تحریریں

بابر اعظم لیجنڈ بنتے بنتے رہ گئے‘

لیگ سٹمپ لائن سے پرے بھٹکتی وہ گیند کسی بھی طور سے ایسے شاندار انجام کی مستحق نہ تھی۔ ہدف سے گمراہ وہ گیند تو اس نتیجے کی بھی مستحق نہ تھی کہ اٹھارہ سالہ کوینا مپھاکا کی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کر پاتی، کجا کہ وہ وکٹ بھی بابر اعظم جیسے عظیم بلے باز کی ہوتی۔

دوسری شام جب پاکستانی ٹاپ آرڈر کے تھکے قدم نئی گیند کی کاٹ سہنے سے معذور ٹھہرے تو بالآخر بابر اعظم اور محمد رضوان کی آزمودہ ساجھے داری کام کو آ گئی اور پروٹیز پیس کے سیلاب کے آگے کچھ بند باندھا۔

کسی بیٹنگ لائن پہ ایسے بھاری سکور بورڈ پریشر کے بعد تو کوئی نارمل اننگز کھیلنا بھی دشوار ہوتا ہے، جبکہ یہاں تو پاکستان کو صائم ایوب کی انجری بھی وہ چوٹ پہنچا چکی تھی کہ سارا بیٹنگ آرڈر ایک ہی ہلے میں بدل گیا۔

تیسری صبح ربادا اور یانسن نے بابر و رضوان کا رستہ روکنے کی کوشش کی۔ بالخصوص یانسن نے مڈل سٹمپ پہ پچھلی لینتھ سے گیند اندر لاتے ہوئے غلطیاں اکسانے کی کوشش کی۔ مگر پہلے ایک گھنٹے میں بابر اور رضوان نے ڈٹ کر وہ لڑائی لڑی جو پاکستان کو ان سے درکار تھی۔

بابر اعظم ایک لمبے قحط کے بعد متواتر اپنی دوسری نصف سینچری بنا چکے تھے اور جس فارم میں وہ دکھائی دے رہے تھے، جنوبی افریقی بولرز کے لئے یہ دن طویل تر کر سکتے تھے۔

مگر پھر مپھاکا کی وہ گیند آئی جو بعض اوقات، بولرز اپنے صبح کے ابتدائی سپیل میں صحیح لینتھ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غلطی سے پھینک بیٹھتے ہیں۔ بابر اعظم اور پاکستان دونوں کا مفاد اسی میں تھا کہ اس گیند کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا جاتا۔

مگر بابر اعظم جیسے بلے بازوں کی ایک اضافی دقت یہ بھی تو ہے کہ یکے بعد دیگرے ٹی ٹونٹی اور ون ڈے فارمیٹ کھیلنے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنا انتخاب بدل نہیں پاتے۔ جو نتیجہ بابر اعظم اس شاٹ سے حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں تو قابلِ توجیہہ تھا مگر یہاں ٹیسٹ کرکٹ میں اس کا کوئی بھی جواز لانا ناممکن تھا۔

نیولینڈز کی یہ پچ ایسی بے جان سطح تھی جہاں ایک ٹیم اننگز میں چار بلے بازوں کا بھی سینچری کر جانا دشوار نہ تھا اور بابر اعظم جیسے متنوع بلے باز کے لئے تو یہ کسی لاٹری سے کم نہ تھی جہاں وہ کوئی لیجنڈری اننگز کھیل کر تاریخ میں امر ہو جاتے۔

بالآخر سینچورین پارک میں فتح سے دو قدم پیچھے ہانپ جانے والے ڈریسنگ روم میں بھی تو بابر کو یہی ملال رہ گیا تھا کہ اگر وہ دوسری اننگز میں اپنا بنا بنایا پلیٹ فارم نہ گنواتے تو اس انہدام کا دروازہ ہی نہ کھلتا جہاں سے جنوبی افریقہ اپنے قدم واپس میچ میں سرکا پاتا۔

مگر جو ملال سینچورین پارک سے پلٹتے ہوئے بابر اعظم کے افسردہ چہرے پہ نمایاں تھا، ویسی ہی حسرت نیولینڈز سے ایک ہی دن میں دو بار واپس پلٹتے ہوئے ان کے چہرے پہ نظر آئی۔ بالآخر جنوبی افریقہ میں دوبارہ کب انہیں ایسی پچ نصیب ہو گی جس پہ سینچری بنانا اتنی مشکل نہ ہو گی؟

حالانکہ دوسری اننگز میں ان کے قدم زیادہ اعتماد سے متحرک تھے۔ ربادا اور مپھاکا کی تیز رفتاری کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہوں نے جلد ہی باوومہ کی وہ ساری خوش فہمی دور کر دی جو فالو آن نافذ کرتے ہوئے ان کے ذہن میں تھی۔

میچ میں برتری بھلے کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے، فالو آن کروانے کا فیصلہ کبھی پیچیدگی سے خالی نہیں ہوتا۔ بولرز کے تھکے قدموں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں میچ کی چوتھی اننگز میں بیٹنگ ہی واپس گلے نہ پڑ جائے۔

مگر باوومہ نے یہ مشکل فیصلہ بہت آسانی سے کر لیا۔ کیونکہ جس ناگوار انداز میں پاکستان نے اپنی پہلی اننگز گنوائی، اس نے جنوبی افریقہ کو یقین دلا ڈالا تھا کہ دوسری اننگز میں بھی یہ بلے باز ایسے ہی ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔

مگر باوومہ کے اس خیال کے جواب میں نہ صرف پہلی بار اوپننگ کا امتحان دیتے بابر اعظم تن کر کھڑے ہو گئے بلکہ مسلسل خراب فارم سے الجھتے شان مسعود بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور شام ڈھلنے سے پہلے تک بہت سی سوچیں واپس جنوبی افریقی ڈریسنگ روم کو بھی لوٹا دیں۔

فالو آن کی خفت مسلط ہونے کے بعد ایک اننگز سے بھی بھاری شکست کا جو خدشہ پاکستان پہ لٹک رہا تھا، شان مسعود کی سینچری نے کافی حد تک وہ خدشہ ٹال تو دیا ہے مگر پاکستان کو اس میچ میں، بظاہر ناممکن، بقا حاصل کرنے کو شان مسعود جیسی ہی کم از کم تین اور اننگز درکار ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں