزہ رکھتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں دنیا کے کرۂ نصف شمالی میں رمضان گرمیوں کے موسم میں آتا ہے، جب دنیا کے کئی علاقوں میں گرمی پڑتی ہے اور دن لمبے ہوتے ہیں۔
ناروے جیسے شمالی ملکوں میں تو روزہ 20 گھنٹے سے زیادہ لمبا ہو سکتا ہے۔
کیا یہ صحت کے لیے مفید ہے اور اگر آپ لگا تار 30 دنوں تک ایسا کرتے رہیں تو آپ کے جسم پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
سب سے مشکل وقت: پہلے دو دن
تکنیکی طور پر آپ کا جسم روزہ شروع کرنے کے آٹھ گھنٹے تک معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہو جائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔
جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کے بطور خوراک استعمال سے وزن گھٹنا شروع ہو جاتا ہے، کولیسٹرول کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جسم میں شوگر کم ہونے سے کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سردرد، سر چکرانا، متلی اور سانس سے بدبو جیسی شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب شدید بھوک لگنا شروع ہو جاتی ہے۔
تیسرا تا ساتواں دن: پانی کی کمی
جب جسم روزے کا عادی ہو جاتا ہے تو چربی کو پگھلا کر اس سے گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے اس لیے افطار کے بعد پانی زیادہ مقدار میں پینا چاہیے کیوں کہ روزے کی حالت میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن واقع ہو سکتی ہے۔
اس دوران آپ کے کھانوں میں ’توانائی والی خوراک‘ شامل ہونا چاہیے، جیسے نشاستہ دار غذائیں اور چربی۔
یہ ضروری ہے کہ خوراک متوازن رہے اور اس میں لحمیات، نمک اور پانی شامل رہیں۔
آٹھ تا 15 دن: عادت بن جاتی ہے
تیسرے مرحلے میں جسم کے روزے کے عادی ہو جانے سے موڈ بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر رزین معروف کیمبرج میں اینیستھیزیا اور انٹینسیو کیئر میڈیسن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ مزید فائدے بھی ہیں۔
’عام زندگی میں ہم روزانہ ضرورت سے زیادہ کیلوریز استعمال کرتے ہیں، جس سے جسم کو دوسرے ضروری کام، مثلاً اپنی مرمت کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا۔
’روزے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور جسم اپنی توجہ دوسرے افعال کی طرف مرکوز کر دیتا ہے۔ اس لیے روزہ جسم کو مندمل ہونے اور جراثیم کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘
16 تا 30 دن: زہر رفع
رمضان کے آخری دنوں میں جسم فاقہ کشی کے عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
بڑی آنت، جگر، گردے اور جلد اس دوران زہر رفع کرنے کے عمل (detoxification) سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر معروف کہتے ہیں: ’اس دوران اعضا کا فعل بھرپور قوت سے چلنے لگتا ہے اور آپ کی یادداشت اور ارتکاز کی قوت بہتر ہو جاتی ہے اور آپ کے اندر زیادہ توانائی آ جاتی ہے۔‘
اگر فاقہ کشی کئی دن تک مسلسل جاری رہے تو جسم پٹھوں کو پگھلانا شروع کر دیتا ہے، لیکن رمضان میں ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ روزہ ایک دن میں ختم ہو جاتا ہے۔
تو کیا روزہ صحت کے لیے مفید ہے؟
ڈاکٹر معروف کہتے ہیں، جی ہاں، مگر ایک شرط کے ساتھ۔
’روزہ صحت کے لیے اچھا ہے کیوں کہ اس سے ہمیں اس بات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا کھانا اور کب کھانا ہے۔ البتہ میں اس کا مشورہ نہیں دے سکتا کہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک روزے جاری رکھے جائیں۔
وہ کہتے ہیں: ’مسلسل روزہ وزن کم کرنے کے لیے اچھی چیز نہیں ہے کیوں کہ بالآخر آپ کا جسم چربی کو توانائی میں ڈھالنے کی بجائے پٹھوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اچھی بات نہیں اور اس کا مطلب ہے کہ آپ کا جسم فاقہ کشی کی حالت میں چلا گیا ہے۔‘