روس کے ایک گوشے میں آرکٹک دائرے کے جزیرہ نما کولا کی جھیلیں، جنگل، دھند اور برف ایک ایسا طلسماتی منظر پیش کرتے ہیں جیسے وہ پریوں کی کہانیوں کے دیس ہوں۔
لیکن ان دلکش مناظرِ قدرت کے درمیان روس کے سائنسی تحقیقی سٹیشن کی متروکہ عمارت کا ڈھانچہ کھڑا نظر آتا ہے۔ اس خستہ حال عمارت کے وسط میں فرش پر زنگ آلود دھات کا ایک بڑا سا ڈھکن ہے جسے موٹے موٹے زنگ آلود نٹ بولٹ سے بند کیا گيا ہے۔
بعض لوگوں کے مطابق یہی ’جہنم کا دروازہ‘ ہے۔ یہ ’کولا سُپرڈیپ‘ زمین پر سب سے گہرا سوراخ ہے جو انسان کا کھودا ہوا ہے۔
یہ زمین میں 40230 فٹ یعنی سوا 12 کلو میٹر اندر تک جاتا ہے۔ اس قدر گہرائی تک جاتا ہے کہ مقامی لوگ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ’آپ وہاں جہنم میں سزا یافتہ روحوں کی چیخیں سن سکتے ہیں۔‘
سوویت روس کو یہ سوراخ کھودنے میں 20 سال لگے ہیں لیکن اب تک زمین کے ’مینٹل‘ یعنی زمین کے اندر اس کی سب سے سخت تہہ تک پہنچنے کے لیے زمینی پرت کے ایک تہائی حصے تک ہی پہنچا جا سکا تھا کہ سوویت روس میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے اس کام کو روکنا پڑا۔
سوویت عہد کا ’سپر ہول‘ یا ’بڑا سوراخ‘ صرف اکیلا ایسا سوراخ نہیں ہے۔ سرد جنگ کے دوران دنیا کی سپر پاورز کے درمیان زمین کے اندر زیادہ سے زیادہ گہرائی تک کھدائی کرنے کی دوڑ لگی تھی اور وہ زمین کے اندر اس کے مینٹل تک پہنچنا چاہتے تھے۔
اب جاپانی وہاں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی سائنٹفک ڈرلنگ پروگرام کے اولی ہارمز کہتے ہیں کہ ‘آہنی پردے کے دور میں کھدائی کا کام شروع ہوا تھا۔۔۔ اور ہمارے درمیان واقعی مقابلہ تھا۔ اس کا ایک محرک یہ تھا کہ روسی اپنے اعداد و شمار ظاہر نہیں کر رہے تھے۔’
اولی ہارمز اپنی جوانی میں کولا بورہول کے مقابلے میں جرمنی کی جانب سے شروع کیے گئے کھدائی کے پراجیکٹ پر کام رہے تھے۔
انھوں نے کہا ‘جب روسیوں نے کھدائی شروع کی تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں آزاد پانی ملا ہے جس پر زیادہ تر سائنسدانوں کو یقین نہیں تھا۔ مغربی سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ زمین کے نیچے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر زمین کی پرت اس قدر کثیف ہوتی ہے کہ پانی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔’
جاپان ایجنسی برائے آبی و ارضی سائنس کے پروگرام منیجر شان توزکو کا کہنا ہے کہ ‘اس پراجیکٹ کا حتمی مقصد زمین کے مینٹل (کور) کا تازہ نمونہ لینا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘عمان جیسی جگہ پر مینٹل زمین کی سطح سے نزدیک تر ہے لیکن یہ وہ مینٹل ہے جو لاکھوں سال قبل تھا۔ زندہ ڈائنو سار اور ڈائنو سار کے فوسلز اور ہڈیوں میں فرق ہوتا ہے۔’
اگر زمین پیاز کی طرح ہے تو اس کی پرت پیاز کی پتلی جھلی کی طرح ہے جو صرف 40 کلومیٹر دبیز ہے۔ اس کے بعد 1800 میل گہرا مینٹل ہے اور اس کے بعد ٹھیک زمین کے مرکز میں اس کا کور یعنی مرکزی حصہ ہے۔
