پابلو کی فلم ‘سپنسر‘ کا ایک ٹائٹل کارڈ اسے ‘ایک حقیقی سانحے سے ماخوذ کہانی‘ قرار دیتا ہے جو شاید اس کہانی میں آنے والے زبردست اتار چڑھاؤ کا پیش خیمہ ہے۔
یہ کہانی غالباً ویلز کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی ہے، جن کا نام شادی سے قبل ڈیانا سپنسر تھا، مگر کسی بھی پیمانے کے تحت ہمیں عام طور پر کسی مشہور شخص کی زندگی پر بننے والی بائیو فلموں جیسی نہیں ہے۔
شہزادی ڈیانا کی زندگی پر آخری فلم سنہ 2013 میں اولیور کی ‘ڈیانا‘ آئی تھی جس میں دو سال کے عرصے پر توجہ مرکوز تھی۔ اس میں کیٹ کی لکھی سوانح عمری ‘ڈیانا، ہر لاسٹ لو‘ (2001) کا استعمال کیا گیا تھا اور ان کی طلاق کے بعد ماہرِ امراض قلب ڈاکٹر حسنات خان کے ساتھ رومانوی رشتے پر روشنی ڈالی گئی۔
مگر ان دونوں فلموں میں اس سے زیادہ فرق نہیں ہو سکتا۔ جہاں ’ڈیانا‘ ایک ہی فارمولے کے تحت بننے والی فلاپ تھی، وہیں ’سپنسر‘ میں شاندار ہدایتکاری جھلکتی ہے۔
زیرِ موضوع خاتون کی طرح خود بھی یہ فلم بیک وقت مانوس بھی لگتی ہے اور پراسرار بھی۔ اس میں ایک شاندار، غیر قدرتی حقیقت پسندی کے ساتھ وہ لمحات دکھائے گئے ہیں جو سنہ 1991 میں ملکہ برطانیہ میں کرسمس کی چھٹیوں پر شہزادی نے دیکھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کا شہزادہ چارلس سے تعلق اپنے آخری لمحات میں تھا۔
اس دورے میں ان کے ہر قدم، وہ کیا کھائیں یا کیا پہنیں، ہر ہر چیز کو ایک منظم عسکری انداز میں پہلے سے طے کیا گیا۔ ایک یادگار منظر جو ان کی دنیا کی تنگی ظاہر کرتا ہے، اس میں ڈیانا شاہی خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ کھانا کھا رہی ہیں۔ اس میں سب لوگ ایک روبوٹ کی طرح ایک ہی انداز میں اپنا سوپ پی رہے ہیں۔
کیمرہ ڈیانا کی نظر سے ایک سخت مزاج ملکہ کو دکھاتا ہے۔ اس کے ریورس شاٹ کی عکس بندی ڈیانا کے گرد تنگ ہوتی ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ خوف کے مارے وہ گلے میں پہنا ہار اس سوپ میں گرا بیٹھتی ہیں، پھر اسی خوف میں وہ موتی نگل جاتی ہیں۔ یہ اس فلم میں موجود ڈیانا کی حقیقی اور نفسیاتی تنہائی کی تشبیہ تھی۔
چلی سے تعلق رکھنے والے ہدایت کار کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک ایسی فلم بنانا چاہتے تھے جس پر ان کی والدہ فخر محسوس کر سکیں۔ ان کی دیگر فلموں کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ذرا غیر روایتی انداز میں فلم بند کی گئی ہیں۔ تو پھر ڈیانا ہی کیوں؟
اس سوال کے جواب میں وہ بی بی سی کلچر کو بتاتے ہیں کہ ‘مجھے صحیح سے نہیں پتا۔ میں جب چلی میں بڑا ہو رہا تھا تو میں نے اپنی والدہ کہ ان میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ اس وقت میں ایک چھوٹا سا لڑکا تھا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ تو ڈیانا کے لاکھوں مداحوں میں سے ایک تھیں۔ جب 1997 میں ڈیانا کی وفات ہوئی تو مجھے لگا کہ پوری دنیا غم میں تھی۔‘
لائے رین نے ڈیانا پر فلم بنانے کا فیصلہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کی بیوہ جیکی پر 2016 میں فلم بنانے کے بعد کیا تھا۔ اس فلم کا نام بھی انھوں نے ’جیکی‘ رکھا تھا۔ اسی طرح انھیں ’سپنسر‘ بنانے سے پہلے کافی تحقیق کرنی پڑی، جس دوران انھوں نے ڈیانا کے بارے میں سینکڑوں آرٹیکل پڑھے، جس میں بی بی سی کا مواد بھی شامل تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں ثقافتی اعتبار سے وہ جدید دور کی سب سے زیادہ معروف شخصیات میں سے ایک ہیں اور اس کے باوجود دنیا کی پراسرار ترین شخصیات میں سے بھی۔ یہ تضاد فلم اور آرٹ کے لیے بہترین ہے۔‘
لائے رین شاید اس خیال میں درست ہیں کیونکہ دنیا میں اتنے سارے فلم سازوں، ٹی وی کمشنرز، مصنفین، آرٹسٹ، فنکار اور موسیقاروں نے اس کہانی کو اپنے فن میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
چاہے وہ ڈرامائی تضاد ہے یا کچھ اور، ان سے متاثر ہو کر کئی فن پارے بنے ہیں۔ ان کی سابق رہائش پیلس میں ان کا مجسمہ ہو یا ٹی وی یا فلم یا تھیٹر، کم از کم ایک درجن اداکاراؤں نے ان کا کردار نبھایا ہے۔
مگر معیار کے پیمانے کی دوسری جانب ’ڈیانا‘ کھڑی ہے۔
فلم ناقد گائے لوج کہتے ہیں کہ نائے ومی واٹس کی ’ڈیانا‘ کی ناکامی ظاہر کرنے کے لیے آپ کو اس کا کسی اور فلم سے موازنہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ‘یہ ایک غیر معیاری سکرپٹ، ہدایتکاری اور فنکارہ کی مثال ہے۔‘
اس کے بعد 2021 میں ’ڈیانا دی Musical‘ بھی ایک سستے براڈ وے شو کی طرح ناکام رہا اور اس کا کافی مذاق اڑایا گیا۔ حال ہی میں اس میوزیکل کو Netflex پر ریلیز کیا گیا ہے۔
اس میں ڈیانا کے بارے میں بہت سی ایسی غلط معلومات شامل کی گئی ہیں جو پاپ کلچر کا حصہ یعنی غلط العام ہیں، مثلاً یہ کہ شہزادہ چارلز کے ساتھ ڈیانا کا ابتدائی تعلق
ایک غریب لڑکی کا امیر شہزادے کے ساتھ تعلق تھا۔
سپنسر خاندان دراصل ایک ارب پتی خاندان ہے اور ان کا کئی نسلوں سے شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے۔ لاج کہتے ہیں کہ ‘ڈیانا کو ورکنگ کلاس سمجھنا بالکل غلط ہے۔ مگر یہ عام تصور کا حصہ ہے۔‘
بدقسمتی سے یہ تاثر اسی لمحے بن گیا تھا جب ڈیانا پہلی بار منظرِ عام پر آئی تھیں۔
ں خود بتائے گئے ہیں۔ اس میں بھی وہی پرانی کہانی ہے: ڈیانا اور چارلس کا کمیلا پر جھگڑا ہوتا ہے جو ان دونوں کے درمیان تیسرا فریق تھی۔
فلم میں ڈیانا کے 1995 میں بی بی سی کے صحافی مارٹن بشیر کے ساتھ انٹرویو کی معروف لائن ‘کیا آپ کے خیال میں یہاں ذرا رش نہیں ہے؟‘ بھی استعمال کی گئی ہے۔ چارلس بظاہر ڈیانا کو ان کی غلطیوں پر منافقانہ انداز میں نمٹتے ہیں اور محبت سے خالی اس شادی میں ہونے کی وجہ سے ڈیانا کسی اور کی بانہوں میں پہنچ جاتی ہے۔ وہی جذباتی موسیقی اور ایک ہی فارمولے پر بنی فلم، یہ کوئی خاص چیز نہیں تھی۔
یہ جاننا تو ناممکن ہے کہ اگر آج ڈیانا زندہ ہوتیں تو ہمارے ثقافتی بیانیے میں ان کا کیا مقام ہوتا۔ سنہ 1997 میں ان کی غیر متوقع موت نے انھیں ایک علامت بنا دیا اور ان کے اس رتبے میں کوئی شک نہیں ہے۔
ان کی ہلاکت کے چند گھنٹوں بعد ہی برطانوی وزیراعظم م بلیئر نے انھیں ‘دی پیپلز پرنسز‘ کہہ کر پکارا اور ان کا یہی تاثر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
اس تاثر کو پاپ کلچر میں اکثر ایک سانحے کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے اور نئی فلم ’سپنسر‘ بھی اس خیال سے متفق ہے۔ مگر اس سانحے کا بنیادی خیال، اس کا مرکزی مطلب کیا ہے؟ یہ دیکھنے والے کی نظر اور سوچ پر منحصر ہے۔
کہتے ہیں کہ ‘یونانی ڈرامے کا ہیرو سانحے سے بچنے کی حتیٰ امکان کوشش کرتا ہے، مگر حقیقت میں اس کی ساری قابلیت اسے اس سانحے کے قریب تر لا رہی ہوتی ہے۔ اور آخر میں اس کا سامنا موت سے ہوتا ہے۔ عملی طور پر تو وہ پیرس میں پریس سے بھاگنے کے لیے تیز رفتار گاڑی میں سوار تھیں لیکن ایک طرح سے ڈیانا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔‘
لائے رین کہتے ہیں کہ وہ اور فلم کے مصنف سٹیون نائٹ جان بوجھ کر اس سانحے یعنی ڈیانا کے آخری سال، آخری مہینے اور دن، اور پھر وہ حادثہ، اس سب پر زیادہ توجہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ ’ڈیانا‘ اینڈ ’ڈیانا دی میوزیکل‘ میں اس سب سے سطحی طور پر نمٹا گیا ہے مگر ’سپنسر‘ ایسا نہیں کرتی۔