تحریریں

قراقرم ہائے وے اور دلچسپ معلومات

لوگوں نے ٹرک کا نام سُن رکھا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی چیز ہے اور وہ سوچا کرتے تھے کہ اگر گلگت بلتستان میں بڑا ٹرک آ گیا تو اس کو بازار میں کہاں رکھا جائے گا؟‘

’پھر جب گلگت میں پہلی بار جیپ آئی اور مرکزی بازار میں پہنچی تو ایک بوڑھی عورت نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گھاس کی گٹھری اس کے سامنے لا کر رکھ دی۔ اس نے سوچا کہ یہ گھوڑے کی طرح زندہ چیز ہے جو نجانے کب سے پیدل سفر میں ہے اور اب تھک گئی ہو گی۔‘

گلگت بلتستان کے محمد عباس کاظمی سمیت دیگر کئی بزرگ ایسے بہت سی کہانیوں کو یاد کرتے ہیں جو اس وقت مشہور ہو جاتی تھیں جب بھی اُن کے علاقے میں کوئی نئی چیز یا ٹیکنالوجی پہنچنے کے بعد مقامی افراد میں بازگشت کرتی تھیں۔

سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔

مگر یہاں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ قراقرم ہائی وے کی تعمیر ہے جو دنیا کی ’بلند ترین پختہ سڑک‘ ہے۔

چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے جُڑ جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو چین سے زمینی راستے کے ذریعے جوڑنے کا خیال سنہ 1956 سے سنہ 1958 تک پاکستان میں چین کے سفیر تعینات رہنے والے جنرل چینگ بایئو کا تھا، جس پر سنہ 1963 میں دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی۔

سنہ 1965 کی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف چین کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنے گئے تو اس وقت چین کے صدر نے بھی ان الفاظ میں ایک شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا تھا کہ ’اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک بہتر زمینی راستہ ہوتا تو یہ امداد بہتر انداز میں پہنچ سکتی تھی۔‘

بالآخر شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور اس کی تکمیل سنہ 1978 میں ہوئی۔ 1300 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی بنیاد قدیم شاہراہ ریشم تھی۔ اس شاہراہ کا 887 کلومیٹر کا حصہ پاکستان جبکہ 400 کلومیٹر سے زائد حصہ چین میں ہے۔

اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حال ہی میں اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔

شاہراہ قراقرم کا منصوبہ تشکیل دینے پر کام شروع ہوا تو انتہائی مشکل علاقے ہونے کے باعث یہ ذمہ داری فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے حصے میں آئی۔

دستیاب اعدادوشمار کے مطابق موسم کی شدت، شدید برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر اس سڑک پر کام کرنے والوں میں سے 800 سے زائد پاکستانی جبکہ 80 سے زائد چینی شہری تعمیر کے مختلف مراحل کے دوران ہلاک ہوئے۔

تعمیر کے وقت شاہراہ قراقرم کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایبٹ آباد سے بٹگرام تک پہلا حصہ، بٹگرام سے ٹھور تک دوسرا حصہ تھا۔ تیسرا حصہ ٹھور سے گلگت تک جبکہ چوتھا حصہ گلگت سے خنجراب تھا۔

تعمیر کی ذمہ داری ایف ڈبلیو او 491 اور 492 گروپ کو سونپی گئی تھی۔ 492 گروپ کے ذمے بشام سے گلگت تک سڑک تھی جبکہ دوسرے گروپ کی گلگت سے خنجراب تک کی ذمہ داری تھی جبکہ اس دوران دو نئی بٹالینز بھی قائم کی گئی تھیں۔

اس وقت حسن ابدال سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت ہنزہ، نگر، سوست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی سنکیانگ صوبے کے مشہور علاقے کاشغر میں ختم ہوئی۔

ان علاقوں تک افرادی قوت پہنچانے کے بعد بڑا مسئلہ وہاں بھاری مشینری کو پہنچانا تھا جس کے لیے امریکی کمپنی کی مدد سے ایئر فیلڈ قائم کی گئی اور رن وے کو مضبوط کیا گیا۔

اس کے بعد پی آئی اے کی چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے وہاں دیگر ساز و سامان منتقل کیا گیا۔ مگر اس وقت بھی پہلا کام گینتی بیلچوں اور معمولی اوزاروں سے شروع کیا گیا۔

اس منصوبے پر کام کرنے والے افسران بتاتے ہیں کہ اس کا ’پائلٹ کٹ‘ (ابتدائی کام) گینتی بیلچوں سے کیا گیا۔

قراقرم کی سخت پتھریلی چٹانوں میں رستے بنانے کے لیے آٹھ ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال ہوا اور شاہراہ کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔

خنجراب کے مقام پر سب سے پہلے تعینات ہونے والے لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید ناصر ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے تعیناتی کی خبر کا احوال سُناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جون 1966 میں مجھے بلایا گیا اور کہا گیا کہ تمھیں ایک غیر ملکی دورے پر بھیج رہے ہیں اور یہ ایک طویل دورہ ہے۔ یہ کہا گیا کہ چین جانا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ میں سڑک بنانے والی ٹیم کے انچارج ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دوسرے دن میں نے جب پوچھا کہ یہ سڑک بننی کہاں ہے تو بتایا گیا کہ چین کی سرحد سے شروع کر کے گلگت لانی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر چین سے یہاں لانی ہے تو یہ علاقہ تو دس ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلندی پر ہو گا۔ آپ مجھے جگہ کا نام بتائیں تاکہ میں نقشے میں اس علاقے کی بلندی دیکھ سکوں۔ تو انھوں نے مسکرا کر کہا کہ ابھی تم نقشے میں خنجراب ڈھونڈنا۔ بڑی مشکل سے اگلے روز خنجراب ڈھونڈا تو نقشے کے مطابق اس کی اونچائی 16 ہزار پانچ سو فٹ تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس منصوبے کے لیے یہاں 150 فوجی اہلکار بھیجے گئے۔ مگر یہاں تعینات ہونے والے افسران اور جوانوں میں سے کسی کو خنجراب کا علم نہیں تھا کہ یہ کیسا علاقہ ہے اور یہاں کس قسم کی آبادی ہے۔