خلا میں جانے کے مقابلے کی طرح زمین کی تہہ میں تحقیق کے معاملے میں بھی مقابلہ رہا جو انجینیئرنگ کی صلاحیت، جدید ترین ٹکنالوجی اور ‘درست چیز’ کے مظاہرے کے لیے تھا۔
سائنسدان وہاں تک پہنچ رہے تھے جہاں پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ زمین کے اندر گہرائی میں کی جانے والی اس کھدائی میں چٹانوں کے نمونے سائنس کے لیے اتنے ہی اہم تھے جتنے امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ذریعے چاند سے لائی جانے والی کوئی چیز۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس معاملے میں امریکہ کی جیت نہیں ہوئی۔ در حقیقت کسی کی بھی جیت نہیں ہوئی۔
زمین کی اندرونی سرحدوں کو جاننے کے لیے امریکہ نے پہلے کھدائی شروع کی اور سنہ 1950 کی دہائی کے اواخر میں امریکن میسیلینیئس سوسائٹی نے زمین کے مینٹل تک کھودنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سوسائٹی امریکی سائنسی برادری کے سرخیلوں پر مبنی تھی۔
ناول نگار جان سٹین بیک نے کہا کہ بہت ہی زیادہ گہرا سوراخ کرنے کے بجائے امریکی مہم نے فیصلہ کیا کہ میکسیکو کے گوادالیوپ ساحل سے دور بحرالکاہل کے فرش میں کھدائی کر کے آسان راستہ تلاش کیا جائے۔
سمندر کے فرش میں کھدائی کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ وہاں زمین کی پرت نسبتاً پتلی تھی لیکن یہاں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ زمین کی پرت وہاں سب سے زیادہ پتلی تھی جہاں سمندر سب سے زیادہ گہرا تھا۔
سوویت روس نے آرکٹک سرکل یا دائرے میں سنہ 1970 میں کھدائی شروع کی جبکہ جرمن کانٹینل ڈیپ ڈرلنگ پروگرام (کے ٹی بی) بالآخر سنہ 1990 میں شروع ہوا اور انھوں نے نو کلومیٹر گہرائی تک کھدائی کی۔
جیسا کہ چاند پر جانے کے مشن کے ساتھ تھا یہاں بھی یہ مشکلات درپیش تھیں کہ مہم کی کامیابی کے لیے نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی ضرورت تھی
جب سنہ 1961 میں سمندر کی تہہ میں پروجیکٹ موہول کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا اس وقت تیل اور گیس کے لیے بھی کھدائی کرنا دور کی بات تھی۔ اس وقت تک کسی نے ڈائنامک پوزیشننگ جیسی ضروری ٹیکنالوجی ایجاد نہیں کی تھی تاکہ کھودنے والی کشتی کنویں کے اوپر ٹھہر سکے۔ اس کے برعکس انجینیئروں کو نیا طریقہ اپنانا پڑا اور انھوں نے جہاز کے دونوں طرف پروپیلر کا ایک نظام نصب کیا تاکہ جہاز اس سوراخ یا کنویں کے پاس ٹھہرا رہے۔
جرمن انجینئروں کے سامنے سب سے بڑا ایک چیلنج یہ تھا کہ انھیں جہاں تک ممکن ہو بالکل عمودی کھدائی کرنی تھی۔ اس کے حل کے لیے انھوں نے جو ٹیکنالوجی تیار کی وہ آج دنیا بھر میں تیل اور گیس نکالنے کے لیے معیاری ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔
اولی ہارمز کہتے ہیں ‘روسیوں کے تجربے سے ایک بات واضح تھی کہ آپ جہاں تک ممکن ہو بالکل عمودی کھدائی کریں نہیں تو آپ کے سوراخ میں پیچ اور بل آتے جائيں گے۔ اس کے لیے عمودی ڈرلنگ کا نظام تیار کرنا پڑا۔
