تمہیں میں نے کہا بھی تھا کہ اتنی دور مت جاؤ جہاں جاتے ابابیلوں کے پر جھڑنے لگیں خوشبو اڑے تو راستوں کی دھول ہوجائے کبوتر، وصل کا پیغام دینے کو اڑیں اور دور جاتی کشتیوں کے بادباں ان کے پروں کو نوچ لیں! میں نے کہا بھی تھا…! کہ اتنی دور مت جاؤ اگر جانا ضروری ہے تو موسم کو ذرا کروٹ بدلنے دو ابھی تو سردیوں کی آتشیں رت ہے کہ جب دن مختصر، راتیں بہت لمبی ، سحر نا مہرباں شامیں بڑی بے کیف ہوتی ہیں ہوا میں برف کے گالو ں کی صورت تیرتی یادیں دبے پاؤں دریچے کھول کر کمرے میں آتی ہیں دہکتے کوئلوں پر کسمساتی راکھ سے سرگوشیاں کرتی ہیں دیواروں پہ سائے خواب ہوتے منظروں میں ڈھلنے لگتے ہیں تو تنہائی بڑی تنہا سی لگتی ہے تمہیں میں نے کہا بھی تھا…! کہ اتنی دور مت جاؤ مگر تم کو نہ جانے کیا جنوں تھا کون سی دھن تھی تمہیں شاید سمندر کی ہوائیں ساحلوں کی ریت یا شاید جزیروں پر مہکتی چاندنی یا روشنی کے شہر کی آشفتگی آواز دیتی تھی مگر یوں تو نہیں…! تم نے مجھے شاید بتایا تھا کہ میں ماحول کی یکسانیت سے تھک گئی ہوں اک نئی دنیا، نئے چہروں، نئے ماحول کی آسودگی مجھ کو بلاتی ہے جہاں تم بھی نہیں ہوگے“ اور اب میں بھی نہیں ہوں اک نئی دنیا، نئے چہروں نئے ماحول کی آسودگی بھی ہے مگر تم نے یہ کیا لکھا کہ ڈھلتی رات کے پچھلے پہر کی مضمحل سی، نیم آسودہ سی گھڑیوں میں دبے پاؤں حریم خواب میں آتا ہوں اور اک بے کلی سی چھوڑ جاتا ہوں یہ سب کیا ہے؟ کہ تم تو دھڑکنوں کے معنی و مفہوم پر تقریر کرتی سوچ کی تفسیر لکھتی ہو کبھی ہنگامہ ہائے زیست سے فرصت ملے تو غور کرنا اور مجھے لکھنا کہ جب کچھ منظروں کو بھول جانے کے لئے ہم اپنی آنکھیں نوچ کر اندھے کنویں میں پھینک دیتے ہیں بہت ہی میل خوردہ، غیرمستعمل کپڑوں کی طرح جن کو کسی سیلن زدہ کمرے میں یونہی ڈھیر کردیتے ہیں لیکن رت بدلتی ہے تو صندوقوں میں سوئی تہہ بہ تہہ کافور کی خوشبو بڑی مانوس لگتی ہے کسی اندھے کنویں سے جھانکتی آنکھیں بہت سے منظروں میں ڈھلنے لگتی ہیں یہ سب کیا ہے؟ کبھی ہنگامہ ہائے زیست سے فرصت ملے تو غور کرنا اور مجھے لکھنا…!