’جما دینے والی سردی، بلندی پر آکسیجن کی کمی اور یہاں سے مرکزی کمانڈ تک رابطوں کا کوئی ذریعہ نہ ہونا سب سے بڑے مسائل تھے۔ ابتدائی دنوں میں ہی ایسے واقعات ہوئے کہ فراسٹ بائٹ کے باعث یہاں تعینات بعض اہلکاروں کے ہاتھ کاٹنے پڑے۔‘

سمندر کی سطح سے 16 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر موجود اس برف کے میدان سے انھوں یہ پیغامات بھیجے کہ ان کے ساتھی اس قدر سردی میں مر جائیں گے۔

ساجد بصیر شیخ جنھوں نے بطور کپتان سڑک کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں کمان کی کہتے ہیں کہ ان کے زیر کمان علاقے یعنی کوہستان میں ’ایسا لگتا تھا کہ لوگ اس وقت پتھر کے زمانے میں تھے۔ یہاں تک کہ روٹی بھی پتھر پر پکائی جاتی تھی۔‘

’پہلے تو وہ خوفزدہ تھے مگر جب ان کو نوکریاں ملیں، پیسے ملنا شروع ہوئے اور ان کی زندگی کا نظام تبدیل ہونا شروع ہوا تو یہ ان کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اور پھر ان کے حالات بہتر ہوتے گئے۔‘

اور یہی وہ تبدیلی ہے جس کی بات گلگت بلتستان کے تاریخ دان یوسف حسین آبادی کرتے ہیں

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہاں بعض مقامات پر چھوٹی، کچی اور موسمی سڑکیں تو موجود تھیں مگر گلگت میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر نے یہاں زندگی تبدیل کر دی۔

’گرمیوں کے تین مہینوں میں یہاں دو تین گاڑیاں چلتی تھیں۔ تین جیپیں بھی یہاں پہنچیں کیونکہ اس وقت آرمی اور سول محکمے نے مقامی طور پر کچی سڑکیں بنائی ہوئی تھیں۔‘

’قراقرم ہائی وے بنی تو گلگت کے اردگرد کے علاقے بھی ملک کے دیگر حصوں سے جڑ گئے۔ پھر سیاحت بڑھی، کاروبار پھیلے اور لوگوں نے ترقی کی۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1981 میں شاہراہ قراقرم کے اردگرد موجود علاقوں میں اوسطاً شرح خواندگی 14 فیصد تھی جو سنہ 1992 میں 37 فیصد جبکہ سنہ 2012 میں 52 فیصد تک پہنچ گئی۔

سنہ 1981 میں خواتین میں شرح خواندگی صرف تین فیصد تھی، مگر 2012 میں تعلیمی اداروں میں 36 فیصد خواتین زیر تعلیم تھیں۔ اسی طرح یہاں معاشی لحاظ سے بڑی تبدیلیاں سامنے آئیں۔

سید محمد کاظمی پہلی بار گاڑی میں بیٹھنے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’جب میں پہلی بار یہاں گاڑی میں بیٹھا تو مجھے لگا جیسے میں آسمان میں اُڑ رہا ہوں۔ حالانکہ مجھے پتا تھا کہ میں زمین پر ہوں، گاڑی سڑک پر ہے۔ مگر اس کے باوجود مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں ہواؤں میں اڑ رہا ہوں، بڑی خوشی ہوئی اور حیرت بھی۔‘

لگ بھگ یہی تاثرات بیشتر مقامی بزرگوں کے تھے۔

‘لوگوں نے بہت خوشی منائی۔ کئی تو ایسے تھے جنھوں نے کبھی گاڑی دیکھی ہی نہیں تھی، کچھ لوگ کراچی گئے تھے اور وہ گاڑیوں سے مانوس تھے لیکن خاص طور پر خواتین، جن کا کہیں آنا جانا ہی نہیں تھا، ان کے لیے یہاں گاڑیاں آنا ایک عجیب اور انوکھی بات تھی۔‘

سید محمد عباس کاظمی اس سڑک کو بند کمرے میں ایک کھڑکی سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’سڑک سے پہلے تو یہ علاقہ پوری دنیا سے ہی کٹا ہوا تھا۔‘

’یہ ہمالیہ اور قراقرم کے سنگم پر بہت بلندی کا علاقہ ہے۔ قرقرام ہائی وے بننے سے اب ایسا لگتا ہے جیسے ایک بند کمرے میں کھڑکی کھل گئی ہو۔ بہت بڑی تبدیلی آئی۔ قراقرم ہائی وے سے ہمارا وسیع دنیا کے ساتھ تعلق قائم ہوا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بڑی گاڑیاں، بسیں، ٹرک آتے ہیں، کاروبار بڑھا ہے، سیاحت میں اضافہ ہوا، لوگوں کا آنا جانا بڑھا اور ہمارے اپنے لوگ تعلیم اور نوکری کے لیے پاکستان کے دوسرے علاقوں تک پہنچے۔ یہ ہمارے لیے خدا کی رحمت ہے۔

یہ بھی پڑھیں