’اب یہ اس شعبے میں معیاری اوزار ہیں جو کہ حقیقی طور پر کے ٹی بی کے لیے تیار کیے گئے تھے اور اس نے زمین کے اندر ساڑھے سات کلومیٹر گہرائی تک کھدائی کی تھی۔ اس کے بعد آخر کے ڈیڑھ سے دو کلومیٹر میں سوراخ تقریباً 200 میٹر تک سیدھی لائن سے ہٹ کے تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا ‘ہم نے سنہ 1980 کے اواخر اور سنہ 1990 کے اوائل میں کسی حد تک روسی تکنیک کا اس وقت استعمال کرنے کی کوشش کی جب وہ مغربی دنیا سے قدرے زیادہ کھلنے لگے۔ لیکن بدقسمتی سے اوزار وقت پر حاصل نہیں ہو سکے۔’
بہرحال ان تمام مہمات کا انجام مایوس کن تھا۔ غلط آغاز ہوا اور رکاوٹیں آتی رہیں۔ پھر ان کی مشینوں کو زمین کے اندر موجود زیادہ درجۂ حرارت کا سامنا رہا۔ جبکہ سائنسدانوں کے سب سے زیادہ گہرائی تک کھودنے کا ریکارڈ قائم کرنے میں اخراجات اور سیاست بھی رکاوٹ بنے۔
نیل آرم سٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے سے دو سال قبل امریکی کانگریس نے پروجیکٹ موہول کی فنڈنگ اس وقت منسوخ کردی جب اس کے اخراجات بڑھنے لگے اور قابو سے باہر ہو گئے۔ جو چند میٹر بسالٹ یعنی سنگ سیاہ کو زمین کی تہہ سے باہر لانے میں کامیاب ہوئے ان کا خرچ آج کے دور میں تقریباً چار کروڑ امریکی ڈالر آیا تھا۔
اس کے بعد کولا سپر ڈیپ بورہول کی باری تھی۔ سنہ 1992 میں کھدائی اس وقت روک دی گئی جب درجۂ حرارت 180 ڈگری سنیٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ یہ اندازے سے دوگنا درجہ حرارت تھا اور اس کے بعد مزید گہرائی میں کھودنا ممکن نہیں رہا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس قسم کے پراجیکٹ کو فنڈ کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور تین سال بعد اس پراجیکٹ کو بند کر دیا گیا۔ اور اب یہ سنسان مقام مہم جو سیاحوں کی منزل بن کر رہ گیا ہے
جرمنز کی کھدائی کا انجام باقی ممالک کی کھدائی کی طرح نہیں رہا۔ ابھی بھی کھودنے والی بڑی مشینیں وہیں ہیں اور یہ آج سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ جگہ در حقیقت سیاروں کے مشاہدے کی جگہ یا پھر آرٹ گیلری بن کر رہ گئی ہے۔
جب ڈچ فنکار لوٹے جیون نے جرمن سوراخ میں اپنا مائکرو فون ڈالا تو انھیں گہرائی میں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی جس کی سائنسدان وضاحت سے قاصر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کا مائیکرو فون تھرمل شیلڈ سے محفوظ تھا۔ وہ ایک ایسی گڑگڑاہٹ تھی جسے سن کر وہ خود کو ‘بہت چھوٹا محسوس کرنے لگيں۔ میری زندگی میں پہلی بار یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں زندہ ہو اٹھی اور وہ آواز بار بار یاد آتی ہے۔’
انھوں نے مزید کہا ‘بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جہنم کی آواز تھی جبکہ دوسروں نے کہا کہ وہ زمین کو سانس لیتا ہوئے سن رہے تھے۔’
ہارمز کہتے ہیں کہ ‘وہاں سوویت یونین سے زیادہ گہری کھدائی کا منصوبہ تھا لیکن ہمیں جتنا وقت حاصل تھا اس میں ہم دس کلومیٹر تک بھی نہیں پہنچ سکے جس کی ہمیں اجازت تھی اور پھر جہاں ہم کھدائی کر رہے تھے وہ جگہ روسیوں کی کھدائی کی جگہ سے زیادہ گرم تھی۔ اور یہ واضح ہو گیا تھا کہ مزید گہرائی میں کھودنا بہت زیادہ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
‘اور پھر یہ سنہ 1990 کی دہائی تھی اور مزید گہرائی میں جانے کے لیے مزید فنڈ کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ جرمنی کے دونوں حصوں کے ایک ہونے میں بہت زیادہ پیسے لگ رہے تھے۔’
زمین کے مینٹل تک پہنچنے کی دوڑ مشہور ناول ‘جرنی ٹو دی سنٹر آف دی ارتھ’ کے احساس کو ہلا دینے کے لیے کافی تھا۔ سائنسدانوں کو اس بات کی امید نہیں کہ انھیں زمین کے اندر ڈائنوسار سے بھرا ہوا کوئی پوشیدہ غار ملے گا لیکن وہ اپنے پراجیکٹ کو ‘مہم’ قرار دیتے ہیں۔
نئے جاپانی پراجیکٹ سے منسلک ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں نیشنل اوشنوگرافی سینٹر میں بحر اور ارضیاتی سائنس کے شعبے میں جیو کیمسٹری کے پروفیسر ڈیمن ٹیگل کا کہنا ہے کہ ‘ان مشنز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سیاروں کی دریافت کی طرح ہیں۔ یہ خالص سائنسی پراجیکٹ ہیں جس میں آپ یہ نہیں جانتے ہیں کہ آپ کیا حاصل یا دریافت کرنے جا رہے ہیں۔
‘ڈی ایس پی ٹی اور اوشن ڈرلنگ پروگرام کے سوراخ 1256 پر ہم لوگوں نے زمین کی پرت کو مسلم دیکھا۔ کسی کو پہلے یہ نہیں ملی تھی۔ یہ بہت پرجوش امر تھا۔ وہاں ہمیشہ حیران کر دینے والی چیزیں ہیں۔’
آج ‘ایم ٹو ایم یعنی موہول ٹو مینٹل’ بین الاقوامی سمندری دریافت پروگرام (آئی او ڈی پی) کے سب سے اہم پراجیکٹوں میں سے ایک ہے۔ اصل پراجیکٹ موہول کی طرح سائنسداں سمندر کے فرش پر کھدائی کرنا چاہتے ہیں جہاں زمین کی پرت صرف تقریباً چھ کلومیٹر چوڑی ہے۔
ایک ارب ڈالر کے انتہائی گہری کھدائی کے پراجیکٹ کا مقصد ‘ان-سیٹو’ مینٹل کی چٹانیں حاصل کرنا ہے جو کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ہو گا۔
جاپان کے نئے پراجیکٹ میں شامل ٹیگل نے کہا ‘ایسا کرنا حیرت انگیز ہو گا اور اس کے لیے جاپان کو بڑے عزم کی ضرورت ہو گی۔’
پراجیکٹ کی اہمیت کے باوجود کھدائی کرنے والا بڑا بحری جہاز چیکایو اس پراجیکٹ کے پیش نظر 20 سال پہلے تیار کر لیا گیا تھا۔ چیکایو میں جی پی ایس کے نظام کے ساتھ چھ ایڈجسٹ کیے جانے والے کمپیوٹر سے کنٹرول جیٹ بھی ہیں جو کہ اس بڑے جہاز کی جگہ کو زیادہ سے زیادہ 50 سینٹی میٹر تک ہی ہلنے دیں گے۔
شان ٹازکو نے کہا ‘اس کا تصور یہ ہے کہ جہاز اس جگہ کو چن کر 50 سال پرانے اصل موہول پروجیکٹ کی جگہ پھر سے کھدائی شروع کرے گا۔ سپر ڈیپ سوراخ نے ہمیں موٹی براعظمی پرتوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں بہت مدد کی ہے۔ ہم کرسٹ مینٹل کی سرحد کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کریں گے۔’
‘کھدائی کے تین اہم مقامات ہیں۔ ایک کوسٹا ریکا کے ساحل سے دور، ایک باہا اور ایک ہوائی کے ساحل سے دور۔’
ہارمز کا کہنا ہے کہ آخر میں یہ سب لاگت پر منحصر ہے۔ یہ مہمات بہت ہی مہنگی ہیں اور اسی لیے ان کو دہرانا بہت مشکل ہے۔ اس میں سینکڑوں لاکھ یورو لگ سکتے ہیں جس کا بہت ہی کم فیصد علم ارضیات کو جاننے کے لیے ہو گا باقی سب ٹیکنالوجی کے فروغ اور اس آپریشن میں لگ جائے گا۔